انیس سو نواسی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا سال تھا جب سندھ اور ملک کے دوسرے شہری علاقوں میں ایک سول وار کی سے کیفیت تھی، لیکن سنسر اتنا تھا کہ ایک صوبے میں ہونے والے واقعات، احتجاج اور کاروائیوں کا دوسرے صوبے والوں کو پتہ نہیں پڑتا تھا۔ کئی خودرو لیکن تتر بتر تحریکیں، زیر زمین گوریلا اور نیم گوریلا تنظیمیں ملک اور ملک سے باہر، مرتضیٰ ایسوسی ایٹس کمپنی کے ذریعے بیروزگار اور سیاسی نوجوانوں کی لیبیا کو بھرتی، پاکستان لبریشن آرمی (پی ایل اے) اور پھر بھٹو برادرز مرتضیٰ اور شاہنواز کی الذولفقار، اور لاہور میں بلیک ایگلز (یہ سب دوسری بادشاہی کے قصے ہیں پھر کبھی سہی) لیکن اس وقت پکنے والے لاوے یا ایسے آتش فشاں، جس کا رخ لامحالہ ضیا فوجی آپیشاہی کی طرف ہی ہونا تھا. لیکن جرم اور سیاست آپس میں گڈ مڈ ہو رہے تھے۔
بھٹو کی پھانسی سے بمشکل چھ ماہ قبل ۲ اکتوبر ۱۹۷۸ کو جب سندھ یونیورسٹی جامشورو میں یہ افواہ پہنچی کہ کسی فوجی میجر نے پیپلز میڈیکل کالج نوابشاہ میں سندھی طالبہ کے ساتھ رئپ کیا ہے۔ بغیر کسی تصدیق کے طلبہ نے کلاسوں کا بائکاٹ کیا اور ایک احتجاجی ریلی سپرہائی وے پر نکلی جو قریبی انجنیئرنگ کالج کا بائیکاٹ کروانے کے بعد لیاقت میڈیکل کالج کی کلاسوں کا بائکاٹ کروانے جار ہی تھی، تو اس میں شامل کچھ لیڈروں، جن کی قیادت جیئے سندہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا علی حیدر شاہ کر رہا تھا، نے تھانے پر دھاوا بولنے ،تھانے کے مال خانے سے ہتھیار لوٹنے اور عمارت کو آگ لگانے کی ترغیب دی۔ اور بعد میں ان مسلح مشتعل افراد نے ایک فوجی ٹرک پر حملہ کیا، جو پیٹارو روڈ پر پانی کی ٹینکی بھر کر اپنے یونٹ کو لے جا رہا تھا ۔اس حملے میں ایک رنگروٹ فوجی ہلاک ہوا۔ باقی سب تاریخ ہے۔ لیکن فوجی کے قتل اور لوٹ مار مچانے والے علی حیدر شاہ اور اس کے ساتھی قادر جتوئی قریبی سپر ہائے وے پر آصف زرداری کے زرعی فارم پر اس رات جا چھپے تھے، جن کے آنے کا سن کر زرداری فارم پر نہیں آیا تھا۔ بہرحال بہت دنوں بعد یہ دونوں جاکر کوڑل شاہ کے طارق روڈ کراچی کے فلیٹ پر پولیس چھاپے میں گرفتار ہوئے تھے. کوڑل شاہ ضیا الحق کا سندھ میں جیل خانہ جات کا وزیر تھا۔
وڈیرے جن میں کتنوں کے ہاں تھانیدار اور ڈاکو مخالفین اور دشمنوں پر دہشت بٹھانے کا ذریعہ رہے ہیں۔ یہ شاید ایوب کھوڑو کے زمانے سے ہو رہا جس کے دور میں ہاری حقوق کے رہنما قاضی فیض محمد کے گھر پر کھوڑو کے حواری وڈیروں نے ڈاکو بھیجے تھے اور مزاحمت کرنے پر ان کی بھاوج سمیت ان کے اہل خانہ کو سخت زخمی کیا تھا۔ یہ سب کچھ علاقے میں مقامی سیاستدان غلام نبی ڈہراج کی طرف سے کرایا گیا جو خود کو قائد اعظم کا ساتھی کہلاتا تھا۔
