ویسے تو سندھ کی تاریخ میں ڈاکو کلہوڑا دور سے بھی پہلے کے ہیں کہ سندہ کی عربوں کے ہاتھوں نام نہاد فتح کے پیچھے بھی غلط طور پر کہانی سندھی قزاق ڈاکوئوں کے ہاتھوں عرب تجارتی فیملی کے لوٹے جانے خاص طور “عورت کی فریاد” کی کہانی گھڑی گئی تھی۔ شاید سولہویں صدی سندھ میں سیہون کے پاس ڈاکوؤں کے ہاتھوں لوگوں کے قتل اور پھر کئی دنوں تک انکی لاشیں پڑے رہنے کا ذکر ابن بطوطہ کے سفرناموں بھی میں ملتا ہے۔ لیکن اٹھارویں صدی میں کلہوڑا دور میں سندھ میں ڈاکوئوں کی موجودگی کا باقائدہ ریکارڈ اس طرح بھی ملتا ہے شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری میں نمایاں طور ان کے ابیات میں ذکر ڈاکو لاکھو پھلانی کا ہے۔
جاڑیجا (ایک قبیلہ) جاگو اور سمہ لوگو سکھ کی نیند مت سوؤ!
کہ لاکھو لٹھ برداری جاری رکھے ہوئے ہے.
جب سندھ کی حدود و اربع موجودہ ہندوستانی کچھ گجرات راجستھان اور پاکستانی ملتان اور لسبیلہ تک تھیں تب بھی لڑاکا قبیلے قافلوں کو لوٹا کرتے تھے اور گجرات راجستھان میں بھاٹی ڈاکوئوں کے قصے لوک گیتوں اور لوک شاعری میں ملتے ہیں۔ جیسے پنجابی لوک شاعری میں پوری ایک صنف “جگے” پر ہے۔
جگے ماریا لیلپور ڈاکہ
تے تاراں کھڑک گئیاں”
یا پھر
“لڈوں ونڈدی کچہریوں نکلاں
جے ڈاکے وچوں یار چھٹ جائے”
تقسیم کے بعد تک بھی بھاٹی اور راجپوت نسل و ذاتوں کے ڈاکو راجستھان لتاڑ کر اونٹوں پر سندھ کے میرپور خاص تک ڈاکے آکر ڈالتے لوٹ مار مچاکر چلے اور پھر سرحد پار فرار ہوجاتے، یہ سلسلہ سنہ پچاس کے عشرے تک رہا.
جئمل ڈاکو کی ملاقات ان کی قید کے دوران شیخ ایاز سے ہوئی تھی جو
۱۹۷۱ع تک سکھر سینٹرل جیل میں تھا. جبکہ ایک اور بدنام زمانہ ڈاکو بھوپت سنگھ راولپنڈی سازش کیس کے اسیروں سے حیدرآباد سینٹرل جیل میں ملا تھا، جو بعد میں مشرف بہ اسلام ہوکر کراچی میں ہی آباد ہو گیا اور “مجاہد اسلام “ کہلایا کہ وہ تقسیم کے وقت ہندوستان میں کانگرس کے کچھ لوگوں کو قتل کر کے پاکستان بھاگ آیا تھا۔
انگریزوں کے دور میں انیسویں صدی کے سندھ میں رچرڈ برٹن نے ہزار سے زائد ڈاکوؤں کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ یہ اور بات تھی کہ انگریزوں نے سندھ سمیت تب سندھ میں اپنے کئی باغیوں کو بھی ڈاکو قرار دیا تھا۔ لیکن انگریزوں کے دور میں عالموں کھوسو، عبدالرحمان بروہی، صالو بڑدی کا ذکر مشہور ہے۔ صالو بڑدی کو تو انگریزوں نے پھانسی دی تھی۔
دادو ضلع میں جوہی کے پاس کھیرتھر رینج میں سندھ کے آثار قدیمہ کو ڈھونڈھنے والے آرکیالاجسٹ موجمدار کو بھی ڈاکوؤں نے قتل کر دیا تھا، جس کا افسوس رابندر ناتھ ٹیگور کو بھی تھا.
