’مجھ پر ہتھیار اٹھائے گئے اور یہ کہا گیا کہ اگر یہ ریشم گلی میں بیٹھے گی تو ہماری عزت کو نیلام کر دے گی، لیکن میں ان سب باتوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھی۔‘
یہ ہیں فریدہ مہر جو لاڑکانہ کی ریشم گلی کی پہلی خاتون دکاندار ہیں۔ انھوں نے سنہ 2019 میں شہر کے اُس معروف بازار میں دکان کھولی جہاں تقریباً ایک ہزار کے قریب کپڑوں، برتنوں، چوڑیوں اور کاسمیٹکس کی دکانیں ہیں۔
اگرچہ ریشم گلی میں خواتین گاہکوں کی ریل پیل رہتی ہیں مگر فریدہ سے قبل اس بازار کے سارے دکاندار مرد ہی تھے۔
فریدہ مہر اپنی دکان پر کڑھائی اور ایپلک والے سوٹ، کرتے اور ہینڈی کرافٹس فروخت کرتی ہیں۔
°جب گھر چھوڑنا پڑا
فریدہ مہر کا تعلق ضلع لاڑکانہ کی تحصیل رتوڈیرو کے گاؤں ٹھل جونیجا سے ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے خاندان میں رائج روایت کے مطابق گھر کی خواتین کبھی کسی غیر مرد کے سامنے نہیں آتی تھی لیکن پھر حالات نے انھیں یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا گھر میں پھیلی غربت کے باعث نوبت فاقہ کشی تک آ گئی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ایسی صورتحال میں کسی کو تو باہر نکلنا تھا اور بہن بھائیوں میں بڑا ہونے کے ناطے انھیں ہی نکلنا پڑا۔ فریدہ کی تین بڑی بہنیں شادی شدہ ہیں اور غیر شادی شدہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔
ابتدا میں فریدہ نے غیرسرکاری تنظیم سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن میں رضاکارانہ کام کیا پھر وہیں ملازمت اختیار کر لی۔ وہ بتاتی ہیں کہ گاؤں اور برداری والوں نے اُن کی ملازمت پر اعتراضات اٹھائے جس کی وجہ سے انھیں گاؤں سے نکل جانا پڑا اور انھوں نے لاڑکانہ شہر میں کرائے پر مکان لیا جہاں وہ اکیلے رہنے لگیں۔
فریدہ کہتی ہیں کہ ’حالات سے تنگ آ کر میں نے کوئی منفی اقدام کرنے کی بجائے میں نے خود پر بھروسہ کیا۔ صبح کو والد آتے تھے راشن یا ضروری اشیا لا کر دے دیتے اور شام کو واپس چلے جاتے تھے۔ ان کے جانے کے بعد میں دروازہ لاک کر کے اکیلے سو جاتی تھی۔ سونے سے قبل رات کے دو تین بجے تک میں آرڈر کے کاموں (کڑھائی اور ایپلک ) کو مکمل کرتی تھی۔‘
° ’میں کیوں نہ کروں؟‘
فریدہ مہر غیر سرکاری تنظیم میں کام کرتی رہیں اور جلد ہی وہ ماسٹر ٹرینر بن گئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھیں نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر رکھی اور انھیں بنیادی تعلیم اسی تنظیم کی جانب سے فراہم کی گئی۔
وہ بتاتی ہیں کہ ایک سال کے بعد انھوں نے دیکھا کہ گاؤں والوں کی سوچ تبدیلی ہو رہی ہے۔ ’انھیں احساس ہوا کہ کچھ غلط نہیں اور میں صرف اپنے والد کی سپورٹ کر رہی ہوں اور اپنے گھر اور خاندان کی غربت ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اس تبدیلی کے بعد میں واپس گاؤں آ گئی۔‘
کچھ عرصے بعد فریدہ کو مارکیٹ میں دکان کھولنے کا خیال آیا۔
