"کرانچی ہمارا” اور "مرسوں مرسوں” کے شور میں دبی یہ آواز…. ذرا سی توجہ چاہتی ہے.
ایک منٹ…
"کرانچی کسی کے باپ کا نہیں” اور "کراچی سندھ ہے” کی بحث کو تھوڑی دیر کے لیے روک دیجیے، منہ سے اڑتی جھاگ صاف کیجیے… بہت بول لیا آپ نے…. اب تھوڑا سا سن بھی لیجیے…
بہت دنوں سے سوشل میڈیا میں ایک بھونچال سا مچا ہوا ہے، کہ "سندھ کراچی ہے” ، ٹوئیٹر میں ” کراچی سندھ ہے” کا ٹرینڈ چل رہا ہے، سیاست دان کیا صحافی، دانشور کیا طلباء سب "کراچی سندھ ہے” کا نعرہ لگاتے نظر آ رہے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں، سال میں ایک دو مہینے ایسے آتے ہیں کہ اُدھر سے ایک لونڈا لپاڑا اٹھ کر "کرانچی ہمارا ہے” کی تان کھینچتا یے، اور پھر سامنے سے "کراچی سندھ ہے… کراچی سندھ ہے” کا راگ الاپنا شروع ہو جاتا ہے.
اس ہڑبونگ اور کھینچاتانی میں کراچی میں صدیوں سے آباد بےچارے بلوچی اور سندھی بولنے والوں سے تو کسی نے پوچھا تک نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں… وہ تو دو پاٹوں کے بیچ پِستے چلے آ رہے ہیں..
جب سندھ کا ثقافتی دن منانا ہو تب "سندھ کراچی ہے”
کبھی کوئی اندرون سندھ یا بیرون سندھ کی بات کرتا ہے تب "کراچی سندھ ہے”
جب سندھ کی صوبائی اسیمبلی میں اردو بولنے والے کسی میمبر کی سوئی "کرانچی” پر آ کر اٹک جاتی ہے، تب "کراچی سندھ ہے”
یہ معاملہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے لیے ووٹوں کی مشین، سندھی قومپرستوں کے لیے آکسیجن اور دونوں طرف کے دانشوروں کے لیے فراغت میں وقت گزاری کا ایک ذریعہ بن چکا ہے…
"کرانچی” والوں نے تو کلاچی میں صدیوں سے آباد مقامی لوگوں کے ساتھ جو رویہ رکھا سو رکھا، سوال مگر یہ ہے کہ آج جو لوگ "کراچی سندھ ہے” کا نعرہ لگا رہے ہیں، یا وہ کہتے ہیں کراچی ہمارا ہے وہ خود کراچی کو کتنا اپنا سمجھتے ہیں؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ اس نعرے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ کیوں سال میں ایک دو بار اہل سندھ کو یہ نعرہ یاد دلایا جاتا ہے؟
جواب میں جذباتیت کے ڈھیر کو ٹٹولنے کی بجائے عمل سے کچھ نکال کر پیش کیجیے تو مانیں..
اس نعرے کو اگر پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں کراچی کے قدیمی مقامی لوگوں کے نقطہ نظر سے دیکھیں اور اسے عملی طور پر پرکھیں تو جواب سن کر آپ کے کانوں کی لو تک لال ہو جائے گی… جناب! سندھ کی مجموعی قیادت نے کراچی کا سودا تو اسی وقت کردیا تھا، جب برصغیر پاک و ہند کا فیصلہ ہو رہا تھا.. سندھ کی مجموعی قیادت نے کراچی کا سودا اس وقت کر دیا تھا جب سندھ سے ہزاروں نہیں لاکھوں سندھ واسی سندھ چھوڑنے پر مجبور ہوئے، مذہب کے نام پر جب وہ جا رہے تھے تو پورے سندھ کی سیکیولر قیادت خاموش رہی… سندھ کے مجموعی سیاست دانوں نے کراچی کا سودا اس وقت کیا تھا جب ہندوستان سے کروڑوں مہاجرین پاکستان ہجرت کر کے آ رہے تھے تو انہں سیدھے کراچی میں ہی لا کر بسایا گیا، اس وقت کے اردو بولنے والے پاکستان کے حکمرانوں نے ایسا ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا، جبکہ سندھ کے سیاست دانوں نے باقی سندھ کو بچا کر، کراچی کو انہیں دان میں دے دینے کی مجرمانہ مصلحت سے کام لیا.
