تعلیمی نظام میں بہتری کس طرح لائی جائے؟

زین الملوک

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا راز تعلیم میں پوشیدہ ہے۔ تعلیم سے ایک فرد کی شخصیت نکھرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے پر بھی مثبت سیاسی، معاشی اور معاشرتی اثرات پڑتے ہیں اور یوں ایک خوش حال اور باشعور معاشرہ تشکیل پاتا ہے

پاکستان کے آئین میں اس بات کا عہد کیا گیا ہے کہ پانچ سال سے سولہ سال تک کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دی جائے گی۔ لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد 47 دیگر امور کے ساتھ تعلیم کو بھی صوبوں کو منتقل کیا گیا ہے۔ اب یہ صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ اپنے شہریوں کے اس بنیادی حق کی فراہمی یقینی بنائیں۔ تاہم! پاکستان کے معاملے میں روزِ اول سے تعلیمی نظام میں بے شمار نقائص رہے ہیں اور کسی نے بھی مخلصانہ انداز میں اُنہیں حل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ گو کہ یہ سوال ہمیشہ سے ماہرینِ تعلیم اور حکمرانوں نے دہرایا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام کیسے بہتر ہو؟ لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے

درج ذیل سطور میں کچھ تجاویز دی جارہی ہیں، جن سے کسی حد تک اس نظام کی بہتری کا راستہ متعین ہوسکتا ہے

1۔ سیاسی اتفاقِ رائے

ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات کی وجہ سے کبھی بھی نصاب سازی یا قومی تعلیمی پالیسی تشکیل دینے میں سیاسی اتفاقِ رائے نظر نہیں آیا۔ لہٰذا تعلیمی نظام کے معیار اور تسلسل میں اکثر خلا نظر آیا ہے۔ کوئی آکر پبلک، پرائیویٹ اور مدرسہ نظام متعارف کرواتا ہے اور کوئی یکساں نصاب کے نام پر سب کچھ ختم کرتا ہے۔ کوئی قومیانے کی پالیسی اپناتا ہے اور کوئی نجکاری کو ترجیح دیتا ہے۔ عام طور پر دیکھا جائے تو فی الحال پاکستان میں تعلیم کا دہرا معیار نظر آتا ہے۔ امیروں کےلیے انگلش ایجوکیشن سسٹم کا آئی بی کریکولم، او لیولز اور اے لیولز اور غریبوں کےلیے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا نظام۔

گزشتہ حکومت کا یکساں نصاب کا تصور اچھا تھا، لیکن اس میں بھی کئی ایک نقائص تھے۔ ایک نقص یہ بھی تھا کہ اس میں تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق نہیں تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے تمام اسٹیک ہولڈرز خاص کر سیاسی رہنما ایک نکتے پر (ملک و قوم کی خاطر) متفق ہوجائیں اور نظامِ تعلیم کو بہتری کی طرف لے جائیں۔

2۔ نصاب پر نظرثانی

دنیا میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں، جن سے ہماری زندگی میں کئی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارا نصاب، نصاب کے اہداف و معیار، درسی کتابیں، اساتذہ کا معیار اور کتب خانے وہی ہیں جو آج سے عشروں پہلے تھے۔ ان میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی۔ نصاب پر ہر چار پانچ سال کے بعد نظرثانی ازحد ضروری ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی ماہرینِ تعلیم، اساتذہ، اسکول پرنسپلز، طلبا، والدین اور حکمرانوں کی شرکت ہونی چاہیے۔ ایسا ہوا تو ہم زمانے کے ساتھ چلنے کے قابل ہوسکیں گے، ورنہ آج کی طرح ترقی کی راہ میں بہت پیچھے رہیں گے۔

3۔ تعلیمی بجٹ میں اضافہ

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنے سالانہ بجٹ میں تعلیم کےلیے اچھی خاصی رقم مختص کرلیتے ہیں، لیکن پاکستان میں یہ شرح ہمیشہ سے غیر تسلی بخش اور کم رہی ہے۔ سال 2021-22 میں مملکتِ خداداد میں تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا 1.5 فیصد تھا۔ پچھلے نصف صدی کے سالانہ بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بجٹ 1.5فیصد سے لے کر 3 فیصد تک ہی محدود رہا ہے اور 3 فیصد بھی صرف تین مرتبہ یعنی 1987، 1998 اور 2015 میں ہی رہا۔ اس کے مقابلے میں اگر دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی بجٹ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ سال 2021 میں ناروے 6.4 فیصد کے ساتھ سرِفہرست، جب کہ نیوزی لینڈ 6.3 فیصد، یوکے 6.2 فیصد اور امریکا نے 6.1 فیصد اپنے کل بجٹ میں سے تعلیم کےلیے مختص اور خرچ کیا۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی تعلیمی بجٹ 3.1 فیصد ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران تعلیمی بجٹ میں سنجیدگی سے اضافہ کریں اور اس کا مخلصانہ و ذمے دارانہ استعمال بھی یقینی بنائیں۔

