ایک سرمایہ دار جسے ملک ریاض کہتے ہیں، ریاست کا اثاثہ بنا ہوا ہے، جو اپنی ذاتی ایمپائر بنا رہا ہے جیسے کہ نمردود نے اپنی جنت بنائی تھی!
یہ ریاست اس کے سارے ادارے مرکزی کہ صوبائی حکومتیں ملک ریاض کے لیئے کام کر رہی ہیں، بشمول عدالتی نظام تمام ریاستی ادارے بلکہ خود ریاست سب کے سب ملک ریاض کو اپنا اثاثہ بنا کے تحفظ دے رہے ہیں.
آج جس طرح بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ کیا، رمضان کے مہینے میں عورتیں مرد بچے بوڑھے سب اپنی زمینوں کی تحفظ کے لیئے بحریہ اور ان کے ساتھ پولیس کے سامنے آئے تو انہوں نے ہوائی فائرنگ کر کے انہیں خوف زدہ کیا، لاٹھی چارج کیا گیا کچھ لوگ زخمی ہوئے، خواتین کے اوپر ہیوی مشینریز چڑھائی گئی.
کیا اب بھی کوئی کہے گا کہ یہ ترقی ہے؟
نہیں یہ ترقی نہیں، یہاں کی مقامی آبادی کے لیئے موت ہے! کیا اب بھی کوئی کہے گا یہ سب لوگ خود بیچ رہے ہیں؟
نہیں، یہ سب زبردستی ڈنڈے کے زور پر کیا جا رہا ہے!
کیا اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ان کا مسئلہ ہے، ہمارا نہیں؟
نہیں، آج ان کی تو کل ہماری باری ہے ـ آج ان کے لیئے سب چپ ہیں، تو کل جب ہم پہ کوئی عذاب نازل ہو گا، تو باقی سب چپ ہوں گے!
ہم تو تین سال سے کہہ رہے ہیں کہ کراچی کی تقسیم کی سازش ہو رہی ہے، ملیر ضلع کو توڑ کر اور ضلعے بنائے جائیں گے. جس میں ضلع جامشورو، نوری آباد اور ضلع ٹھٹہ کی کچھ دیھ ملا کر ان سرمایہ داروں بحریہ ڈی ایچ اے اور دیگر غیر قانونی پراجیکٹس کو قانونی بنایا جارہا ہے ـ آج وہی سب کچھ ہو رہا ہے!
ضلع گڈاپ اور ضلع بحریہ سمیت اور ضلعے بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے. کیا یہ سب اتنے میں تھم جائے گا.. نہیں بلکہ آگے یہ بچہ کھاؤ اور منصوبے لے آئیں گے جس میں ساحل کی ترقی جزائر کی ترقی پھر آگے چل کر سندھ کی آبادی کے نام پر انتظامی تقسیم!
کون سی بڑی لاجک ہے.. ذرا ایم نائن کے روڈ سے کراچی سے حیدر آباد تک سفر کیجئے یا گھگھر پاٹھک سے ٹھٹہ سجاول بدین تک سفر کیجئے یا گهارو سے کیٹی بندر یا کھاروچھان تک سفر کیجئے.. اطراف کا جائزہ لیجئے، پتہ چل جائے گا کہ سندھ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے.
ابھی فی الحال ملیر اور بحریہ پہ بات کرتے ہیں، تو صوبائی حکومت کراچی کی میئر شپ کے حصول پر نئے ضلعے بنانے جا رہی ہیں. مگر بات اتنی سادہ نہیں ـ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ بحریہ ٹاؤن کراچی، ڈی ایچ اے اور دیگر غیر قانونی کمرشل ہاؤسنگ اسکیموں کو قانونی قرار دینے کی طرف پہلا قدم ہےـ ان ہاؤسنگ اسکیموں میں کون رہے گا، یہاں کنکریٹ کے جنگل بن جانے سے کیا ماحولیاتی تباہی ہو گی، یہاں کے مقامی لوگ کہاں جا مریں گے، K4 کے منصوبہ کا فائدہ کسے ہو گا، یہ سب الگ بحث طلب موضوع ہیں ـ بات دراصل یہ ہے کہ یہاں کی مقامی لوگوں کی قیادت کہاں ہے؟ کس بل میں جا کر چھپ گئی ہے؟ کیا انہیں یہ ادراک نہیں کہ یہ سب کچھ ہونے کے بعد خود ان کی اپنی حیثیت کیا ہوگی؟ ان کے لیئے شرم کی بات ہے کہ ان کی موجودگی میں ملیر اور ان کے لوگوں کو تباہ کیا جا رہا ہے اور یہ سب گونگے بہرے بن کر اپنے اپنے مفادات کی چوسنی لیکر چوس رہے ہیں ـ اپنے مفادات میں یہ سب اتنے گر چکے ہیں کہ اب ان کے فیصلے ملک ریاض کے داماد ملک زین کرتا ہے اور یہ سب خاموش بن کر جی حضوری میں لگے ہوئے ہیں اور ملک ریاض یہاں کے لوگوں کے ساتھ جو چاہے کرے.. مار دے، دفن کر دے، مگر یہ کچھ نہیں بولیں گے..
