زیرحراست نوجوان کی ہلاکت: کیچ میں لواحقین کا میت سمیت پانچ روز سے دھرنا

ویب ڈیسک

بلوچستان کے ضلع کیچ میں ایک زیر حراست نوجوان کی ہلاکت کے خلاف لواحقین نے میت کے ہمراہ پانچ روز سے دھرنا دے رکھا ہے، جنہیں مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے

کیچ کے ضلعی ہیڈ کوارٹر تربت میں فدا چوک پر جاری دھرنے میں مختلف سیاسی جماعتوں، لاپتہ افراد کی تنظیم، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکن بھی شریک ہیں۔
لواحقین کا مطالبہ ہے کہ سی ٹی ڈی کے افسران کے خلاف عدالتی احکامات کے مطابق مقدمہ درج کیا جائے

سرکاری اعلامیے کے مطابق بائیس سالہ بالاچ بلوچ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پولیس کی 22 اور 23 نومبر کی درمیانی شب تربت کے علاقے پسنی روڈ پر ہونے والی ایک کارروائی میں تین ساتھیوں سمیت مارے گئے تھے

بالاچ بلوچ کی بہن نجمہ بلوچ کا الزام ہے کہ ان کے بھائی کو سکیورٹی فورسز نے 29 اکتوبر کو تربت کے علاقے آبسر میں اپنے گھر سے آدھی رات کو اہل خانہ کے سامنے گرفتار کرکے لاپتہ کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی نے ان کے بھائی کی گرفتاری 20 نومبر کو ظاہر کی اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے عدالت میں پیش کیا۔ عدالت نے انہیں 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر سی ٹی دی کے حوالے کیا

ان کا کہنا تھا ’عدالت سے ریمانڈ لینے کے دو روز بعد ہی انہیں جعلی مقابلے میں مارا گیا ۔ ہم خوش تھے کہ ہمارے لاپتہ بھائی کا پتہ چل گیا، انہیں عدالت میں پیش کیا گیا مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ انہیں اس طرح جعلی مقابلے میں مار دیا جائےگا۔‘

سی ٹی ڈی نے 23 نومبر کو جاری ہونےوالے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ بالاچ بلوچ کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن آرمی سے تھا اور ان کی موت چھاپے کے دوران اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہوئی

سی ٹی ڈی کے بیان کے مطابق بالاچ ولد مولا بخش کو 20 نومبر کو پانچ کلو گرام بارودی مواد کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ حاصل کیا گیا۔

بیان کے مطابق ’دوران تفتیش بالاچ نے اعتراف کیا کہ اس کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن آرمی سے ہے اور اس نے ٹارگٹ کلنگ، دستی بم اور بم دھماکوں کی کارروائیوں کا اعتراف بھی کیا۔‘

سی ٹی ڈی کے مطابق ملزم بالاچ کی نشاندہی پر پسنی روڈ پر واقع ان کے ساتھی دہشت گردوں کے ایک ٹھکانے پر چھاپہ مارا گیا تو پہلے سے موجود دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کردی، دستی بم پھینکے اور راکٹ بھی فائر کیا جس سے پولیس کی گاڑی کو نقصان پہنچا

بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ اس دوران دہشت گردوں کی فائرنگ سے بالاچ ہلاک ہوگیا، جبکہ اس کے ساتھ موجود اہلکار بلٹ پروف جیکٹ پہننے کی وجہ سے محفوظ رہا۔ پولیس کی جوابی فائرنگ میں تین دیگر دہشت گرد بھی مارے گئے

بالاچ کے بڑے بھائی اجمل نے بتایا کہ 29 اکتوبر کو رات ایک بجے سیاہ کپڑوں میں ملبوس 20 سے 25 مسلح افراد دیوار کود کر ہمارے گھر میں داخل ہوئے۔ کمرے کا دروازہ توڑا اور بالاچ کو ساتھ لے گئے