’ان دنوں اس بات پر بھی غور و فکر ہوا کہ جو خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں انھیں ایک تو اپنے کام کے اچھا دام نہیں ملتے، دوسرا مڈل مین اس میں شامل ہوتے ہیں اور تیسرا یہ خواتین طلب کی بنیاد پر کام نہیں کرتی ہیں۔ اس صورتحال میں اگر کوئی اپنی دکان کھولے تو اس کو اور کئی سو دیگر خاندانوں کو فائدہ ہو گا۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں یہ کروں، یوں میں نے دکان کھولنے کا فیصلہ کر لیا۔‘
° ’ریشم گلی میں دکان ملنا آسان نہیں‘
لاڑکانہ اور آس پاس کے علاقے کی خواتین اور بچوں کے ملبوسات اور اشیا کی بات کی جائے تو ریشم گلی مرکزی بازار ہے۔ فریدہ نے بھی اسی علاقے میں دکان کھولنے کا فیصلہ کیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ سب کہہ رہے تھے کہ آپ کو مشکل سے شاپ ملے گی کیونکہ وہاں مرد دکاندار ہیں، اگر کوئی خاتون آ جاتی ہے تو بڑا مسئلہ ہو جائے گا، لیکن انھوں نے اور ان کے والد نے یہ ٹھان لی کہ ایک مہینہ لگے یا دو مہینے دکان تو انھوں نے کھولنی ہی ہے۔
’ہم روزانہ صبح کو گاؤں سے نکلتے اور شام کو واپس جاتے، ہمارا یومیہ پانچ سو روپے کرایہ لگ جاتا تھا۔ اس طرح ہمیں پچیس دن لگ گئے، بالاخر ایک دکان کی دستیابی کے بارے میں سُنا تو ہم مالک کے پاس پہنچ گئے۔ مالک نے کہا کہ عجیب لگتا ہے کہ ایک عورت آ کر دکان پر بیٹھے گی لوگ کیا کہیں گے؟ کیاآپ کے رشتہ دار اجازت دیں گے؟ میں نے اس کو سمجھایا اور کہا کہ یہ خواتین کی بھی فلاح کا کام ہے جس کے بعد وہ راضی ہو گیا۔‘
فریدہ بتاتی ہیں کہ دکان میں کچھ کام ہونا باقی تھا، انھوں نے ماربل کا فرش وغیرہ خود کھڑے ہوکر لگوایا تاکہ کوئی بہانہ نہ ہو اور دکان جلدی تیار ہو جائے۔
° ’تین مہینے کوئی رسپانس نہیں آیا‘
فریدہ نے سنہ 2019 میں یہ دکان کھولی تو ابتدائی تین ماہ گاہکوں کے انتظار میں گزر گئے اور کرایہ بھی جیب سے ادا کرنا پڑا۔ چوتھے مہینے ریسپانس آنا شروع ہوا کہ ایک خاتون نے دکان کھولی ہے۔
فریدہ مہر کے مطابق زیادہ تر خواتین یہاں سے گزرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ یہ عورت نے دکان کھولی ہے، کچھ تو حیران ہو کر پوچھتی تھیں کہ آپ کا کیا مسئلہ تھا؟ کیا مجبوری تھی کہ آپ نے یہ قدم اٹھایا ہے، میں انھیں بتاتی تھی کہ میرے پیچھے کئی سو خواتین ہیں یہ ان سب کے روزگار کا بہتر وسیلہ بنے گا۔
فریدہ کے مطابق خواتین سے آرڈر ملنے لگے اور جو خواتین پہلے اپنے اشیا بنا کر گھروں میں رکھتی تھیں انھیں مزید کام ملنے لگا۔ ’جو عورت ایک شرٹ اور رلی بنا کر بیٹھ جاتی تھی اس کو مسلسل کام کی میسر ہوا۔‘
° ’والد ساتھ نہ دیتے تو ٹوٹ چکی ہوتی‘
فریدہ کے ساتھ ان کے والد دکان پر موجود رہتے ہیں۔ فارغ وقت میں فریدہ دکان میں ہی ایپلک کا کام کرتی رہتی ہیں جبکہ والد گاہکوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
