اس ذہن اور طرزِ عمل کا تعلق ہرگز ہرگز انتخابی دھاندلی سے نہیں۔جو بھی جیتتا ہے اس کے نزدیک انتخاب منصفانہ ہوتا ہے۔جو بھی ہارے اسے یقین ہوتا ہے کہ بھلے پکڑ میں نہ آئے پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی تو گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ میں…. یعنی میں ہار جاؤں!!
حالانکہ کسی بھی انتخاب میں جیتنے والا کوئی ایک امیدوار ہی ہو سکتا ہے، مگر دیگر ستائیس ہارنے والے سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے۔لاکھوں کے حلقے میں چند سو ووٹوں کے فرق سے ہارنے والے کے شکوک و شبہات تو سمجھ میں آتے ہیں، مگر جس امیدوار اور جیتنے والے امیدوار کے درمیان ایک لاکھ ووٹوں کا فرق ہو وہ بھی سمجھتا ہے کہ انتخاب منصفانہ نہیں ہوا
یہ ممالکِ غیر کے سیاستداں جانے کس ڈھیٹ مٹی کے بنے ہوئے ہیں، کہ بھلے چند سو ووٹوں کے فرق سے ہاریں یا ہزاروں ووٹوں سے۔ فاتح کو مبارک باد ضرور دیتے ہیں اور اس رسم کے بعد جن خامیوں یا تحفظات کی نشان دہی کرنا ہوتی ہے ان کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں۔ الا یہ کہ کوئی ڈونلڈ ٹرمپ بیچ میں سے نکل آئے جو اقتدار میں ہونے کے باوجود پولنگ سے پہلے ہی سازش یا دھاندلی کا شور مچا دے
ہمارے ہاں ماشاﷲ اس معاملے میں کم و بیش سب ہی ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ البتہ پولنگ سے قبل یا پولنگ ختم ہوتے ہی دھاندلی کا شور مچانے والوں کو مکمل موردِ الزام بھی نہیں ٹھہرا سکتا۔ کیونکہ ہمارے حالات کے برعکس جن معاشروں میں ہارنے والے کی جانب سے فوراً شکست تسلیم کرنے اور حریف کو مبارک باد دینے کی مستحکم روایت ہے، ان کے ہاں قبل از پولنگ دھاندلی، پولٹیکل انجینئرنگ، مخالف کو کھلی دھمکیاں، درپردہ مسلسل دباؤ، نامعلوم نمبروں سے فون کالز، ریلیوں کے تتر بتر ہونے کا خوف، بریانی اور قیمے والے نان، پولنگ سے پہلے من پسند وفادار افسروں کی تعیناتی، سرکاری رقومات و مشینری کا فراغ استعمال، نتائج میں غیر ضروری تاخیر، غیر سرکاری نتائج کو سرکاری توثیق سے قبل بدل دیے جانے کے خدشات، پولنگ اسٹیشنوں کی حدود میں غیر متعلقہ یا مشکوک افراد کی آمد و رفت، الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کو دباؤ میں رکھنے کا چلن جیسے سیکڑوں ہتھکنڈے نہ برتے جاتے ہیں، نہ برداشت ہوتے ہیں۔
چنانچہ جہاں یہ سب کچھ ہوتا آیا ہو وہاں ووٹر سے لے کے ہر سیاسی رہنما کے دماغی ڈی این اے میں یہ خدشات پیوست ہو جاتے ہیں کہ الیکشن منصفانہ ہو ہی نہیں سکتے بظاہر کتنے بھی شفاف نظر آئیں۔ پاکستان کا انتخابی عمل دودھ سے اتنی بار جل چکا کہ اب ٹھنڈی چھاچھ سے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں زبان نہ جلا دے۔
اس خدشاتی ذہن کا تازہ اظہار کراچی کے حلقہ این اے دو سو انچاس کا حالیہ ضمنی انتخاب ہے۔ اس حلقے میں نسلی و سیاسی اعتبار سے چونکہ ملی جلی آبادی ہے لہٰذا اس حلقے کو کسی ایک سیاسی جماعت کا گڑھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ حلقہ ڈھائی برس قبل کراچی جنوبی کے جن علاقوں کو نئی حلقہ بندی میں ڈھال کر بنایا گیا۔ وہاں سے کبھی پیپلز پارٹی جیتتی رہی تو کبھی نون تو کبھی کسی اتحاد کا مشترکہ امیدوار۔
مگر دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کے نووارد امیدوار فیصل واؤڈا کی شہباز شریف پر سات سو اٹھارہ ووٹوں کی سبقت نے کم و بیش سب ہی سیاسی جماعتوں کی تیوری پر سوالیہ بل ڈال دیا۔
بقول مقامی مبصرین پولنگ ختم ہونے کے بعد گنتی میں شہباز شریف کی مسلسل سبقت کے ساتھ جانے کب ایسا ہاتھ ہو گیا کہ فیصل واؤڈآ چمتکاری کامیابی سے ہمکنار ہو گئے۔
دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں چونکہ ملک گیر انتخابی ماحول گرم تھا، لہٰذا اس حلقے میں بھی اوسطاً بیالیس فیصد ووٹ پڑے۔فیصل واوڈا جیسے بھی جیتے اس سے قطع نظر اس حلقے میں تحریکِ انصاف کو دوبارہ سے ضمنی انتخابات کی راہ ہموار کرنے کی کوئی ہنگامی ضرورت نہیں تھی۔ مقامی پارٹی قیادت بھی جانتی تھی کہ یہ سیٹ دوبارہ کھینچنا مشکل ہو گا، مگر فیصل واؤڈا کو دہری غیر ملکی شہریت کے کیس میں ممکنہ نااہلی سے بچانے کے لیے ایک شخص کی خاطر پوری چمتکاری سیٹ کا بلیدان کر دیا گیا
فیصل واؤڈا تو بطور سینیٹر محفوظ کر لیے گئے مگر ایک قیمتی نشست مفت میں ہاتھ سے نکل گئی۔ یہ فیصلہ اس لیے بھی حیران کن تھا کہ مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت اتحادیوں کے بل بوتے پر قائم ہے اور اس فضا میں اپنے ہی ہاتھوں ایک اور نشست سے محروم ہوجانا اور وکٹ میں خود بلا دے مارنا کس قدر بالغانہ عمل ہے، یہ راز کپتان ہی سمجھ سکتا ہے۔
جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ جولائی دو ہزار اٹھارہ میں اس حلقے میں رجسٹرڈ لگ بھگ بیالیس فیصد شہریوں نے ووٹ ڈالا۔یعنی تین لاکھ چالیس ہزار میں سے ایک لاکھ اٹھائیس ہزار ووٹ پڑے۔ مگر اس بار ضمنی انتخاب میں بھرپور انتخابی سرگرمی اور تشہیر کے باوجود صرف سترہ فیصد کے لگ بھگ ووٹ پڑے۔ یعنی دو ہزار اٹھارہ کے انتخاب میں پہلے اور دوسرے نمبر کے امیدوار کو کل ملا کے جتنے ووٹ پڑے۔ ان سے بھی نو ہزار کم ووٹ ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والی چھ سرکردہ جماعتوں کے امیدواروں کو پڑے۔ گویا عمومی بے دلی، روزے کی حالت، سخت گرمی اور کوویڈ کے خدشات نے تراسی فیصد ووٹروں کو گھر میں ہی بند رکھا۔
ایسے حالات میں گزشتہ انتخابات میں چھٹے نمبر پر آنے والی پیپلز پارٹی کے امیدوار کا تین لاکھ چالیس ہزار ووٹروں کے حلقے میں سے صرف سولہ ہزار ایک سو چھپن ووٹ لے کر اپنے قریب ترین حریف مسلم لیگ ن کے مفتاح اسماعیل کو چھ سو تراسی ووٹوں کے فرق سے ہرا دینا کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے۔ اس پر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے ٹویٹ کیا کہ یہ انتخاب چند سو ووٹوں سے چوری کر لیا گیا۔
اگر یہاں سے واقعی مسلم لیگ ن کی جیت یقینی تھی تو پھر اس حلقے میں نون کا ووٹر باہر کیوں نہیں نکلا؟ جس نون کو اسی حلقے میں دو ہزار اٹھارہ میں چونتیس ہزار چھ سو چھبیس ووٹ پڑے اس بار گزشتہ انتخاب کے مقابلے میں نون کو پچاس فیصد ووٹ کم کیوں پڑے؟ صرف ہزار مزید ووٹر باہر نکالے جا سکتے تو مریم نواز کو الیکشن چوری کا ٹویٹ نہ کرنا پڑتا۔
یہ تو کوئی معمولی سیاسی کارکن بھی جانتا ہے کہ جب ووٹ پڑنے کی شرح زیادہ ہو یا ملک گیر انتخابی لہر چل رہی ہو تو نتائج کچھ اور ہوتے ہیں اور جب جوش و خروش بالکل ٹھنڈا ہو تو نتائج بالکل مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ ووٹ کی کم شرح کی فضا میں جو جماعت زیادہ بہتر منصوبہ بندی کرتی ہے اس کے جیتنے کے امکانات گزشتہ نتائج سے قطع نظر زیادہ ہوتے ہیں۔ حلقہ دو سو انچاس میں دو ہزار اٹھارہ میں بھی کسی ایک جماعت کے حق میں کوئی خاص سیاسی لہر نہیں تھی اور اس بار تو لہر کا لام تک نظر نہیں آیا۔
البتہ سب سے دلچسپ ردِعمل پانچویں نمبر پر آنے والی تحریکِ انصاف کا ہے۔ بقول وزیرِ جہاز رانی علی زیدی چالاک پیپلز پارٹی اور صوبائی الیکشن کمیشن کی ملی بھگت نے ہمیں ہرایا۔
پچھ سو تراسی ووٹوں کے فرق سے ہارنے والی مسلم لیگ ن کا غصہ اور جھنجھلاہٹ توکچھ نہ کچھ سمجھ میں آتی ہے۔ مگر سات ہزار دو سو چونتیس ووٹوں کے فرق سے ہارنے والی تحریکِ انصاف کا انتخابی نتائج پر عدم اطمینان ایک کمال بات ہے۔
اردو کا محاورہ ہے گھوڑے کو نعل لگتے دیکھا تو مینڈکی نے بھی پنجہ بڑھا دیا۔ علی زیدی نے زندگی میں کبھی تو یہ محاورہ سنا ہی ہو گا۔
(وسعت ﷲ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس