میڈیا کے روبرو وہ کس ڈھٹائی سے
جھوٹ بول رہا تھا
”نوٹس لیا ہے
سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے
ملیر والوں کو پورا حق ملنا چاہئیے“
اس وقت اس کے گلے سے
بینظیر نہیں بلکہ زرداری بول رہا تھا
وہ جو سندھ کے پ پ پرست
قومپرستوں کی آخری امید ہے
کیا اس کو معلوم نہیں ہے تھا کہ
ملک ریاض اس کے والد کا
بزنس پارٹنر ہے!!!!؟؟
وہ منافق ہے یا معصوم؟
اس کا فیصلہ سندھ کو کرنا ہے
کیا اس کو معلوم نہیں ہے کہ
جس ہیلی کاپٹر پر وہ سفر کرتا ہے
وہ بحریہ ٹاؤن کا ہے
جس نے اس کو ”بلاول ہاؤس لاہور“ کا تحفہ دیا
وہ بلیک منی سے وجود میں آنے والا ملک ریاض ہے
وہ ملک ریاض جو بلاول ہاؤ س لاہور کے ملازمین کو
ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہ دیتا ہے
وہ ملک ریاض جس کو سندھ ہیوی مشینری سے
سندھ کے اصل وارثوں کی جڑیں اکھاڑ رہا ہے
وہ ملک ریاض جس نے غریب لوگوں کی دھرتی پر
غاصبانہ قبضہ کیا ہے اور اس جرم میں وہ تنہا نہیں
اس کے ساتھ ”سندھ کا سوداگر“ ہے
اور سندھ کا وہ سوداگر کوئی اور نہیں
اس کا وہ والد ہے جس کو وہ فخر سے ”صدر زرداری“ کہتا ہے
بلاول سے سندھ کو پوچھنے کا حق ہے کہ
”کیا یہ ہے سندھ کی غیر مشروط محبت کا صلہ؟“
سندھ کے وارثو!
دھرتی کے بیٹو اور بیٹیو
قدم بڑھاؤ کہ
”بحریہ میں ہے تلاطم کہ سندھ آتا ہے“
بحریہ ٹاؤن کے پلاٹوں اور مکانوں کی قیمت گر رہی ہے
بحریہ ٹاؤن کے باسی ملک ریاض کے قیدی بن گئے ہیں
بحریہ ٹاؤن ایک خوش نما جیل بن گیا ہے
جب دھرتی کے وارث جاگتے ہیں تب
دھرتی جاگتی ہے
ہم مانتے ہیں کہ قوموں کے سو جانے کا وقت نہیں ہوتا
مگر تم مانو گے کہ قوموں کے بیدار ہونے کا بھی وقت نہیں ہوتا
غریب قوموں میں دیر سے سہی مگر غیرت آتی ہے
سرکاری اور غیر سرکاری وردیوں والے
سن لو
غور سے سن لو
اگر سن سکو تو سن لو
حسن مجتبی کی وہ صدا
”پس کھیرتھر ایک آواز ہے“
درد کا ساز ہے
کیا وہ ”مورو“کا کوئی درد ساگیت ہے؟
یا سلگتا ہوا کوئی سنگیت ہے؟
ایک چنگاری کافی ہے
کافی ہے لاقانونیت کا یہ
گھنا جنگل جلانے کے واسطے
یہ تو شعلے ہیں برپا کھیر تھر کے تلے
پاؤں جلتے بھی ہیں اور چلتے بھی ہیں
روشنی کی لیے
زندگی کے لیے
اس خوشی کے لیے
جو کہ آئی نہیں
بادلوں کی طرح
جو کہ چھائی نہیں
ہاں مگر پتھروں میں ابھی
دل سی ایک چیز
دھڑکی تو ہے۔۔۔۔۔۔۔!!