ھمارے قومپرست بھی ھم کو ماموں بنا جاتے ہیں..
جس وقت ملیر میں بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سٹی کا نام تک نہیں تھا، زرداری نے انہیں ہاتھ میں ذوالفقار آباد کا جھنجھنا دے کر گلے میں احتجاج کی گھنٹی باندھ کر کہہ دیا کہ جاکر اس زمین پر احتجاج کرو جو زمین پہلے سے سمندر برد ہوگئی ہے!
جہاں پر ایک سیمنٹ کا بلاک دو ماہ میں سیم تھور کی وجہ سے بُھربھرا جاتا ہے، وہاں کنسٹرکشن کرنا کس قدر مشکل یا ناممکن ہوتا ہے، وہ کوئی نہیں جانتا.
وہاں پر لوگوں کے گھر، گاؤں، آباد زمینیں ھمیشہ سمندر چڑھنے کی وجہ سے پانی کی نظر ہو جاتے ہیں اور صرف لکڑی کی جھونپڑیاں ہی وقتی طور پر برقرار رہ پاتی ہیں جن کی ھر سال مرمت ہوتی رہتی ہے.
زندگی وہاں پر کس قدر کٹھن اور مشکل ہے وہ کے ٹی بندر اور، شاھ بندر اور کھاروچھان کے لوگ ہی بھتر سمجھتے ہیں!
اور جب سوشل ورک وزٹ اور علاقائی دوستوں کی شادی فوتگی کے سلسلے میں کبھی وہاں جانا ہوتا ہے، تبھی پتہ چلتا ہے کہ وہاں زندگی کتنی مشکل ہے
جہاں پر زمین کی قیمت 5000 روپیہ ایکڑ سے لے کر 50000 بھی مشکل سے ہو، جہاں پر باھر کے سرمایہ دار لوگ محض لون لینے کے لئے وہاں پر سستی زمین خریدتے ہیں، اور زمین کی قیمت سے زیادہ لون لے کر رفو چکر ہو جاتے ہیں اور زمین اصل میں سنمدر کے اندر ہوتی ہے
،
اب آپ سوچیں پوری قوم کو کیسے بیوقوف بنا کر ذوالفقار آباد پر لگایا گیا،
اور پیچھے ملیر کی انتہائی قیمتی زمین،
دو لاکھ ایکڑ زمین پر بحریہ ٹاؤن اور 1 لاکھ ایکڑ زمین پر ڈی ایچ اے سٹی، لانچ کیا گیا…
جہاں پر گاؤں، قبرستان اور چراہ گاہیں تھیں، باغات تھے، قیمتی قدرتی درخت، ھر قسم کے جنگلی جانور اور پرندے، سب کچھ اکھاڑ کر اسے کنکریٹ کا جنگل بنا دیا گیا… جب یہ سب منصوبہ بندی ہو رہی تھی تو راؤ انوار جیسے بدمعاش پولیس آفیسر کو لاکر روزانہ کوئی غریب پٹھان کراچی یا دوسری جگہ سے پکڑ کر وہاں پر ٹارگٹ کر کے مارا جاتا تھا اور میڈیا میں بتایا جاتا تھا وہاں پر طالبان تھے!
اور ملک ریاض ٹی وی پر آ کر اشتہارات کی بھرمار سے اپنی لونڈی میڈیا اور خریدے ہوئے اینکروں کو پلانٹڈ انٹرویو دیتا اور کہتا کہ ملیر کے یہ علاقے دھشتگردوں اور منشیات کے گڑھ تھے، ھم نے آکر آباد کیے!
افسوس ھم پھر بھی چپ رہے، ہمارے امن پسند لوگوں کو منشیات فروش اور ھمارے پر امن علاقے کو دھشتگردوں کے اڈے دکھا کر ایک باقاعدہ منظم مہم چلائی گئی… ایک جھوٹ کو میڈیا کے اسٹیج پر نچوایا گیا اور لوگ اس پر اپنا اعتبار نچھاور کرتے رہے… حالانکہ ایسا بلکل بھی نہیں تھا.. دوسری جانب بحریہ کے اندر بسنے والے اکثر لوگ ہی ہیں جو شراب پی کر عیاشی کر کے خود ایک دوسرے کا قتل کر رہے ہیں..
مستقبل میں کیا بحریہ میں شراب اور فحاشی کے اڈے بھی بنیں گیں،
وہ بھی سب کو نظر ا جائے گا..
آج لاکھوں ایکڑ پر بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کی باونڈریز لگی ہوئی ہیں ، نقشوں کے مطابق جو قدیم راستے تھے، لوگوں کے آنے جانے کے وہ راستے تک بند کر دیے گئے ،
ایک گاؤں کو دوسرے گاؤں سے کاٹ دیا گیا، جو راستے میں گاؤں تھے ان کو ملیا میٹ کر دیا گیا، اب یہ سلسلہ شاید بلوچستان کے کسی ساحل تک ہی ختم ہو ، فی الحال بلوچستان کے بارڈر حب تک سلسلہ پہنچ چکا ہے، اور دوسری طرف سے جامشورو اور ٹھٹہ کے کوھستانی علاقے بھی لپیٹ میں آ چکے ہیں..