ہونا تو یہ چاہیئیے تھا کہ جب یہاں کے ہندو سندھی جا رہے تھے تو سندھ کی قیادت کو یکجا ہو کر یہ فصلہ کرنا چاہیے تھا کہ جہاں جہاں سے ہندو سندھی گئے ہیں وہاں ہندوستان سے آنے والے مسلمان بھائیوں کو جگہ دیتے، مگر یہاں بھی اس وقت کے پاکستانی حکمرانوں کی عیاری اور سندھی قیادت کی خود غرضی عیاں ہوتی ہے، یہ خود غرضی صرف سندھ کے ہندوں کے جانے تک محدود نہ تھی بلکہ کراچی کو آبادی کے سیلاب سے ڈبونے میں بھی ان کی خود غرضی شامل ہے انہیں اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ وقت بہت ظالم ہے گھوم پھر کے طمانچہ ضرور مار ہی دیتا ہے. اور اب اس وقت کے خودغرض سندھی مسلمان سیاست دانوں کی غلطی اور لاشعوری احساسِ جرم کا داغ اکیسویں صدی کا سندھی سیاست دان اپنی خودغرضی سے دھونے کی کوشش رہا ہے، اس میں سندھی دانشور بھی شامل ہیں، انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ خودغرضی کی میل خودغرضی کے صابن سے نہیں دھلتی، بلکہ اور گند پیدا کرتی ہے.
سچ تو یہ ہے کہ انہی سندھ کے سیاست دانوں نے بعد میں کراچی میں موجود لاکھوں مقامی سندھی اور بلوچوں کو خدا آسرے چھوڑ دیا، جب ان کو کسی سیاسی قیادت کی ضرورت تھی. کیا کبھی کسی سندھی دانشور نے سوچا ہے کہ کراچی میں موجود بہت سارے میمن، کاٹھیاوڑی گجراتی اصل میں سندھی ہیں مگر وہ خود کو آج کی تاریخ میں سندھی نہیں کہتے، بلکہ اپنی الگ شناخت بنا کر بیٹھے ہیں، اس کا ذمہ دار سندھ کے مجموعی سیاست دانوں کا کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک تھا ـ آگے چل کر سندھی قیادت نے نہ صرف آنے والے مہاجرین کے ساتھ بہتر رشتے بنانے کی کوشش نہیں کی، نہ ان کے مسائل جاننے کی کوشش کی، بلکہ ایک بیگانگی کا رویہ اپنایا، اس سے بعد میں سرد مہری اور پھر نفرت کی ایک ایسی ہوا چلی جس نے نئے اور پرانے سندھیوں کو الگ الگ سمتوں کا مسافر بنا دیا، اور چکی کے ان دو پاٹوں میں کراچی کے قدیمی مقامی لوگ سب سے زیادہ پستے رہے، رُلتے رہے، مرتے رہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے.
