مدینے میں ملنے والا حضرت عثمان کے کنویں کا پانی اور باغ کی کھجوریں

ویب ڈیسک

مدینہ منورہ کو کنوؤں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ سیرت مطہرہ کے مطالعے کے دوران مدینہ منورہ میں دور نبوت میں کئی کنوؤں کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان میں ایک کنواں خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے خرید کر فی سبیل اللہ وقف کردیا تھا۔ کتب سیر میں اس کنویں کا نام ’بئر رومہ‘ ملتا ہے۔ حضرت عثمان کا یہ صدقہ جاریہ 1400 سو سال سے پیاسوں کی پیاس بجھاتا چلا آ رہا ہے

حضرت عثمان کا یہ کنواں خرید کر وقف کر دینے کا واقعہ اسلام کی تاریخ میں ایثار کے متعدد واقعات میں سے ایک ہے

”بئر عثمان رضی اللہ عنہ“ سے جانا جانے والا یہ کنواں مسجد نبوی سے تقریباً چار پانچ کلو میٹر اور مسجد قبلتین سے تقریبا ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ازہری محلہ میں وادی عقیق کے کنارے واقع ہے اور اب محمکہ زراعت کے تابع ہے

واقعے کے مطابق جب نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میٹھے پانی کا یہ کنواں ایک یہودی کی ملیکت تھا جو لوگوں کو پینے کا پانی قیمتاً مہنگا فروخت کرتا تھا۔ نبی خاتم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مسلمانوں کے لیئے بئر رومہ خریدے گا، اسے جنت میں اس سے بہتر انعام ملے گا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آدھا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا، یہودی نے کہا ایک دن آپ کا اور ایک دن میرا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی باری والے دن مسلمان اپنی دو دن کی ضرورت کا پانی بھر لیتے اور یہودی سے نا خریدتے ۔ وہ کہنے لگا آپ نے تو میرا کاروبار خراب کر دیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے باقی نصف حصہ بھی خرید لیا اور امیر، غریب و مسافر سب کے لئے وقف کر دیا

یہ کنواں (رومہ کنواں) آج چودہ سو سے زائد سال گزرنے کے بعد بھی پانی دے رہا ہے۔ اس کے پانی میں کسی قسم کی آلودگی نہیں پائی جاتی بلکہ یہ کنواں آج بھی زائرین کو میٹھا اور ٹھنڈا پانی پیش کرتا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کی زندہ معجزہ و نشانی کی بے مثال یاد دلاتا ہے

یہ کنواں مسجد نبوی سے کچھ فاصلے پر کھجوروں کے ایک باغ کے درمیان واقع ہے۔ اس باغ میں مختلف انواع کی کھجوروں کے درخت ہیں۔ ان میں سب سے اہم عجوہ کھجور ہے۔ اس کے علاوہ وہاں پر مختلف پھول دار پودے بھی گائے جاتے ہیں

اس باغ کو سیراب کرنے کے لیے پانی بھی اسی کنویں سے لیا جاتا ہے۔ مدینہ کے مقامی ریکارڈ کے مطابق یہ کنواں اور اس کے گرد باغ اب بھی حضرت عثمان کی ملکیت ہے

مدینہ میں مسجدِ نبوی سے گیارہ کلومیٹر کی مسافت پر قائم ایک دکان ہے جو رومہ کنویں کے قریب ہے، جہاں سے آپ نہ صرف یہ پانی پی سکتے ہیں بلکہ اس باغ کی کھجوریں خرید بھی سکتے ہیں

’ارویٰ المدینہ للتمور‘ نامی دکان کے مالک نثار احمد ہیں جن کے مطابق یہاں ایک کولر موجود ہے، جس میں اس کنویں کے پانی کو ملایا جاتا ہے اور گاہکوں کو بغیر کسی معاوضے کے پیش کیا جاتا ہے

نثار احمد نے بتایا ”اس پانی میں بئر عثمان کا پانی شامل ہے۔ یہ وہ کنواں ہے جس کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جو شخص یہ کنواں لے کر وقف کرے گا اس کے لیے جنت میں کنویں کا وعدہ ہے۔ یہ نیکی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی“

نثار احمد کے مطابق کنویں سے اب بھی پانی آتا ہے۔ اس بات کی تصدیق خود مدینہ کے محقق بھی کر چکے ہیں

مدینہ کی ترقیاتی اتھارٹی کے ایک سائنسی محقق عبداللہ کابر نے سعودی پریس ایجنسی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کا یہ واحد کنواں ہے، جس سے اب بھی پانی آتا ہے

عبداللہ محمد کابر نے خبر رساں ادارے’ایس پی اے‘ کو بتایا کہ صحابی رسول عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا وقف کردہ کنواں عہد نبوت کے سات کنوؤں میں سے ایک ہے۔ دیگر چھ کنوؤں کو اریس، غرس، بضاعہ، بصہ، حاء اور العھن کہا جاتا ہے

نثار احمد نے بتایا ”اس کنویں میں ایک مشین لگا دی گئی ہے جس سے ٹینک کو بھرتے ہیں اور پھر پائپ کے ذریعے درختوں کو پانی دیا جاتا ہے۔ اس پانی کو بیچنا جرم ہے۔ یہ پانی ہمارے پاس موجود ہوتا ہے، لوگ آتے ہیں، پیتے ہیں۔ یہ سبیل ہے اور اس کے لیے کوئی پیسے وغیرہ نہیں لیتے“

کنویں سے متصل باغ کے حوالے سے نثار احمد نے بتایا ”اس باغ میں اس پانی سے تیار ہونے والی کھجوریں ہمارے پاس آتی ہیں۔ ہم نیلامی میں تمام فصل خرید لیتے ہیں اور یہ کھجوریں سارا سال دستیاب ہوتی ہیں“

سعودی حکومت نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے نام سے ایک وقف اکاؤنٹ بھی کھول رکھا ہے جس میں اس باغ سے حاصل ہونے والی آمدنی جمع ہوتی ہے، جس سے غریب افراد کی مدد کی جاتی ہے

سعودی محکمہ اوقاف کے مطابق جب سعودی ریاست قیام عمل میں آئی تو ریاست نے اس کنویں کی دیکھ بھال شروع کی اور اردگرد کی زمین کو دوبارہ واپس کیا اور اس پر کھجور کے درخت لگانا شروع کیے

’1953 میں وزارت ماحولیات و زراعت نے وزارت اسلامی امور سے اس کنویں کو لیز پر حاصل کیا اور کھجور کے باغات یہاں لگائے۔ اس باغ میں اب پندرہ ہزار سے زائد درخت ہیں جبکہ اس کنویں کی گہرائی تقریباً سینتیس میٹر ہے اور پانی انتیس میٹر پر موجود ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close