فریدہ بتاتی ہیں کہ دکان ابھی کچھ کچھ چلنا ہی شروع ہوئی تھی کہ ایک بار پھر برادری، گاؤں والوں نے اعتراضات اٹھانا شروع کردیے، نتیجے میں اُن کے بھائی ان سے خفا ہوگئے۔ فریدہ کے مطابق وہ کہنے لگے کہ ایس آر ایس او میں ملازمت تو ٹھیک ہے مگر اب یہ ریشم گلی میں بیٹھ کر ہماری عزت نیلام کرے گی۔
’بڑی بہن ناراض تھیں، والدہ بات نہیں کرتی تھیں۔ بھائی ناراض تھے لڑ جھگڑ رہے تھے۔ بھائی چھوٹے ہیں لیکن بڑا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ والد نے کہا کہ تم فکر نہ کرو میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں اگر والد ساتھ نہ دیتے تو میں کب کی ٹوٹ چکی ہوئی ہوتی۔‘
° ’لاک ڈاؤن نے مسائل بڑھا دیے‘
فریدہ مہر لاڑکانہ اور شہداکوٹ سمیت دیگر علاقوں کی دیہاتوں میں جا کر خواتین سے ان کی اشیا لے کر آتیں اور انھیں اپنی دکان پر فروخت کرتی ہیں۔ ان کی دکان کو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ کورونا وائرس پھیل گیا اور حکومت نے مارچ 2020 میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے پاس خواتین کے بنائی ہوئے ڈریسز سمیت کئی چیزیں جمع ہوگئیں وہ پریشان تھیں کہ انھیں اب کس طرح فروخت کیا جائے۔
’میں نے واٹس ایپ پر رابطے کیے، خریدار ڈیزائن بھیج دیتے تھے، میں دکان پر آتی شٹر اوپر کر کے سامان نکالتی تھی، پولیس اور لوگوں سے بچ کر آتی تھی کیونکہ بہت خطرہ تھا، پولیس کبھی کبھار روک بھی لیتی تھی، اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے مجھے بھی نقصان ہوا اور جو خواتین کام کر رہی ہیں انھیں بھی۔‘
° ’دکان میری زندگی ہے‘
لاک ڈاؤن ختم ہوا اور دکانیں کھلیں تو فریدہ نے پھر محنت اور لگن سے دکان دوبارہ چلائی لیکن عید اور شادیوں کی سیزن سے قبل دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ ہو گیا۔
’میں نےسوچا تھا کہ گھر والوں کے لیے بھی سب کچھ درست ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ میں گھر کے حالات بہتر بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن مسئلہ حل ہونے کے بجائے اس لاک ڈاؤن نے میری شخصیت کو ہی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ بری بری اور عجیب باتیں کر رہے ہیں، بھائی غصہ کرتے ہیں، اس وقت ذہنی اذیت کا شکار ہوں حالانکہ میں نے سب کا بھلا چاہا تھا مجھے کیا پتہ تھا کہ جو کچھ گھر میں سکون ملتا تھا وہ بھی چلا جائے گا۔‘
فریدہ کے چار بھائیوں میں سے ایک معذور ہے جبکہ والد کوئی کام نہیں کرتے بلکہ اُن کے ساتھ ہوتے ہیں۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے فریدہ مہر مقروض ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 ہزار ماہانہ کرایہ ہے جبکہ چار ہزار سے ساڑھے چار ہزار کے قریب بجلی کا بل آتا ہے اور جن خواتین کا سامان موجود ہے انھیں پیس دینے ہیں، ان کی پوری کوشش ہے کہ یہ دکان بند نہ ہو کیونکہ یہ ان کی زندگی ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو