جارج فلائیڈ ک ہلاکت کے معاملے میں سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو قتل کا مجرم قرار دے دیا گیا ہے
افریقی نژاد امریکی سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے مقدمے کی تین ہفتے کی سماعت کے بعد 12 رکنی جیوری نے سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو قتل کا مجرم قرار دے دیا
جیوری کی جانب سے ڈیرک شاوین کو قتل سمیت تینوں الزامات میں قصوروار قرار دیا گیا ہے جس کے بعد ڈیرک شاوین کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا گیا
امریکی صدرجوبائیڈن نے جیوری کے اس فیصلے سے متعلق کہا کہ منظم نسل پرستی پوری قوم کی روح پرایک دھبہ ہے جب کہ جارج فلائیڈ کی موت دن کی روشنی میں قتل ہے
ﻭﺍﺋﭧ ﮨﺎﻭٔﺱ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺟﺎﺭﺝ ﻓﻼﺋﯿﮉ ﻗﺘﻞ ﮐﯿﺲ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﻮﺭﯼ ﮐﮯ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺻﺪﺭ ﺑﺎﺋﯿﮉﻥ ﻧﮯ ﺟﺎﺭﺝ ﻓﻼﺋﯿﮉ ﮐﯽ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮐﻮ ﭨﯿﻠﯽ ﻓﻮﻥ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ
ﺟﺎﺭﺝ ﻓﻼﺋﯿﮉ ﮐﮯ ﭨﺮﺍﺋﻞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺑﯿﺎﻥ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺻﺪﺭ نے ﻣﻨﻈﻢ ﻧﺴﻞ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺯﻭﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭘﻮﻟﯿﺴﻨﮓ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﯾﻤﻨﻞ ﺟﺴﭩﺲ ﺳﺴﭩﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﺴﻠﯽ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ
انہوں نے کہا کہ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﻣﺸﺘﻌﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎﭘﺴﻨﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﻧﮩﯿﮟ،ﮨﻢ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ
جارج فلائیڈ واقعہ کا پس منظر:
گذشتہ برس 25 مئی کی شام کو پولیس کو ایک گروسری اسٹورسے فون آیا جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ ایک شخص جارج فلائیڈ نے جعلی 20 ڈالر کے نوٹ کے ساتھ ادائیگی کی ہے۔ پولیس اہلکاروں نے موقع پرپہنچ کرانہیں پولیس گاڑی میں ڈالاجس سے وہ زمین پر گر پڑے اور انھوں نے پولیس کو بتایا کہ انھیں بند جگہ سے گھٹن اور گھبراہٹ ہوتی ہے کیونکہ وہ کلسٹروفوبک ہیں
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد ابتدائی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں ثابت ہوا تھا کہ سابق پولیس آفیسرڈیرک شاوین نے جارج فلائیڈ کی گردن پر 8 منٹ 46 سیکنڈ تک گھٹنے ٹیکے تھے جس میں سے تقریباً تین منٹ بعد ہی فلائيڈ بے حرکت ہوگئے تھے
تب وائرل ہونے والی ویڈیو میں جارج فلائیڈ بار بار کہہ رہے تھے پلیز، میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں اورمجھے مت مارو
وڈیو کے بعد امریکا میں نسل پرستی کے خلاف کئی دن تک مظاہرے کیے گئے تھے.