ایک طرف تو نیشنل بینک آف پاکستان کی جانب سے ملک بھر میں پھیلے ہوئے برانچوں کے نیٹ ورک کو کسٹمر فرینڈلی بنانے کے لیے مختلف اقدامات کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، لیکن دوسری جانب زمینی حقائق یہ ہیں کہ نیشنل بینک کی پندرہ سو سے زیادہ برانچوں کے حوالے سے عوامی شکایات میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے اور ڈھائی سال میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ شکایات سامنے آ چکی ہیں
یہ وہ شکایات ہیں جن کا اعتراف خود بینک انتظامیہ کرتی ہے. جب کہ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ متعدد کسٹمرز ایسے بھی ہیں، جو شکایات درج نہیں کراتے
اس حوالے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق نیشنل بینک آف پاکستان کی انتظامیہ کی جانب سے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بینک کی مختلف برانچوں میں سروس کلچر کو بہتر اور کسٹمر فرینڈلی بنانے کے لئے مختلف کام کیے گئے ہیں اس سلسلے میں اس سروس کے لیے کوالٹی آفیسرز تعینات کیے گئے ہیں جو مختلف برانچوں کی مینجمنٹ کو اسسٹنٹ کرتے ہیں اور درپیش مشکلات اور مسائل کا حل نکالتے ہیں تاکہ وہاں آنے والے کسٹمرز مکمل طور پر مطمئن ہو کر جائیں. اس سلسلے میں نیشنل بینک آف پاکستان کی انتظامیہ کی جانب سے مختلف طریقوں سے کسٹمر کا فیڈ بیک حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ طریقے ویب لنک ای میل، لیٹر اور کال سینٹر پر مشتمل ہیں. ان کے ذریعے شکایت وصول کی جا رہی ہیں اور ان کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ شکایات کے اندراج پر کسٹمر کو ایس ایم ایس کے ذریعہ آگاہی بھی دی جاتی ہے اور فاسٹ ٹریک معلومات بھی فراہم کی جا رہی ہے بینک کی ویب سائٹ پر بھی اس حوالے سے معلومات دے دی گئی ہے
لیکن دوسری جانب زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہر سال نیشنل بینک آف پاکستان کی انتظامیہ کو ملک بھر سے ستر ہزار سے زائد شکایات موصول ہو رہی ہیں یہ شکایات کی بڑی تعداد ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ ملک بھر میں اور بیرون ملک بھی بینک کا عملہ اپنے کسٹمرز کو مطمئن نہیں کر رہا. شکایات کی اتنی بڑی اور بڑھتی ہوئی شرح اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے نیشنل بینک کے اقدامات محض لفظی جمع خرچ تک ہی محدود ہیں.