پیرس: طویل عرصے سے نابینا شخص کو جینیاتی تبدیلی اور بصریات (آپٹکس) کی مدد سے اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ جزوی طور پر دیکھ سکتا ہے۔ اس پورے عمل کو آپٹوجینیٹکس کا نام دیا گیا ہے جس میں بصارت کے ذمے دار خلیات کو جینیاتی طور پر تبدیل کیا جاتا ہے
اس حوالے سے فرانسیسی کمپنی ’جین سائٹ بائیلوجِکس‘ نے اپنے ابتدائی نتائج سائنسی جریدے نیچر میں شائع کرائے ہیں۔
اس رپورٹ میں دنیا کے پہلے شخص کی تفصیل بتائی گئی ہے، جسے آپٹوجینیٹکس کے علاج سے گزرا گیا ہے اور مکمل طور پر نابینا شخص تجربہ گاہ میں کئی آلات دیکھ کران کی شناخت کرسکتا ہے
منصوبے میں شریک ایڈ بوئڈن، جو میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں، نے انسانی آپٹوجینیٹکس پر اپنی پہلی تحقیق پیش کرنے پر خوشی کا اظہار کیا ہے
آپٹوجینیٹکس تجربہ گاہ میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، کیونکہ اس کی بدولت دماغی خلیات کو کچھ اس طرح بدلا جاتا ہے کہ وہ روشنی کے ردِ عمل میں سگنل خارج کرتے ہیں
جانوروں پر کی گئی تحقیق سے اس کے کئی فوائد اور دریافتیں سامنے آئی ہیں۔ لیکن انسانوں پر اسے محدود پیمانے پر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دماغ کے اندر مخصوص روشنی پہنچانے کے لیے اعلیٰ فائبر آپٹکس ٹیکنالوجی اور پیچیدہ جراحی کی ضرورت پیش آتی ہے
آنکھوں کی کئی بیماریوں کا علاج آپٹوجینیٹکس سے کیا جا سکتا ہے اور ایسی ہی ایک بیماری ’ریٹی نائٹس پگمینٹوسا‘ ہے۔ یہ ایک موروثی کیفیت ہے جس میں ریٹینا متاثر ہوتا ہے اور روشنی محسوس کرنے والے خلیات ختم ہونے لگتے ہیں۔ اب جین سائٹ کے طریقہ علاج میں آنکھ میں روشنی محسوس کرنے والی پرت کے نیچے اعصابی خلیات میں الجی میں پایا جانے والا ایک جین بھی داخل کیا گیا۔ اس کی خاصیت ہے کہ جب اس پر نارنجی رنگ کی روشنی ڈالی جاتی ہے تو بصری خلیات سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے مریض کو ایک خاص قسم کی عینک پہنائی گئی جس میں کیمرے اور پروسیسر لگے تھے اور وہ عام روشنی کو نارنجی بنارہے تھے
دنیا میں سے سے پہلے اس ٹیکنالوجی کو 58 سالہ فرانسیسی پر آزمایا گیا ہے۔ اب وہ زیبرا کراسنگ دیکھ سکتا ہے۔ فون اور فرنیچر وغیرہ میں تمیز کر سکتا ہے اور تجربہ گاہ میں کئی اشیا کو شمار کر سکتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی بصارت مزید بہتر ہونے کی توقع ہے.