انگریزوں کے خلاف انیسویں اور بیسویں صدی میں دو حر بغاوتوں میں بھی کئی حروں کو ڈاکو قرار دیا گیا۔ جن میں بچو بادشاہ، پیرو وزیر، جن کو جھول شہر میں سر عام پھانسیاں دے دی گئیں تھیں یا اس سے پہلے گلو گورنمنٹ مشہور تھے۔ میرو نظامانی اور رحیم ہنگورو سمیت اور بھی کئی ڈاکو تھے۔
پیر پاگارو سکندر شاہ باالمعروف شاہ مردان شاہ جب سنہ پچاس کے شروعاتی سالوں میں جلاوطنی سے واپسی پر گدی پر بیٹھے، تو انہوں نے اپنی جماعت کے مسلح اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو کاروائیاں ترک کر کے سرنڈر کرنے کا کہا، لیکن رحیم ہنگورو نے سرنڈر نہیں کیا تھا۔ وہ گرفتار ہوا اور جیل میں سے باہر سے اپنی بیوی زینب کی مدد سے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن جیل کی دیوار پر بجلی کی تاروں سے ٹکرا کر گر کر زخمی ہوا بعد میں اسے پھانسی دے دی گئی تھی۔ امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس نے تب یہ خبر دی تھی جس میں اسے صحرائی لڑاکا یا ڈیزرٹ واریئر کہا گیا تھا۔
انہی دنوں میں یا اس کے کچھ عرصہ بعد اور ڈاکو غلام حسین واڈھو اور میرو لانگھو بھی کافی بدنام تھے۔ میرو لانگھو پر سندھی جریدے “سوہنی” کے ایڈیٹر طارق اشرف، جو کہ بھٹو دور میں اپنی تحریروں اور دوسری تحریریں چھاپنے کے “جرم” میں بائیس ماہ تک جیل میں رہا تھا، نے ایک ناول “میرو دھاڑیل” بھی لکھا تھا۔
ایوب خان کے زمانے میں جہاں جسمانی خطرہ محمد خان ڈاکو سے تھا اور پنجاب میں کئی ڈاکو ایوب خان اور اس کے گورنر نواب کالا باغ نے اپنے مخالفین کو دھمکانے کے لیے استعمال کیے تھے. جس میں انٹیلیجنس بیورو کے ذریعے بھی شامل تھے. وہاں سندھ میں خیرپور میرس ریاست میں ڈاکو محرم جانوری سرگرم ہوا تھا۔ ڈاکو محرم جانوری پر ایک کہانی “خونی رات” کے عنوان سے امر جلیل نے بھی لکھی تھی۔ لیکن اس نے اپنی ایک اور امر کہانی “اروڑ جو مست” میں لکھا ہے “سندھ مین بندہ ڈاکو بنے یا دعا دھاگہ اور بد دعا دینے والا پیر۔ دونوں دھندوں میں ایک جیسا فائدہ ہے۔ بلکہ ڈاکو کو تو پھر بھی پولیس کا خطرہ رہتا ہے، لیکن پیر بن کر سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے میں کوئی خطرہ نہیں۔”
یہ تو ہوئی سندھ میں ڈاکوؤں کے متعلق لکھی یا غیر زبانی تاریخ.. لیکن جو ڈاکو اور ان کی اور ان کے سرپرستوں کے بارے میں میری یادداشت شروع ہوتی ہے، جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو وسطی سندھ میں ڈاکو مبین ڈاہری کی دہشت تھی، جس کا تعلق نوابشاہ ضلع سے تھا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ تھا اور سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلی غلام مصطفیٰ جتوئی کا تعلق بھی نوابشاہ ضلع سے تھا۔ مبین ڈاہری نوابشاہ اور سانگھڑ سمیت اپنی کاروائیاں وسطی سندھ میں جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں ایک اور دہشت کی علامت ڈاکو ٹوہ چانڈیو بھی ابھرا تھا، جس کی کاروائیوں کا مرکز نوابشاہ اور دادو اضلاع تھے۔ ٹوہ چانڈیو کے سرپرست جی ایم سید کے مخالف کزن امام بخش شاہ سن کے سید بتائے جاتے تھے۔ مبین ڈاہری کی زیادہ تر کاروائیاں جنگلات کے ٹھیکیداروں اور پروجیکٹس پر کام کرنے والوں کو لوٹنے پر مبنی ہوا کرتی تھیں۔ یا پھر بچارے ہندو سیٹھ ۔ لیکن مبین ڈاہری ڈاکو ایک دیو مالائی کردار بنا ہوا تھا۔
تب تک ابھی انسانوں کا اٹھایا جانا یا اغوا برائے تاوان یا “بُھنگ” کے واسطے دو پاؤں والے یعنی انسان کا اغوا متعارف نہیں ہوا تھا۔ ان دنوں جانوروں کی چوریاں اور نقب زنیاں، ڈکیتیاں عروج پر ہونے لگی تھیں کہ یہ کہاوت بنی تھی “جئے بھٹو، ڈھورن جو جوڑو چھٹو” (جیئے بھٹو بیلوں کا جوڑا چھوٹا) سندھ کے چوروں پر پھر کبھی سہی
کچے کا بیریسٹر وڈیرہ ممتاز بھٹو سندھ کا گورنر بنا تھا۔ اس کا آبائی شہر اور ضلع لاڑکانہ اتنا جرائم کے عروج پر تھا کہ کہتے ہیں کہ، خود بھٹو کے بڑی بیگم شیریں امیر بیگم کے گھر بھی چوری ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہی چوروں پتھاریداروں اور کرمنلز پر “شوٹ ایٹ سائٹ” غیر اعلانیہ جاری کیا گیا، جس میں کئی سنگین اور چھوٹے موٹے جرائم کے مرتکب افراد کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا، جن میں سکھر کا بدنام زمانہ اسمگلر گلو کھوسو بھی شامل تھا۔ خورشید شاہ سے قبل سکھر میں گلو کھوسو ہی مشہور تھا جس کی املاک میں ملٹری روڈ کا وہ بنگلہ بھی شامل تھا، جس میں پھر قومی شناختی کارڈ کا دفتر بنا-
لیکن “گولی آڈر“ کا اپنے اوپر حکم ہونے کے باوجود مبین ڈاہری بچ نکلا۔ نہ وہ کسی مقابلے میں ہلاک ہوا بلکہ اس نے اپنی طبعی عمر سنہ اسی کے سالوں تک پوری کی۔ اور پھر کئی برسوں بعد وہ شاید ٹنڈو آدم کی طرف مخبری پر گرفتار ہوا جب وہ کسی آموں کے باغوں کا چوکیدار یا مالک بنا ہوا تھا۔
لیکن یہ موجودہ گھوٹکی ضلع میں خدو عالمانی اب “سردار خدا بخش عالمانی” (خدا بخش عالمانی چند دو سال ہوئے کہ فوت ہوا) تھا جس نے انسانوں کو برائے تاوان اغوا کرنا شروع کیا اور اس کا پہلا نشانہ ڈہرکی کا ہندو بیوپاری تھا۔ زیادہ تر اس کا نشانہ علاقے میں ہندو بیوپاری اور شہری بنے۔ انیس سو تہتر میں خدو عالمانی کی دہشت علاقے میں قائم ہوئی۔ خدو عالمانی کے پیچھے علاقے کے لنڈ سرداروں کا ہاتھ بتایا گیا اور جب اس وقت جیکب آباد کے مشہور جیکب آباد میلے کا افتتاح کرنے ذوالفقار علی بھٹو جیکب آباد پہنچے تو انہوں نے ایئرپورٹ پر اپنے استقبال کو آنے والے لونڈ سردار اور اپنی پارٹی کے ایم این اے کو “ڈاکوؤں کا سردار” کہہ کر مخاطب کیا۔ (جاری ہے)