اکثر لوگ اور خاص طور پر سندھ کی قومپرست جماعتیں اپنی مجرمانہ خاموشی کو جسٹیفائی کرنے کے لیے ھم سے سوال کرتے ہیں تم لوگوں نے زمین بیچ دی، لوگوں کو شاید پتہ نہیں ھمارے لوگوں کے پاس چند ھزار ایکڑ ہی سروے زمین ہوگی،
صدیوں سے یہاں بستے ھمارے تو گاؤں بھی سروے یا نقشوں کے مطابق نہیں ھم تو خود صدیوں سے اپنے گھروں میں غیر قانونی بن گئے ہیں، نہ ہی ھم لوگوں کو زمین لیز یا سروے کر کے دی جاتی ہے،
پھر کیسے ھم زمین سیل کر سکتے ہیں؟؟؟ زمین تو 99 فیصد ھم سے قبضہ کی گئی ہے،
پھر وہ ڈفینس ہو،کلفٹن، ہو، گلشن اقبال ہو، جوھر ہو، اورنگی ،کورنگی ہو ناظم آباد ہو، ملیر ہو، انڈیسٹریل زون ہو، پورٹ قاسم ہو، اسٹیل مل گلشن حدید ہو ہو یا موٹر وے ہو…. سب نے تو زمین سیل نہیں کی، یہ محض اپنی جان چھڑانے اور احتجاج سے راہ فرار کا راستہ اختیار کرنے کا بہانہ ہے
اگر ایک مظلوم بھی اپنی زمین سیل نہیں کرتا تو ھمارا فرض ہے اس کا ساتھ دیں ، بجائے اشو کو ڈائیورٹ کریں،
اس لئیے سب سے عرض،
احتجاج کے صحیح راستے چنیں جہاں جس کی ضرورت ہو،
اور یہ بھی یاد رہے ھم کسی بھی ترقی کے مخالف نہ تھے نہ ھیں،
ھمیں معلوم ترقی سے لوگوں کے روزگار کے زریعے بنتے ہیں،
لیکن وہ ترقی کس کام کی جب آپ مقامی لوگوں کے خون کر کے ظلم کر کےان کے جدی پشتی گاؤں، کھیت کھلیان، تباھ کر کے بنائیں..
ھم مانتے ہیں مقامی نمائندے بھی اس میں برابر کے شریک رہے لیکن اس کے اسباب پر بھی تھوڑا غور کرنے کی ضرورت ہے..
کیا کبھی کسی نے سوچا کہ کہ خود سندھ کی اقتداری پارٹی نے اس مقصد کے لیے بے یقینی اور خوف کا ماحول پیدا کر کے ریاستی طاقت استعمال کی..
کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی کی زمینوں کی فروخت پر پابندی لگائے جانے کے فیصلے کو بے اثر بنانے کے لیےاور ملک ریاض کو نوازنے کی خاطر سندھ کے مقدّس ایوان کو دلالی کےکام پر کس نے لگایا؟
اور یہ کون نہیں جانتا کہ مرکزی پالیسی سازی میں ملیر کے مقامی نمائندوں کی کتنی اہمیت اور شراکت ہے…
اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ملیر کے نمائندوں کو بھی اس بات کا ادراک کرنا پڑے گا… کیونکہ ان کا مرنا جینا اسی دھرتی سے اور انہی لوگوں سے ہے..
آج یہ جان کر خوشی ہوئی کہ منتخب نمائندوں نے قاض بحریہ ٹاؤن کے خلاف جنگ کے ہیرو فیض محمد گبول کے بیٹے سے اظہار یکجہتی کے لیے نور محمد گبول گوٹھ کا دورہ کیا.
یہ بات قابل ستائش ہے لیکن میں اپنے منتخب نمائندوں سے گزارش کروں گا کہ وہ اب اس بات کو جان لیں کہ وہ اور ان کی بقا بھی ملیر اور اس کے لوگوں سے ہے، بحریہ اور ڈی ایچ اے سے نہیں… اس لیے اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ آپ کا جغرافیائی محل وقوع آپ کی طاقت ہے. اس لیے اب اچھے بچے بن کر چپ رہنے کا نہیں، زباں بندی توڑنے کا وقت ہے. اپنی طاقت اور قوت کو پہچانو… آپ لوگ سپر ہائی وے /ایم نائن اور نیشنل ہائی وے کے اطراف میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کے نمائندے ہو، اِن اُن کے لیے چلو چلو کے نعرے لگانے کے لیے جب لوگ آپ کے کہنے پر نکل سکتے ہیں تو آپ کبھی ملیر اور اس کی بقا کے لیے سب یکمشت ہو کر سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے بلاک کرنے کی کال دے کر دیکھیے… زرداری اور ملک ریاض آپ لوگوں کے سامنے گڑگڑانے پر مجبور نہ ہوں تو کہنا!