درحقیقت 1870 میں عالمی استعماری قوت برطانیہ نے یہ سمجھا کہ اب بہترین موقع ہے کہ بلوچستان کو تقسیم کیا جائے۔ کیونکہ ایران نے بلوچستان کی سرحدی حدبندی کی درخواست برطانوی حکومت سے کی تھی۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے 1870 میں سرحدی کمیشن تشکیل دیا۔ 1871 میں میجر جنرل گولڈ سمتھ کو سرحدی حدبندی کمیشن کا چیف کمشنر مقرر کیا گیا۔ پھر سرحدی حد بندی کا عمل شروع کیا گیا۔
ایرانی وفد کی نمائندگی مِرزا ابراھیم کر رہا تھا جبکہ خان آف کلات بلوچستان کی نمائندگی گورنر مکران سردار فقیر محمد بیزنجو کر رہا تھا۔ بلوچ وفد برٹش سے مغربی بلوچستان کا دعویٰ کرتا تھا جو تاریخی طور پر بلوچوں کا حصہ تھا۔ جبکہ ایران مکران اور کوھک کا دعویٰ کرتا تھا۔ کئی مہینوں کے مذاکرات کے بعد گولڈ سمتھ نے بلوچوں کے جائز دعووں، تاریخ، جغرافیہ، زبان، کلچر اور مذہب کو یکسر نظر انداز کر کے بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا.
ایران نے گولڈ سمتھ کے باؤنڈری لائن کے مجوزہ خاکہ کو تسلیم کرکے ستمبر 1871ع میں معاہدے پر دستخط کیے۔ جس سے بلوچستان مغربی اور مشرقی بلوچستان میں تقسیم ہوگیا۔
بقول میر نوری نصیر خان کے بلوچ علاقے وہ بھی ہیں جہاں بلوچ آباد ہیں۔ نصیر خان کی اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ کوہِ البرز تک بلوچوں کا حصہ ہے کیونکہ کوہِ البرز میں بلوچ آباد تھے۔ سردار میر دہی البرز، پہلا بُرز کوہی سردار تھا، جس پر نوشیروان نے کوہ البرز میں ظلم کا پہاڑ توڑے تھے۔ پھر وہ نوشیروان کے ظلم و جبر سے تنگ آکر وہاں سے اپنے قبیلے کے ہمراہ ہجرت کرکے بلوچستان کے علاقے قلات میں آباد ہوا۔ سیستان میں چوالیس (44) بلوچ قبیلوں کی آبادی ثابت کرتی ہے کہ یہ سارے بلوچوں کے علاقے تھے۔ جب بدردین سیستان کا بادشاہ ہوا تو اس نے بلوچوں پر بدترین ظلم ڈھائے. یہاں تک کہ اس نے ان چوالیس قبیلوں میں ہر قبیلے سے ایک ایک دوشیزہ طلب کی۔ پھر بلوچ ان کے مطالبے اور ظلم وستم سے بچنے کے لئے مجبور ہو کر سردار جلال خان کی سر براہی میں جگین سے ہجرت کر کے مکران میں آباد ہوئے۔
تاریخی طور پر بلوچستان برصغیر کا حصہ نہیں تھا۔ لیکن 1947ع میں سامراجی طاقت برطانیہ کے مفادات نے اس خطے کی جغرافیائی صورتحال کو مکمل تبدیل کردیا، جس سے پاکستان اور ہندوستان معرض وجود میں آگئے۔ پھر 27 مارچ 1948ع میں پاکستانی جبری قبضہ نے بلوچستان کا پورا نقشہ تبدیل کردیا۔ اس سیاہ دن سے لے کر آج تک بلوچ اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔
دراصل گولڈ سمتھ لائن برطانوی قبضہ گیر سامراج نے اپنے مفادات کے لئے کینچھ کر بلوچوں کو مغربی اور مشرقی بلوچستان میں تقسیم کیا، جو کہ ایک غیر قانونی، غیر فطری اور مصنوعی لکیر تھی۔
تقسیم در تقسیم کی ایک اور شکل ڈیورنڈ لائن سے بھی ملتی ہے۔ برطانوی ہند کے سیکریٹری سر مارٹیمر ڈیورنڈ اور افغان امیر عبدالرحمان نے 1893ع میں سرحدی حدبندی کے سمجھوتے پر دستخط کئے۔ اس سرحدی حدبندی کی معیاد کے حوالے سے مختلف آراء ملتی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں اس معاہدے کی معیاد دستخط کنندہ بادشاہ کی زندگی تک تسلیم کی گئی تھی، جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ اس کی معیاد سو سال تھی۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ برطانوی ہند سے ہوا تھا، جو 14 اگست 1947 کو ختم ہو چکا ہے۔