بات ہو رہی ہے "کراچی سندھ ہے” کے نعرے کی تو ایک تلخ حقیقت اور بھی سن لیجیئے کہ ستر کی دہائی میں جب سندھ اور وفاق کی بیوروکریسی میں سندھ کے لوگوں کی نمائندگی ملکی سطح پر بڑھی تو باقی سندھ کو تعلیم یافتہ کراچی کے برابر لانے کے لیئے کوٹہ سسٹم بنادیا گیا، آگے چل کر یہی نکتہ "کراچی اور اندرونِ سندھ” یا "سندھ اور کراچی” کی واہیات سوچ کی بنیاد بنا
اس ساری صورتحال میں دونوں جانب "سندھ سکریٹریٹ” کی جو ایک مخصوص اور مختلف ذہنیت بنی اور جو نتائج برآمد ہوئے، اس سے کراچی میں صدیوں سے آباد مقامی سندھیوں اور بلوچوں کو سب سے زیادہ نقصان بھگتنا پڑا ہے، کیونکہ قیام پاکستان سے ہی جاری پالیسیوں کی وجہ سے بیوروکریسی اور ایوانوں میں اردو یا دیگر زبان بولنے والوں کی نمائندگی بہرحال موجود تھی، لیکن اگر اس ساری صورتحال میں اگر کوئی مکمل طور پر نظر انداز ہوئے اور محروم رہے، تو وہ لیاری اور ملیر کے قدیمی مقامی لوگ ہی تھے، جو شب کے بھی مجرم تھے اور سحر کے بھی گنہگار ٹھہرے..
یہاں کے مقامی لوگوں کو ہمیشہ سندھ کی لیڈر شپ کے تابع رکھنے کی کوشش کی گئی، کبھی بھی یہاں کی مقامی لیڈرشپ کو اہمیت نہیں دی گئی، چاہے وہ پیپلز پارٹی کی قیادت ہو، سندھی قوم پرست یوں یا دیگر وفاق پرست تنظیمیں ہوں… اور ایم کیو ایم کی تو بات ہی کیا، پتہ نہیں کہاں کہاں سے انے والی اس قیادت کے لیے، قدیمی مقامی باسی "پتہ نہیں کہاں سے آجاتے ہیں” قسم کی ایک مخلوق قرار پائے… وہ تو متعصبانہ نرگسیت، بے ہودہ خود پسندی اور خودساختہ نام نہاد احساسِ محرومی سے آگے کچھ دیکھ ہی نہ پائے.
جب اسی کی دہائی میں لسانی کشمکش کو ریاستی اداروں کے ایما پر ہوا دی گئی تو سب سے زیادہ نقصان کراچی کے صدیوں سے آباد مقامی لوگوں کا ہوا، کیونکہ ہمارے پاس ٹول پلازہ کراس کرتے ہی سر پر رکھی سندھی ٹوپی تہہ کر کے جیب میں رکھنے کا آپشن موجود نہیں تھا.. ہمیں تو یہیں جینا تھا اور یہیں مرنا تھا. سندھیوں اور بلوچوں کے کئی محلے، گوٹھ اجڑ گئے، اس مارا ماری میں مختلف زبانیں بولنے والے ناحق بےگناہ مارے گئے، ان میں سب زیادہ نقصان اردو بولنے والے اور کراچی میں آباد قدیم لوگوں کا ہوا.
سندھ کی قوم پرست سیاست ہو کہ وفاق پرست سیاست انہوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی.. وہ ہمیشہ نائن زیرو کے آقاؤں کی چاپلوسی میں لگے رہے، کبھی بھی سندھ کے کسی قوم پرست یا وفاق پرست تنظیم نے یہاں کے اردو بولنے والے یا قدیمی مقامی لوگوں کی ترجیحات کو تسلیم نہیں کیا. کراچی کے اردو بولنے والوں کو تو پھر بھی ایم کیو ایم کی چھتر چھایا میسر رہی لیکن قدیمی مقامی آبادی کا کوئی پرسان حال نہ ہوا. پیپلز پارٹی انہیں اپنی رعایا سمجھ کر استعمال کرتی رہی اور قومپرست انہیں اسی پیپلز پارٹی کے رحم و کرم پر چھوڑ کر طعنے مارتے رہے کہ اور لگاؤ جیئے بھٹو کے نعرے، اور دو پیپلز پارٹی کو ووٹ… مگر کبھی ان کے پاس آ کر ان کے درد کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی ان کے مسائل کو اہنی سیاسی ایجنڈا میں شامل کیا…
سندھی قومپرستوں سے کراجی کے یہ قدیم باسی یہ پوچھنے پر حق بجانب ہیں کہ کیا تمہارے نزدیک کراچی صرف بحیثیت زمین کے ٹکڑے کے سندھ کا حصہ ہے.. کیا اس کے قدیمی اور اصل مقامی بلوچ سندھی سندھ کا حصہ نہیں ہیں!؟ عجیب تماشہ ہے کہ سدا کی ہم نوالہ و ہم پیالہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی الیکشنوں کے موسم میں کرانچی اور کراچی کا کھیل کھیلنے لگتی ہیں اور قومپرست سیاست کی مخالف پیپلزپارٹی سندھ کارڈ کے تحت قوم پرستوں کی ہمنوا بن جاتی تھی.