4۔ اساتذہ کی تدریسی تربیت

کسی بھی تعلیمی نظام کی بہتری اور کامیابی کےلیے ٹیچرز ایجوکیشن اور ٹریننگ کی بہت اہمیت ہے۔ اساتذہ کے تربیتی پروگرام نہ صرف معیاری تعلیم کے انتظام کے ضامن ہیں بلکہ یہ معاشرے کے چند ناسوروں کی بیخ کنی کی طرف آگاہی کا بھی مؤثر ذریعہ ہیں۔ مثلاً اساتذہ کے تربیت یافتہ ہونے سے معاشرے سے نفرت، بدعنوانی، اقربا پروری، چوری اور ذات پات کے بُت توڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مگر ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اساتذہ کی بھرتی بغیر کسی تدریسی تربیت کے کی جاتی ہے۔ اگرچہ حکومتی سطح پر اساتذہ کی تدریسی تربیت کا ایک اسٹرکچر موجود ہے لیکن اس میں بھی بے شمار نقائص ہیں اور انھیں ترجیحی بنیادوں پر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کےلیے لائسنس کا اجرا لازمی ہو اور پری سروس اور اِن سروس ٹریننگ کا بندوبست کیا جائے۔

5۔ رٹا کلچر کی حوصلہ شکنی

ہمارے معاشرے میں کوئی توتے کی طرح کچھ موضوعات رٹ کر فرفر سنائے تو بدقسمتی سے اسے قابل سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اس طالب علم سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ اس بات کا مطلب کیا ہے تو اُسے کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ ناچیز نے بے شمار ایسے امیدوار دیکھے ہیں جو کہ مختلف مضامین میں ایم ایس، ایم فل یا پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہوتے ہیں اور اپنے مضمون میں کسی تصور کی تعریف سنانے کے علاوہ انھیں کچھ نہیں آتا۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اس تعریف کا مطلب کیا ہے؟ آسان الفاظ میں اس تصور کو سمجھائیں یا اس تصور کا اطلاق عام زندگی میں کہاں کہاں کیا جاسکتا ہے یا کہاں کہاں نظر آتا ہے تو وہ مستقل چپ سادھ لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہترین نمبرات اور اعزازات کے ساتھ ڈگری کے ہوتے ہوئے بھی اچھی ملازمت نہیں لے پاتے۔ اب وقت آیا ہے کہ اپنے تعلیمی نظام سے رٹا کلچر کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کےلیے امتحانی نظام، درسی کتابوں اور نصاب میں ضروری تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ اساتذہ کو اسی کے مطابق تیار کرنا ہوگا۔ یہ راتوں رات تو ممکن نہیں ہوگا لیکن یہ تبدیلی بتدریج ممکن ہے اور نتیجہ خیز بھی۔

6۔ احتساب

فی الوقت ہمارے ملک میں نہ تو اچھے کام کا صلہ ہے اور نہ ہی کسی غیر ذمے دارانہ رویے کے باعث ہونے والے نقصان کی سزا۔ اگر ہے بھی تو برائے نام۔ اپنے تعلیمی نظام کو ایسا بنانے کی ضرورت ہے کہ اساتذہ اپنی ڈیوٹی ایمان داری سے ادا کریں۔ جہاں ان کی پوسٹنگ ہو وہاں پر جانا اور اچھی تدریس کرنا ان کا نصب العین ہو۔ ایسے معاملات میں جو اپنے فرائض احسن طریقے سے نبھائیں ان کےلیے شاباش اور انعام کا بندوبست ہو اور اگر کوتاہی برتیں تو ان سے جواب طلبی ہو اور احتساب کا مؤثر نظام ہو۔ خیبرپختونخوا میں گزشتہ ایک عشرے میں مانیٹرننگ کا اچھا نظام متعارف ہے، جس سے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری، معیاری تدریس اور طلبا کے اندراج میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا جاسکتا ہے۔ بہت سارے نام نہاد انگلش میڈیم اور کچھ قدرے بہتر اسکولوں سے بچے نکل کر سرکاری اسکولوں میں داخل ہونے کی وجہ سے وہ اسکول مستقل طور پر بند ہوگئے ہیں۔ یہ ماڈل مزید بہتری کے ساتھ ملک کے دوسرے صوبوں تک پھیلایا جاسکتا ہے۔

7۔ تعلیمی شراکت داری

ہمارے تعلیمی ادارے اپنی چاردیواری کے اندر محدود رہتے ہوئے تنہائی میں کام کرتے ہیں۔ مختلف اداروں کی آپس میں شراکت داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ایک اسکول یا کالج بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے تو اس سے دوسرے اسکول اور کالجوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا یا اگر کوئی اسکول مسلسل خراب کارکردگی دکھا رہا ہے تو آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ادارے آپس میں شراکت داری کریں۔ اپنے تجربات، وسائل، کامیابیاں اور مشکلات کا ایک دوسرے سے اظہار کریں اور ایک دوسرے کو سہارا دیں۔ کچھ وقت کےلیے اساتذہ کا تبادلہ ہو، ہیڈ ماسٹرز اور پرنسپلز کی کمیٹی بنائیں، مل کر اسکول ڈیولپمنٹ پلان ترتیب دیں، ایک دوسرے کی نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کا جائزہ لیں اور بہتری کےلیے ماہرانہ رائے دیں۔ کچھ عرصے بعد دیکھیں کہ سب ادارے مل کر کیسے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔

8۔ ٹیکنالوجی کا استعمال

موجودہ دور میں ٹیکنالوجی اور دیگر جدید وسائل کا استعمال ازحد ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے اپنے آپ کو ٹیکنالوجی اور جدید وسائل سے لیس نہیں کرتے اور ابھی تک روایتی طریقوں پر کاربند ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ بہت سارے اداروں کے پاس جدید کمپیوٹر، ملٹی میڈیا، اسمارٹ بورڈ، لیبارٹری کا سامان اور ہزاروں کتب موجود ہیں لیکن سامان اور کتب خانوں کے دروازوں پر قفل لگا ہوا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے یا استعمال کرنے کی مہارت نہیں ہے۔ کہیں کہیں یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ اُنھیں استعمال کرنے سے خراب ہونے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے۔ لہٰذا سامان کو ہاتھ ہی نہیں لگاتے۔ میرے خیال سے پڑے پڑے خراب ہونے سے ایسے سامان کو استعمال میں لاکر خراب کرنا ہزار درجے بہتر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو جدید وسائل مہیا کیے جائیں، ان وسائل کو استعمال کرنے کی مہارت اور ہمت دی جائے، اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کرتے رہنا چاہیے

9۔ والدین کی شرکت

والدین کسی بھی تعلیمی ادارے کا سب سے اہم اسٹیک ہولڈر ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو آپ کے پاس اس امید اور اندھے اعتماد کے ساتھ بھیجتے ہیں کہ آپ ایک اچھے انسان اور کامیاب مستقبل کی ضمانت کے ساتھ ان کو معیاری تعلیم دیں گے۔ وہ خود بھوکا رہتے ہیں لیکن بچوں کی فیس، اسٹیشنریز، کاپیوں، کتابوں، یونیفارم اور دیگر ضروریات کا خرچہ بروقت مہیا کرتے ہیں۔ لیکن افسوس اُنھیں کسی فیصلہ سازی میں شامل نہیں کرتےاور نہ ہی ان کو ان کے بچوں کی تعلیمی کارکردگی کے بارے میں باعزت طریقے سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ بہت سارے ادارے والدین کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ والدین، تعلیمی اداروں اور بچوں کے اس تکون میں ایک سائیڈ ہمیشہ سمجھوتہ کرتی ہے جس کا منفی اثر معیاری تعلیم کے حصول میں صاف صاف دِکھتا ہے۔

معیاری تعلیم تمام بچوں اور شہریوں کا حق ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں اور اتفاقِ رائے سے نصاب پر نظرثانی اور تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کریں۔اساتذہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ رٹا کلچر کا خاتمہ اور تعلیمی اداروں کی بہتری کےلیے احتساب کا بھی بندوبست ہو۔ تعلیمی اداروں کا آپس میں اشتراک، جدید وسائل کا استعمال اور والدین کی تعلیمی معاملات میں شرکت معیاری تعلیم کی طرف چند ایک اقدامات میں سے ہیں۔

نوٹ: یہ مضمون ایکسپریس نیوز اور مصنف کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا۔ لکھاری ایم اے اردو (پشاور یونیورسٹی)، ایم اے سیاسیات (پشاور یونیورسٹی) اور ایم ایڈ (آغاخان یونیورسٹی، کراچی) ڈگری کے حامل ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے شعبۂ تعلیم اور آج کل آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ، کراچی سے بطورِ منیجر ایگزامینیشن ڈیولپمنٹ وابستہ ہیں۔ ان سے ای میل zmuluka@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close