بہرکیف اسی طرح بلوچوں کو تقسیم کرنے اور اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے بلوچوں کے بعض علاقے افغانستان میں شامل کے گئے تھے۔
پاکستان کےصوبہ پنجاب، صوبہ خیبرپختون خوا اور صوبہ سندھ میں بلوچوں کے بہت علاقے شامل کئے ہیں۔ اور کچھ پشتون علاقوں کو بلوچستان سے ملا دیا ہے۔ افغانستان سے صوبہ نیمروز صوبہ ہلمند وغیرہ، پنجاب سے راجن پور، رحیم یار خان اور ڈیرہ غازہ خان، خیبر پختون خواہ سے ڈیرہ اسماعیل خان اور سندھ سے کراچی اور جیکب آباد کو بلوچوں سے الگ کر کے ان علاقوں میں شامل کیا گیا تاکہ بلوچ اقلیت میں تبدیل ہو کر ان کی اجتماعی قوت منشتر ہوجائے.
بہرحال گولڈ سمتھ لائن ایک غیر قانونی لکیر ہے۔ اس لکیر کے دونوں اطراف کے بلوچ کسمپُرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں اطراف کے مظلوم بلوچ اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں زندگی کی تمام تر بنیادی سہولتوں اور ضرورتوں سے محروم ہیں۔ یہ لکیر چکی کا مناظر پیش کر رہی ہے، جو بلوچوں کو پیس رہی ہے۔ دونوں سرکار کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔ دونوں اطراف کے بیچارے مظلوم اور محکوم بلوچ چھوٹے پیمانے پر تیل کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ جس سے وہ روکھی سوکھی روٹی کما کر اپنے بچوں اور خاندانوں کی کفالت کر رہے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکار اس مشقت کو ان سے چھین رہی ہے اور ان کو نان شبینہ کے لئے محتاج بنایا جا رہا ہے۔ جو یقیناٙٙ انتہائی زیادتی اور نہ انصافی پر مبنی ایک غیر انسانی فعل ہے اور مظلوم بلوچوں کا صریحاً معاشی قتل ہے۔ اس روزگار کے علاوہ اور روزگار نہیں ہے اگر روزگار ہوتا تو کوئی اپنی جان کی بازی لگا کر اس کاروبار میں شامل نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ نہایت مجبوری اور ذلت کا کاروبار ہے۔ اس کاروبار سے منسلک کئی گھرانوں کے چراغ گل ہوچکے ہیں۔ دونوں طرف کی سرکار کی بے رحمانہ گولیوں سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں ہیں۔ کئی لوگ حادثات کا شکار ہوکر جُھلس گئے ہیں۔ ایسے بھی گھر ہیں جہاں ماوُں کے دو دو جوان بیٹے ان حادثوں کی آگ میں جُھلس گئے ہیں جو دفنانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔
اگر سرکار ان کو روزگار کے میسر مواقع فراہم کرتا تو کوئی شخص اس دربدر اور ذلالت کے کاروبار سے منسلک نہیں ہوتا۔ اب بے حسی کی عالم یہ ہے کہ سرکار ان کے منہ سے نوالہ چھین رہی ہے۔ کیا جب سرکار ان کے کاروبار پر بندش لگاتی ہے تو اس نے کوئی متبادل روزگار کے مواقع تلاش کیے ہیں؟ اگر کیے ہیں تو ٹھیک ہے، بند کرو اس ذلت کے کاروبار کو، اگر نہیں کیے تو پھر یہ محرومیوں کے مارے لوگ کہاں جائیں اور کریں بھی تو کیا؟ برائے مہربانی لوگوں پر رحم کر کے اس کاروبار کو بند نہ کیا جائے۔ تاکہ لوگ فاقہ کشی پر مجبور نہ ہوں۔
ان میں اکثر ایسے لوگ ہیں جنہوں نے قسطوں پر گاڑیاں خریدی ہیں۔ اس کاروبار سے کوئی کروڑ پتی نہیں بنتا، وہ اس کاروبار سے اپنے گھر کا چولہا جلانے کے ساتھ ساتھ بمشکل گاڑیوں کی قسطیں ہی ادا کر پاتے ہیں۔ انہیں سرکاری اہلکاروں کو بھی بھتہ دینا پڑتا ہے۔ اس کاروبار سے منسلک سب غریب لوگ ہیں کوئی اس میں امیر نہیں ہے۔ ایک طرف ایران نے باڑ لگادی ہے، دوسری طرف پاکستان نے۔ یہ بیچارے غریب لوگ ان دونوں باڑوں کے درمیان ہفتوں ہفتوں پس جاتے ہیں، جن کو سیکورٹی فورسز گزرنے نہیں دیتیں اور انہیں کئی دنوں تک بیچارے بہت دنوں تک بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں تربت سے تعلق رکھنے والا ایک شخص شدید بھوک کی وجہ سے اپنی جان سے گیا اور کچھ لوگ بے ہوش ہوگئے۔
