آخر بحریہ ٹائون کا اختتام کہاں ہوگا؟
گذشتہ ہفتے کے روز کراچی پریس کلب سے صحافیوں، انسانی حقوق کمیشن، کچھ سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں پر مشتمل ایک قافلہ دس بارہ گاڑیوں میں سوار ہو کر بحریہ ٹائون سے متاثرہ دیہات کی جانب روانہ ہوا۔ ہمارے کچھ صحافی دوستوں کا خیال تھا کہ دو ہفتے قبل جن دیہات پر چڑھائی کی گئی، وہاں چل کر صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔ یہ ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کی فیکٹ فائینڈنگ کمیٹی تھی اور میڈیا کے دوستوں کو اپنی رپورٹس بھی تیار کرنی تھیں۔ میڈیا کے بارے میں تو ہمیں اندازہ تھا کہ کس حد تک بِکا ہوا ہے اور کتنا آزاد ہے۔ کچھ سندھی چینلز اور کچھ سندھی اخبارات کو چھوڑ کر گذشتہ سات برسوں سے قومی میڈیا ایک بلڈر کا فریق اور ترجمان بنا ہوا ہے، جس وجہ سے گالیاں پوری صحافتی برادری کو مل رہی ہیں۔ یہ تو خیر پوری دنیا میں ہوتا ہے کہ بڑے تاجر میڈیا پر بڑی سرمایہ کاری کر کے اپنی پراڈکٹس مشہور کرتے ہیں اور بڑی رقم لگا کر میڈیا کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، لیکن اس کے بھی اصول، قوائد ہوتے ہیں اور محدود وقت ہوتا ہے. یہ تو کہیں بھی نہیں ہوتا کہ میڈیا عوام کی آواز کو مکمل طور پر دبا کر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ظاہر کرتا رہے، یہ سب کچھ صرف پاکستان کے میڈیا میں ہی ہوتا ہے۔
ہمارے پاس بحریہ ٹائون اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ جس طرح ہم فلموں میں دیکھتے ہیں کہ بڑے ڈان حکومتوں، سیاسی پارٹیوں، ریاستی مشینری اور میڈیا کو خرید کر کہتے ہیں جو کچھ وہ چاہتا ہے وہی دکھائو۔ بلکل ایسے ہی حقائق گذشتہ کئی برسوں سے ہم بحریہ ٹائون کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔
موٹر وے ایم نائن پر ہم بحریہ ٹائون کی دیوار کے ساتھ ہی بائیں جانب مُڑ گئے. دیوار کے ساتھ ہی ندی ہے جو موٹر وے کی جانب جا رہی اور موٹر وے پر ندی کی وجہ سے پل بنا ہوا ہے. یہاں پر ہمارے گائیڈ معروف محقق گل حسن کلمتی تھے۔ صاف نظر آرہا تھا کہ بارشوں کے پانی کے اخراج کے لئے موجود اس قدرتی ندی کو بھرا جا رہا تھا۔ ندی کے پیٹ میں بحریہ ٹائون کی گاڑیاں پتھر، کچرا، مٹی ڈال کر ندي کو زمین کے لیول پر لا رہی تھیں۔ کچھ دیر رک کر ندی کا جائزہ لینے کے بعد ہم نورمحمد گبول گوٹھ، کاٹھوڑ، دریا خان گبول گوٹھ اور کمال جوکھیو گوٹھ دیکھنے گئے. انہی گوٹھوں کے مقامی باشندے ساتھ تھے۔ دریا خان گبول گوٹھ کے ساتھ ہی پہاڑ ہے. پہاڑ کے ساتھ بحریہ ٹائون کے سنگل یونٹ بنگلوز بن رہے ہیں۔ دریا خان گوٹھ جو کہ زیادہ تر پکے گھروں پر مشتمل تھا، گوٹھ کے ساتھ جو پہاڑی تھی اس کو بلڈوز کیا جا رہا تھا، لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو بلڈوزرز روک کر پہاڑی پر کھڑے کردئیے گئے تھے۔ پہاڑی پر چڑھ کر ہم نے گوٹھ کا معائنہ کیا کچھ دوست کیمرہ مینوں کے ساتھ پہاڑی پگڈنڈی سے نیچے اتر گر گوٹھ میں گئے اور خواتین کے انٹرویوز ریکارڈ کیئے۔
پہاڑی کی دوسری جانب ایم پی اے سلیم بلوچ کے چچا زاد بھائی داد کریم بلوچ کا گوٹھ ہے اس کے ساتھ ہی ایک پولٹری فارم بھی ہے۔ داد کریم نے بتایا کہ دو روز قبل میرے پولٹری فارم کو منہدم کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن جونہی ہمیں پتہ چلا ہم باہر نکل کر آگئے تو بلڈوزرز چلے گئے۔ اس پورے عمل سے یہ لگتا ہے کہ بحریہ ٹائون طاقت کے بل بوتے پر قبضے کر رہا ہے۔ دریا خان گبول گوٹھ کے ساتھ ہی بحریہ ٹائون کی دیوار تھی، جو آگے جا رہی تھی. مقامی افراد کے مطابق ضلع ملیر کی حدود کو کراس کرکے دیوار ضلع جامشورو میں داخل ہوگئی ہے.