ہماری آنکھوں نے “آدھا ہمارا، آدھا تمہارا” اور "مرسوں مرسوں” کے اس کھیل کے ایسے ایسے مناظر دیکھے ہیں، کہ اگر انہیں بیان کریں تو آپ لوگوں کی سماعتیں اس کی تاب نہ لا سکیں گی… اور پھر بالآخر آپ لوگ اس سچ کو تعصب پھیلانے کی سازش کہہ کر شتر مرغ کی طرح خودفریبی کی ریت میں منہ چھپا لیں گے. ہم سندھ، سندھیت کی بقا کے لیے کراچی کی گلیوں کے محاذ پر اپنا خون بہاتے رہے، اور سندھی زبان کی بقا کے لیے سندھی میڈیمز میں پڑھتے رہے لیکن افسر بابو بن کر کراچی آ کر اپنا رنگ ہی بدلتے رہے، وہ سندھی بھول کر اردو کے رنگ میں رنگ جاتے، مجھ جیسا مقامی جب ان سے سندھی زبان میں بات کرتا تو وہ ٹھیٹ سندھی لہجے والی اردو میں جواب دیتے… حتی’ کہ احساسِ کمتری کے مارے یہ لوگ اپنے گھروں میں بھی اردو میں بات کرتے، اپنے بچوں کو اردو اور انگلش میڈیم پڑھاتے، اور کراچی میں آباد سندھی اور بلوچ تہتر سالوں سے اپنے بچوں کو سندھی میڈیم میں تعلیم دلاتے آ رہے ہیں، جن کے اثرات یہ ہیں کہ ہمارے اسی فیصد بچے میٹرک کے بعد گھر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ میٹرک کے بعد پڑھائی سندھی نہیں بلکہ اردو اور انگلش میں ہوتی ہے، اردو میڈیم کا آپشن ہوتے ہوئے بھی یہ پاگل سندھ کی محبت میں سندھی میڈیم پہ گذارا کر رہے ہیں.
میں بلوچ ہوں، میری مادری زبان بلوچی ہے مگر میں نے کبھی نہیں کہا کہ میرے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دو حالانکہ یہ میرا بنیادی حق ہے کہ میں یہ مطالبہ کروں، میں مطالبہ نہ کر کے اپنے مادری زبان بلکہ اپنے بچوں پہ ظلم کر رہا ہوں مگر پھر بھی اپنے بچوں کو سندھی میڈیم میں داخل کر کے اپنی سندھیت کا فرض ادا کر رہا ہوں، بدلے میں مجھے ہر مردم شماری سے پہلے یہ کہا جاتا ہے کہ میں مادری زبان کی جگہ بلوچی نہیں سندھی لکھواؤں… کیا اب یہی ایک معیار باقی رہ گیا ہے… آپ اپنے بچوں کو سندھی زبان سے محروم کر کے صرف آدمشماری کے فارم میں زبان کے خانے میں سندھی لکھوائیں تو آپ کا قرض ادا ہو جاتا ہے… پھر مجھ پر یہ کیسا قرض جو میری سندھیت کے باوجود ادا نہیں ہوتا… کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ سندھ کے تمام سندھی سیاست دانوں، صحافیوں، دانشوروں کو صرف ہندسے سے دلچسپی ہے کہ کراچی میں کتنے سندھی بولنے والے آباد ہیں، باقی انہیں کوئی غرض نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں، ان کی زندگی کن مصیبتوں کا شکار ہے، کس طرح انہیں اپنی زمینوں سے بیدخل کیا جا رہا ہے، وہ کن سیاسی اشرافیہ کے رحم و کرم پہ ہیں، ان کا استحصال کیسے نعروں کے بدلے کیا جا رہا؟ کیا کبھی کسی سندھی سیاست دان، دانشور، صحافیوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کراچی میں صدیوں سے آباد لوگ اپنے گوٹھوں، محلوں گلیوں میں کس احساس محرومی میں زندہ ہیں؟