اجمل کے بقول "جب میرے بھائی بالاچ کو لے جایا جا رہا تھا تو والدہ بے ہوش ہوگئی تھیں۔ مسلح افراد نے ہمیں کہا کہ خاموش رہو اور شور نہ کرو۔ ہم ڈر کی وجہ سے خاموش رہے۔”

اجمل کے مطابق ایک ماہ تک غائب رہنے کے بعد بالاچ کی گرفتاری اس وقت ظاہر کی گئی جب 20 نومبر کو سی ٹی ڈی نے پانچ کلو دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام میں ایف آئی آر میں اسے نامزد کیا۔

بالاچ کے اہلِ خانہ کو ان کی گرفتاری ظاہر کرنے سے متعلق پیش رفت سے ایک نامعلوم نمبر سے آنے والے فون کے ذریعے پتا چلا۔

بالاچ کی گرفتاری ظاہر کیے جانے کے ایک دن بعد انہیں 21 نومبر کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے بالاچ کو 10 روزہ ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیا۔

بالاچ کے بھائی اجمل کہتے ہیں کہ "ہم خوش تھے کہ کم از کم ہمارا بھائی منظرِ عام پر تو آگیا۔ عدالت میں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے خوف کی وجہ سے ہماری زیادہ بات نہیں ہو سکی۔ ہمیں کیا پتا تھا کہ اگلے روز بالاچ جعلی مقابلے میں مار دیا جائے گیا۔”

تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست بلوچ کا کہنا ہے کہ ’بالاچ بلوچ کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا وہ سی ٹی ڈی کی حراست میں تھے۔ ان کے ساتھ مارے جانے والے باقی تینوں افراد بھی جبری طور پر لاپتہ تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے خلاف تربت میں پانچ روز سے دھرنا جاری ہے جس میں بالاچ کے لواحقین ان کی میت کے ہمراہ شریک ہیں

تربت دھرنے میں پریس کانفرنس کرتے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس دھرنے میں بلوچستان بھر کی آواز شامل ہے اور وہ یہ آواز یہی کہ اغواء نما گرفتاریاں بند کی جائیں، جھوٹے مقابلوں کے بے بنیاد دعوے کرنے والے اداروں کو مجرم قرار دیا جائے

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بالاچ بلوچ کے لواحقین کو مسلسل ہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، دھرنے پہ موجود لواحقین کو لالچ و دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے

انہوں نے مزید کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے مکران بھر کے عوام کو دھرنے میں پہنچے کی اپیل کرتے ہیں جہاں پر اس جبر، وحشت اور ناانصافیوں کے خلاف باقاعدہ تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ مکران بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال جبکہ کیچ میں پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی, جس پر سختی سے عمل کیا جائے گا جبکہ مکران بھر سے طلباء، نوجوان، کاروباری حضرات سب سے کیچ اور دھرنا پہنچنے کی اپیل کرتے ہیں

دوسری جانب تربت میں لواحقین کے دھرے کے بعد عدالتی حکم کے باوجود سی ٹی ڈی کے خلاف تاحال مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔ عدالت نے اتوار کو سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دیا تھا۔ لیکن پیر کو آخری اطلاعات تک ان احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا

 سی ٹی ڈی پر الزامات

بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم "وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز” نے سی ٹی ڈی پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا ہے

واضح رہے کہ 22 اور 23 نومبر کی درمیانی شب سی ٹی ڈی کی جانب سے مبینہ مقابلے میں چار افراد مارے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق مارے جانے والے چاروں افراد کی شناخت لاپتا افراد میں شامل لوگوں میں ہوئی ہے

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ان چاروں افراد کی معلومات پہلے سے موجود تھیں۔ البتہ بلوچستان کا محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) ان الزامات کو مسترد کرتا ہے

سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں مارے جانے والے افراد کی شناخت بالاچ مولا بخش، سیف اللہ، ودود اور شکور کے نام سے کی گئی تھی

بالاچ حوالے سے ان کے عزیزوں کا کہنا ہے کہ وہ پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا جن کی عمر لگ بھگ 20 سال تھی۔ وہ درزی کی دکان پر کام کرتے تھے