اب سوال یہ بھی آتا ہے کہ سندھ کی قوم پرست پارٹیاں کس حساب سے کراچی کو اپنا کہتی ہیں، پورے سندھ کے لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جاؤ کراچی میں مال بناؤ کماؤ کراچی کو اپناؤ ـ اور جو بیچارے صدیوں سے کراچی میں رہتے آئے ہیں، وہ کہاں جائیں کیا کریں؟ چلو مان بھی لیا سندھ کے بیچارے سندھی کراچی آ کر کماتے ہیں، کھاتے ہیں.. مگر ان کے لیئے تو کراچی تو بس ایک مارکیٹ ہوا.. یہاں مزدوری کی اور گاؤں اپنے گھر بنا لیا ـ بچے پڑھا لیئے کراچی کیسے ان کا ہوا؟
ج ب تم لوگ یہاں پہ صدیوں سے آباد سندھیوں اور بلوچوں کے حقوق کی تحفظ کے لیئے کچھ نہیں کر سکتے، جو اسی سال سے سندھی زبان کا لاج رکھے ہوئے ہیں.. جو اب دوسرے سندھی جو کہیں اور سے آ کر سندھ میں آباد ہوں گے.. ان کے لیئے کچھ کر پاؤ گے ـ یہ ڈرامہ بازی بند کرو ـ اگر واقعی سندھ کا درد رکھتے ہو تو سندھ کے وحدت کو توڑنے کی سازش ہو رہی ہے اس کو سمجھو، یہ ملیر کو توڑنے کی یا قبضہ کرنے کی سازش نہیں، بلکہ سندھ کو انتظامی طور پر توڑنے کی سازش ہو رہی ہے!
اور جو دوست یہ سمجھتے ہیں کہ ملیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف وہیں محدود رہے گاـ نہیں قطعی نہیں… آج جو کچھ ملیر میں ہو رہا ہے یا گجر نالے میں یا اورنگی میں تجاوزات کے نام پر بیدخلی ہو رہی ہے وہ یہاں تک نہیں رکے گا، اس کا دائرہ بڑھایا جائے گا ـ اس میں اور بہت ساری بستیاں آئیں گی ـ آج ملیر کو تباہ کیا جارہا ہے بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے نام پر اور کل کئی اور بستیاں انہی سرمایہ داروں کے لیئے اجاڑ دی جائیں گی.
انہی سرمایہ داروں کے پراجیکٹ کو کامیاب بنانے کے لیئے K4 جیسے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور کراچی کے لوگوں کو بہلایا جا رہا ہے کہ K4 کا منصوبہ ان کے لیئے بنایا جا رہا ہے ـ مگر اصل میں K4 کا منصوبہ ڈی ایچ اے کے قریب سے گذر کر بحریہ ٹاؤن تک مکمل ہو جاتا ہے..
انہی سرمایہ داروں کے پراجیکٹس کو کامیاب بنانے کے لیئے بجلی کے بڑے بڑے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، جس سے ان کے پراجیکٹس میں چوبیس گھنٹے بجلی رہے اور کراچی کے لوگ لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا رہیں ـ اور گیس کا مین پائیپ لائن انہی سرمایہ داروں کے پراجیکٹس کے بیچوں بیچ سے ہوتا کراچی جاتا ہے جہاں پہلے سے سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ عام ہے مگر ان سرمایہ داروں کی پراجیکٹس میں سارا سال گیس وافر مقدار میں موجود ہو گی!
کراچی کے لوگوں کے لیئے اطلاح یہ ہے کہ اب یہ منصوبے کامیاب بنانے کے لیئے کراچی میں کبھی بجلی کا بحران، کبھی گیس کا بحران تو کبھی پانی کا بحران سر اٹھاتے رہیں گے ـ اور کیبل کے ہر چینل میں بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے، سیون ونڈر سٹی، کمانڈر سٹی اور ایسے دیگر کمرشل پراجیکٹس کے اشتہار چل رہے ہوں گے کہ چوبیس گھنٹے بجلی گیس پانی کی سھولت، فل پروف سیکورٹی سب دستیاب ـ تا کہ جو سکت رکھتے ہیں وہ کراچی کو چھوڑ کر ان کی ہاؤسنگ اسکیموں میں جا کر رہائش پذیر ہوں.
اب آپ خود سوچیئے کراچی میں سب پیسے والے نکل جائیں تو باقی کیا بچے گا؟
غریب مزدور پسا ہوا طبقہ اور مسائل کے انبار… اور کون اور کیا؟؟؟؟؟؟؟؟
اور ڈیفینس کینٹ کلفٹن جیسے علائقے جو پوش علائقے ہیں وہ….؟ وہ تو اب بھی سمجھو جنت میں رہتے ہیں.
ذرا سوچو کراچی کے ساتھ، پورے سندھ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ـ پورا سندھ لیز پر ان سرمایہ داروں کو دیا جا رہا ہے.. جہاں پہلے سے دو ٹکے کے وڈیرے مالک بنے بیٹھے ہیں، جنہیں کسی مزدور کسی کسان کی کوئی پرواہ نہیں ـ اور جس دن یہ کنکریٹ کے جنگل بن کے تیار ہوں گے، تب تک یہ دھرتی دوزخ کا روپ دھار چکی ہو گی ـ جس میں ایک طرف اے سی مکانوں میں بیٹھے مالک ہوں گے اور دوسری طرف جھونپڑ پٹیوں میں کچی آبادیوں میں آباد سلم ڈاگ..
جن کے لیئے انگریزوں نے اپنے کلبوں کے دروازے پہ لکھ رکھا تھا کہ ڈوگز اینڈ لوکل آر نوٹ الاؤڈ..
ہم اسی غلامی کی طرف جا رہے ہیں!