اتنا بڑا بحریہ ایمپائر کھڑا کر کے سندھ کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی، لیکن کسی سندھ پرستی کے دعوے دار کے کانوں پر جوں تک بھی رینگی!!؟ بحریہ جیسے بھیڑیے کے خلاف برسرپیکار کراچی کے قدیمی باشندوں کی چیخوں پر پڑا آپ کے آرام میں کچھ خلل…!!!؟
اگر آپ کو ذرا سا بھی احساس ہوتا تو آج بحریہ ٹاؤن کراچی، ڈی ایچ اے کراچی، فضائیہ ہاؤسنگ پروجیکٹ گدھ کی طرح سندھ کو نہ نوچ رہے ہوتے، کراچی سے لیکر نوری آباد اور کراچی سے لیکر ٹھٹہ تک زمینیں ھڑپ نہ ہوتیں، یہ سب زمینیں یہاں کے مقامی لوگوں کی تھیں، انہی کے مویشیوں کی چراگاہیں تھیںـ بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کا ذکر آیا تو یہ بھی سن لیجیئے کہ انہی سندھی سیاست دانوں کی پالیسی ساز فیصلوں، انہی کے بنائے ہوئے اداروں اور انہی کے دستخط سے ملیر اور لیاری میں جو بھی تباہی ہوئی، لیاری ملیر نام پر الگ الگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی بنا کر لیاری اور ملیر کی زمینوں کا سودا بہت ارزاں قیمتوں میں کیا گیا، ملیر اور لیاری میں بلڈر مافیا کو طاقت ور بنا کر باہر سے لوگوں کو یہاں آباد کرنے کی راہ ہموار کی گئی، ملیر کی زرعی زمینیں کوڑیوں کے مول فوجیوں اور بلڈروں کو دی گئیں، ملیر کی زرعی زمینوں پر فیکٹریوں کے این او سی جاری کیئے گئے، اب وہاں جتنے بھی فیکٹریاں بنی ہیں ان میں مزدوروں کی اکثریت باہر سے آئے ہوئے لوگوں کی ہے اور مقامی لوگ آج بھی اپنی ہی زمینوں پر غربت افلاس کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی ہی زمینوں پر اجنبی بن گئے، یہ سب سندھی ہیں، بلوچ ہیں جو صدیوں سے یہاں رہتے آ رہے ہیں، ان کے لیئے آپ کے پاس کوئی پروگرام نہیں، کوئی حرفِ تسلی نہیں… تو پھر محض نعروں سے آپ کس کو دھوکہ دے رہے ہیں… یہ معاملہ اب صرف چند اشخاص پر مبنی مقامی اشرافیہ کے سر پر ہاتھ رکھنے سے کہیں آگے جا چکا ہے… اور یہ معاملہ ناپسندیدہ سچ کے جواب میں غداری کے جذباتی سرٹیفکیٹس بانٹنے سے بھی اب حل نہیں ہوگا…
لیکن وقت اب بھی ہے. خدارا پیٹ سے تھوڑا بلند ہو کر اس دل سے سوچیے، جو ٹکا خان کی طرح صرف قطعہ زمین سے نہیں بلکہ زمین پر بسے لاچار انسانوں سے بھی پیار کرتا ہے.
شاھ لطیف کے ان درد بھرے الفاظ پر اپنی بات ختم کرتا ہوں
جنين لاءِ مُياس
سَي ڪُلھَي ڪانڌِي نہ ٿيا