پوٹسڈیم انسٹی ٹیوٹ برائے موسمیاتی امپیکٹ ریسرچ (پی آئی کے) کے ایک حالیہ مطالعے کے مطابق ، گلوبل وارمنگ نے بھارت کی مون سون بارشوں کو ناقابل پیش گوئی کی حد تک تبدیل کر دیا ہے
تجزیہ کے اہم نکات میں سے ایک کے مطابق ، گلوبل وارمنگ کے ہر ڈگری سینٹی گریڈ کے ساتھ مون سون بارشوں میں 5 فیصد کا اضافہ متوقع ہے
اگرچہ زیادہ بارشیں بظاہر تو بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، لیکن بہت زیادہ بارشیں (یا بہت کم بارشیں) فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ بھارت اس موسمی بارش پر انحصار کرتا ہے تاکہ دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کو کھانا کھلانے کے لئے ضروری فصلوں کو برقرار رکھا جاسکے۔ تاہم ، اس مطالعے کے مصنفین کا کہنا ہے کہ آب و ہوا میں یہ بدلاؤ بھارت کی زراعت پر شدید منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے
اس مطالعے کا ہولناک پہلو یہ ہے کہ مون سون بارشوں میں صرف اضافہ ہی نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ تغیر پزیر ہونگیں۔ اس میں ایسے علاقوں میں طویل دورانیے کی خشک سالی کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے، جہاں بارش کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ایک تباہ کن افراتفری اور غیریقینی پر مبنی مستقبل ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کا زراعت کا شعبہ ملک کی سالانہ جی ڈی پی کا تقریباً 20 فیصد ہے اور ملک کی معیشت میں اہم کردار دا کرتا ہے
اس تحقیق کے ایک اہم مصنفین میں سے ایک، ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے علم کے ماہر آندریس لیورمین کا کہنا ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلیاں اای طرح جاری رہیں تو یہاں کے باسیوں کو مون سون کے ایسے تباہ کن موسموں کا سامنا کرنا پڑے گا جو کاشتکاری پر انتہائی منفی اثر ڈال سکتے ہیں
مثال کے طور پر چاول، جو برصغیر پاک و ہند میں خوراک کا ایک بڑا ذریعہ ہے ، بارش میں بدلاؤ کے حوالے سے انتہائی حساس ہے۔ اس کی فصل کو بارش کی ضرورت ہوتی ہے ، خاص طور پر ابتدائی بڑھتی ہوئی مدت کے دوران۔ لیکن ایک ساتھ بہت کم یا بہت زیادہ بارشیں اس کی فصل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
گذشتہ ماہ 23 مارچ 2021ع کو خطے میں تیز بارش سے امرتسر کے قریب گندم کو شدید نقصان پہنچا، یہی وہ موسمیاتی تغیر پذیری ہے جس میں غیر متوقع بارشوں کا خدشہ موجود رہتا ہے اور ماہرین جس کے بارے میں تشویش رکھتے ہیں
پوٹسڈیم انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ لیور مین بتاتے ہیں ، "آب و ہوا میں اس طرح کے تغیر میں اضافہ کا مطلب یہ ہے ہم موسم کی صحیح پیش گوئی کرنے کے قابل نہیں رہیں گے ، جس سے کسانوں کو مون سون سے نمٹنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔”
گھڑی کے چلنے کی طرح ، ہر جون سے ستمبر تک ، ہندوستان بھر کے کسان سالانہ بارش کے آغاز اور اختتام کی توقع کرتے ہیں ، جنھیں جنوب مغربی مونسون بھی کہا جاتا ہے۔ اس عرصے کے دوران، بین الاقوامی خبر رساں اداروں میں سیلاب کی اطلاع موصول ہوتی ہے جب بے وقت کی سیلابی بارش کا خطرہ اچانک آ دھمکتا ہے ، اور سیلاب کے انتظام کے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے
زراعت پالیسی کے ماہر دیویندر شرما نے بتایا کہ کھیتی باڑی کے طریقوں کو اس آب و ہوا کے تغیرات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہوگی ، لیکن یہ وہ صورتحال ہے جس میں قطعی طور پر کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں ہیں۔ دیویندر شرما کہتے ہیں "ہمیں نہیں معلوم کہ آب و ہوا کی تبدیلی کیسے رونما ہوگی۔ کبھی موسلادھار بارش ہوسکتی ہے ، اس کے بعد خشک سالی یا طوفان آئیں گے۔ یہ یکساں نہیں ہوگا۔ اس سے زراعت کے شعبے میں بھی بہت سارے مسائل پیدا ہوں گے اور معیشت کے لئے بھی۔”
تاریخ بارش کی شدت میں انسانوں کی فطری نظام میں مداخلت کو ظاہر کرتی ہے. PIK نے اپنے حالیہ مطالعے میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فاسل فیول کو جلانے جیسے انسانی عمل کا گرین ہاؤس گیسوں کے گرمی میں پھنسنے میں اہم کردار ہے ، یہاں تک کہ اس عمل نے ہزاروں سالوں میں دیکھنے میں آنے والی آہستہ آہستہ قدرتی تبدیلیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
لیور مین کہتے ہیں ، "مون سون میں ہونے والے تمام قدرتی اور انسانی ساختہ اثرات میں بڑا عمل دخل ماحول کے تحفظ کے بارے میں انسانوں کی بے اعتنائی اور لاپرواہی کا ہے.”
وہ کہتے ہیں کہ "دنیا بھر میں کوویڈ۔19 لاک ڈاؤن کے دوران آلودگی کی سطح میں کمی کے باوجود ، گرمی سے پھنسنے والی گرین ہاؤس گیسیں نئی ریکارڈ اونچائیوں تک بڑھتی چلی جارہی ہیں۔”
یہ رپورٹ اگرچہ ہندوستان کے حوالے سے مرتب کی گئی ہے لیکن ہمیں یہ بات قطعاً نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے. پاکستان میں بھی بے وقت کی بارشوں کا خطرہ موجود ہے یا پھر ایسے علاقوں میں بارشوں کا بلکل نہ ہونا، جہاں بارشوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے. فطری نظام میں ہماری مداخلت کے تباہ کن اثرات کو ہم شاید محسوس بھی نہیں کر پاتے، لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کا احساس بہت جلد فطرت ہمیں خود دلا دے گی!