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز یہ دعویٰ کرتی ہے کہ صوبے میں لگ بھگ آٹھ ہزار بلوچ جبری طور پر غائب کیے گئے ہیں۔ لیکن حکومت ان اعداد و شمار کو درست تسلیم نہیں کرتی۔

بالاچ کے اہلِ خانہ، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں گزشتہ کئی روز سے تربت کے شہید فدا چوک پر بالاچ کی لاش کے ہمراہ دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

ان کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جب کہ سی ٹی ڈی کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے

اتوار کو سیشن جج نے پولیس کو سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ مظاہرین کے مطابق ایف آئی آر کا اندراج تاحال نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب بالاچ کی لاش کی تدفین بھی ابھی تک نہیں کی گئی ہے۔

بالاچ کے وکیل جادان دشتی کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی نے ان کا جسمانی ریمانڈ لے لیا تھا۔ اس کے باوجود ان کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ یہ عدلیہ کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے

بلوچستان بار کونسل نے بھی 23 نومبر عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ مسلسل احتجاج کے بعد جج نے جسٹس آف پیس کے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے پولیس کو سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کرنے کا حکم دیا۔

یورپی یونین کی رواں ماہ ہی سامنے آنے والی جی ایس پی پلس رپورٹ میں پاکستان میں بڑھتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے کیسز پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ (ایچ آر سی پی) نے بھی ایک بیان میں بلوچستان میں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کی مذمت کی ہے اور واضح کیا ہے کہ کسی بھی شخص کی جان کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جنرل سیکریٹری سمی دین نے کہا کہ اگر لوگوں پر الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ جرم ثابت کیا جائے۔ لوگوں کو اٹھا کر غائب کرنا اور پھر مسخ شدہ لاشیں پھینکنا یا پھر جعلی مقابلوں میں لوگوں کو مارنے سے سے نفرت بڑھے گی۔

گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو گمشدہ بلوچ طلبہ کے کیس پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ تاہم نگراں وزیرِ اعظم نے بیرونِ ملک دورے پر ہونے کے سبب پیشی سے معذرت کی ہے۔ عدالت نے 29 نومبر کو نگراں وزیرِ اعظم کو عدالت طلب کر رکھا ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جنرل سیکریٹری سمی دین نے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کے بیان سے متعلق کہا کہ حکمرانوں کو عدالتوں کا خیال تک نہیں۔ اسی وجہ سے وہ مسنگ پرسنز کے مسئلہ کو اہمیت نہیں دیتے

لاپتا افراد کی بازیابی کی کوششیں

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی رہنما اور سابقہ رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار کہتی ہیں کہ ان کی جماعت 400 سے زائد لاپتا افراد کو بازیاب کرانے میں کامیاب رہی

انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب ایک بچہ اپنی ماہ کے ساتھ سڑکوں پر والد کی بازیابی کے لیے جدو جہد کرتے ہوئے بڑا ہوگا تو اس کے دل میں ریاست کے لیے محبت کیسے ہوگی؟

بی این پی بلوچ لاپتا افراد کے مسئلے کے حل کے لیے زور دیتی رہی ہے۔ 2018 میں عام انتخابات کے بعد جب عمران خان کی وفاقی حکومت قائم ہوئی تو بلوچستان نیشنل پارٹی نے چھ نکات کے تحت ان کی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔ ان نکات میں سے ایک نقطہ لاپتا افراد کی بازیابی بھی تھا۔

شکیلہ نوید نے کہا کہ تربت میں اس وقت بھی خواتین اور بچے احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے مطالبات مانے جائیں اور سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج اور واقعے کی جوڈیشل تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا جائے۔

بلوچستان بار کونسل کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین ایڈووکیٹ راہب خان بلیدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات سے عدلیہ پر سوالات اٹھیں گے۔ کمیشن تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے تاکہ واقعے کے حقائق سامنے لائے جا سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close