نور محمد گبول گوٹھ بھی بحریہ ٹائون کی دیوار کے ساتھ ہے. گوٹھ میں ایک کمرے کا پرائمری اسکول بھی موجود تھا جسے تالا لگا ہوا تھا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ بحریہ ٹائون کی دیوار چالیس کلومیٹر تک جا رہی ہے. کسی نے یہ بھی کہا کہ اس وقت بحریہ ٹائون کے پاس لگ بھگ ایک لاکھ ایکڑ اراضی ہے اور بحریہ ٹائون نے یہ طے کر رکھا ہے کہ ارد گرد کوئی بھی گوٹھ نہیں رہنے دیا جائے گا۔ ہم بحریہ ٹائون کے اختتام کے بارے میں پوچھتے رہے لیکن ہمیں ٹیل نہیں مل سکا۔ بتایا گیا کہ لگ بھگ پچاس ایسے گوٹھ ہیں جن کو مسمار کرنے کا منصوبہ ہے.
یہ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر عوامی سیاسی سطح پر کوئی بڑی مزاحمت نہیں ہوئی اور بحریہ ٹائون کو اگر محدود نہیں کیا گیا تو آئندہ پانچ سات برس میں یہاں پر کوئی بھی دیہات نظر نہیں آئیں گے۔ ہمیں 1947ع کا منظر نامہ ذہن میں رکھنا چاہئے جب پاکستان بنا تھا تو کراچی دیہات پر پھیلا ہوا تھا. آج کل جو کراچی شہر ہے وہ زیادہ تر قدیمی دیہات پر تعمیر شدہ ہے، جیسے آج موجودہ کراچی میں گوٹھ نظر نہیں آرہے، اسی طرح بحریہ ٹائون کی صورت میں ایک اور کراچی آنے والے دس برس میں تعمیر ہو چکا ہوگا۔ مجھے نہیں معلوم وہ شہر ہوگا، ضلع ہوگا، صوبہ ہوگا یا کوئی نئی ریاست ہوگی؟ مگر بحریہ ٹائون کی ترقی ہوتے ہوتے سینکڑوں قدیمی گوٹھوں کے قبرستانوں پر بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہو چکی ہوں گی اور یہاں کا فطری نظام تباہ ہو چکا ہوگا؟ کیا بحریہ ٹائون سندھ میں نہیں ہے کہ اس پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا کوئی قانون نہیں چل سکتا؟
آخر کیا کرنا چاہئے؟
گوٹھوں کے دورے کو ایک ہفتہ بھی نہیں گذرا تھا کہ جمع کی صبح (7 مئی) اسرائیل کے سینکڑوں مسلح افراد بھاری مشینری کے ساتھ مقبوضہ بیت المقدس میں داخل ہوئے، جب عالم اسلام یوم القدس منا رہا تھا. عین اسی دن بحریہ ٹائون کمال خان جوکھیو گوٹھ پر حملہ آور تھا جب بلڈوزر اور مسلح افراد زمینوں پر پہنچے تو مقامی لوگوں نے پتھروں کے ساتھ مزاحمت شروع کر دی۔ یاد دلاتا چلوں کہ یہ سب کچھ بلاول بھٹو زرداری کے نوٹس لینے اور یقین دلانے کے بعد ہو رہا تھا اور چند روز ہی قبل پیپلز پارٹی ملیر کے منتخب نمائندوں نے اسی گوٹھ کا دورہ بھی کیا تھا۔ صبح سے سہ پہر تک وقفے وقفے سے دیہاتیوں اور بحریہ ٹائون کے مسلح افراد کے درمیاں جھڑپیں جاری رہیں بلآخر بحریہ ٹائون کی نجی ملیشیا فورس نے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی، جس کے نتیجے میں کچھ لوگ زخمی ہوئے، جن میں شوکت خاصخیلی کی حالت تشویش ناک تھی، انور بلوچ کو پیٹ میں گولی لگی اور کئی گھنٹے تک مورچہ بند ہوکر مسلح افراد فائرنگ کرتے رہے. سوشل میڈیا پر وڈیوز وائرل ہوتی رہیں نہ پولیس پہنچی نا ہی ملیر کی انتظامیہ (بلکہ پولیس بحریہ کے مسلح کارندوں کے ساتھ کھڑی تھی)۔