دو مہینے پہلے ایک اور دلخراش اور افسوسناک واقع پروم سے متصل باڈر حق آباد میں پیش آیا ہے۔ جہاں ایرانی سیکورٹی فورسز نے ان مظلوموں پر اندھا دھند فائرنگ کھول دی، جس سے دس 10 سے زائد لوگ شہید ہوئے اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ جب گاڑیاں کراسنگ پوائنٹ میں آتی ہیں، ان کو سیکورٹی فورسز کراسنگ سے روکتی ہے۔ پھر گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ ﷲ نہ کرے ایک گاڑی میں اگر آگ لگ جائے تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ جُھلس کر راکھ بن جائیں گے۔ کیونکہ ہر طرف باڑ ہے، بچنے کے لیے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں۔ خدارا ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے لوگوں کو ایک کراسنگ پوائنٹ پر جمع نہ کریں ان کو گزرنے دیا جائے۔
کچھ روز پہلے ایک گاڑی کو آگ لگی تھی. خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔کیونکہ اس وقت ٹریفک جام نہیں تھا اور رش نہیں تھا اور گاڑیاں بہ ہونے کے برابر تھیں۔ ﷲ نہ کرے جب رش میں اس طرح کا کوئی حادثہ ہوجائے تو نتائج انتہائی بھیانک نکلیں گے۔
بارڈر کی بندش اور روزگار کے دیگر مواقع نہ ہونا مظلوم بلوچوں پر سنگین اثرات مرتب کر ریا ہے۔ جن میں سے چند کو ذیل میں بیان کیا گیا ہے۔
1- اس سے بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے اور مظلوم و محکوم بلوچ فاقہ کشی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
2- لوگ غربت کی حالت میں اپنا علاج و معالجہ نہیں کر سکتے۔ صحت کا معیار گِر کر لوگوں کو موت کے منہ میں لے جاتا ہے۔
3- بچوں کی تعلیم و تربیت اور کفالت پر انتہائی بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں.
4- کسمپرسی اور محرومیوں کے شکار بلوچوں کے حالات مزید بگڑ جاتے ہیں.
5- اغوا برائے تاوان، زمینوں پر قبضہ، بے راہ روی، چوری، ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
6- مظلوم بلوچ غربت کی لکیر سے بتدریج بہت تیزی سے نیچے چلے جاتے ہیں جس سے زندگی مفلوج ہوجاتی ہے۔
7- ہم مظلوم و محکوم بلوچ ویسے ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں، لیکن اس سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا سے مزید کٹ کر دنیا سے بیگانہ ہوجاتے ہیں۔
حرفِ آخر۔ حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نام نہاد حکومتی نمائندے اور نام نہاد قوم پرست خواب خرگوش کے مزے لے کر سو رہے ہیں یا ان کو سانپ سونگھ گیا ہے! اب ایک جامع حکمت عملی اور واضح پالیسیوں سے عقلمندی، بردبادی اور دور اندیشی سے کام لینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کل سب موت کی آغوش میں چلے جائیں۔ بلوچوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر مشترکہ طور پر اس معاشی قتل کے خلاف اپنی جدو جہد کو منظم انداز میں تیز کرنا پڑے گا۔ جس سے ان کی اجتماعی جدوجہد متحرک اور کارگر ہوکر کل ان کے لئے بہترین راہیں کھول دینے کے لئے رستہ ہموار کرے گی۔