یہ تو دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں نہیں ہوتا کہ بدمعاش فورس زخمیوں کو اسپتال لانے کے بجائے تھانے لے کر آئے اور تھانے کی پولیس زخمی کرکے لانے والوں کو گرفتار کرنے کے بجائے زخمی کو لاک اپ کرے۔ لیکن یہاں یہی کچھ ہوا!! مقامی لوگوں نے پہنچ کر شوکت خاصخیلی کو پولیس سے چھڑا کر اسپتال پہنچایا۔ اس طرح کے مناظر تو فلسطین اور کشمیر میں ہی دیکھے جا سکتے ہیں جو ہمارا میڈیا دکھاتا ہے، لیکن کراچی کے ایسے مناظر میڈیا پر دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔ ایسے جیسے بھارتی میڈیا کشمیریوں پر ظلم نہیں دکھاتا۔ اسرائیلی میڈیا فلسطینیوں پر ظلم نہیں دکھاتا، پاکستان کا میڈیا کراچی قدیمی بلوچوں، گبولوں اور جوکھیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم نہیں دکھاتا۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں کوئی بڑی خون ریزی نہ ہوجائے۔ کہیں ٹنڈو بہاول جیسا سانحہ نہ رونما ہوجائے۔ ان سارے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے اور اجتماعی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مزاحمت کون کرے گا؟ کراچی میں بسنے والے لاکھوں سندھی اور بلوچ مل کر کوئی بہت بڑا دھرنا دے سکتے ہیں؟ جس کا مختلف طرح سے اظہار ہو رہا ہے لیکن بنیادی طور پر کوئی سیاسی جدوجہد کرنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے جو مل کراس مسئلے کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔
حل تلاش کرنا ہے تو سب سے پہلے تو بحریہ ٹائون کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دی گئی اراضی تک محدود کیا جائے۔ دوئم جو عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں، جو تعمیراتی ایریا ہے اس کو چھوڑ کر دیگر آبادیوں کو مسمار کرنا اور زمینوں پر قبضہ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ سوئم بحریہ ٹائون کی خواہشات پر کراچی کی ڈیموگرافی کو تبدیل مت کیا جائے۔ چہارم بحریہ ٹائون کی حیثیت ایک تعمیراتی کمپنی کی ہے اس کے سیاسی مفادات کو روکا جائے۔ اگر پھر بھی بحریہ ٹائون طاقت ور ہے تو پھر یہ سمجھ لیں کہ ملیر سے منتخب ہونے والے افراد اب گھر بیٹھ جائیں، یہاں سے انتخاب کے لئے ملک ریاض کی سفارش پر ٹکٹ جاری ہوں گے۔ ایم پی ایز بھی بحریہ ٹائون کے تو ایم این ایز بھی اس کے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے برسوں میں سندھ کے وزیر اعلیٰ اور گورنر کا فیصلہ بھی بحریہ ٹائون سے ہوگا، جہاں پر ملک ریاض کا شاہی محل تیار ہے۔ کیونکہ یہ ڈان پھر پاکستان کے اسٹبلشمنٹ کے پاس ایک ایسا ہتھیار ہوگا جس کے ذریعے سندھ کو پورا پورا سبق سکھایا جائے گا۔
یاد رکھا جائے کہ سندھ کے حکمرانوں کی خاموشی کی وجہ سے ہی دارالخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تھا۔ ون یونٹ بھی اس وجہ سے لگا تھا۔ سندھی کہاوت ہے کہ میروں (ٹالپروں) کو بھی گھر سے لگی تھی۔ جس وجہ سے سندھ پر برطانوی تسلط قائم ہوا تھا.. یاد رکھا جائے کہ سندھ کو ایک نئے انداز سے کالونی بنانے کی کوشش جاری ہے۔
ختم شد
بحریہ ٹائون کے متعلق یہ مضمون روزنامہ عوامی آواز میں قسط وار شایع ہوا، جس کا اردو ترجمہ قارئین کے لئے یہاں مصنف کی اجازت اور مصنف اور عوامی آواز کے شکریے کے ساتھ شایع کیا جا رہا ہے.