ضیاءالحق فوجی آمریت کے شروعاتی دنوں میں ٹنڈو آدم کے قریب سندھ کا سابق چیف سیکرٹری اغوا ہوا اور علاقے کا مشہور زمیندار خان صاحب وکیو بھی اغوا ہونے والوں میں شامل تھے۔ جاموٹوں اور مخدوموں کی رسہ کشی والے اس علاقے میں ڈاکو صاحبڈنو ماچھی اور نصیر فقیر نوح پوٹو سرگرم تھے۔ صاحبڈنو ماچھی اور نصیر فقیر یکے بعد دیگرے اپنے ہی مخالفین کے ہاتھوں مارے گئے، جنہوں نے ان کی لاشیں پولیس کے حوالے کیں اور پھر پولیس نے اسے “پولیس مقابلا” دکھایا تھا ۔ ان کی لاشیں تھانوں پر رکھی گئیں، جنہیں دیکھنے خلقت آئی تھی۔
اب شہری علاقوں میں شہری ڈاکوں کا دور دورہ تھا۔ سکھر کے ڈاکو گڈانی برادران کراچی اور سکھر میں بنک ڈکیتیوں، قتل اور کاریں چھیننے کی واردتوں میں دیکھے جانے لگے۔ ان کے ایک بھائی شریف گڈانی کو فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔ اس پر یاد آیا کہ ملتان میں ایک ڈکیت سعادت بلوچ جو کہ جماعت سلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کا قریبی عزیز بتایا جاتا تھا، کو بھی فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ اور پھر اسے پھانسی کی سزا دے دی گئی تھی۔ شریف گڈانی کا ایک چچا خان گڈانی المعروف خان چاچا ضیاءالحق کے بلدیاتی نظام میں سکھر کا کائونسلر بھی بنا اور اپنے علاقے میں کافی ٹیکہ رکھتا تھا۔
عمران بلیدی ایک اور شہری ڈاکو تھا، جس کی کاروائیوں کی حد کراچی اور بلوچستان تھا۔ جہاں وہ کاریں چھیننے کا ماسٹر بتایا جاتا تھا۔ عمران بلیدی گڑھی خیرو کے سردار غلام علی بلیدی کا بیٹا تھا۔ غلام علی بلیدی جام صادق علی کی حکومت کے دنوں میں گڑھی خیرو میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں سرکاری امیدوار تھا، جبکہ اس کے مقابلے میں تب حزب مخالف پی ڈی اے کا امیدوار عبدالحفیظ پیرزادہ تھا ضمنی انتخابات میں زبردست دھاندھلیاں ہوئی تھیں، جن میں پیرزادہ کے چیف پولینگ ایجنٹ سردار ثناءاللہ زہری اور خود عبدالحفیظ پیرزادہ سمیت گرفتار کر کے جیکب آباد سے مٹھی پہنچائے گئے تھے۔ جام صادق علی سے جب پوچھا گیا کہ اس نے بلوچستان کے چیف آف جھالاوان کو کیسے گرفتار کیا ہے، تو اس نے کہا: “سردار صرف عطاءاللہ مینگل اور خیر بخش مری ہیں، باقی ایسے سرداروں کو تو میں “گڈیاں” ماروں گا (گڈی سندھی میں پچھواڑے میں انگلی مارنے کو کہتے ہیں)
جام صادق علی اور ڈاکو تو ایک پورا باب ہوسکتا ہے، لیکن سندھ کا بدنام ڈاکو نورو ماچھی جاموں کا اپنا آدمی تھا۔ نورو پہلے درزی تھا جو پھر شاہنواز جونیجو کا بھی چوری کے کاموں میں ساجھے دار بنا۔ ان دنوں کراچی میں ایرانی بلوچ امان اللہ مبارکی کا بھی بڑا چرچہ ہونے لگا جسے کچھ بلوچ قومپرست اپنا “ہیرو” کہتے ہیں۔
علی حیدر شاہ جو کہ پہلے لاڑکانہ میں ڈگری کالج کے پرنسپال شبیہہ حیدر رضوی کے قتل میں بھی ملوث رہا تھا، ویسے تو ڈکیتی کی چھوٹی موٹی وارداتیں کرتا رہتا تھا۔ علی حیدر شاہ نے جرائم کا آغاز ایک پرائمری ٹیچر کا بٹوہ چھیننے سے کیا تھا۔ پرائمری ٹیچر کو اپنے بٹوے چھیننے کا دکھ نہیں تھا، دکھ بٹوے میں پڑی ہیموں کالانی کی تصویر کا تھا۔ ہیموں کالانی کو سندھ یا ہند میں ایک اور بھگت سنگھ سمجھا جاتا ہے۔ علی حیدر شاہ اب وہ جیئے سندہ کا دبنگ لیڈر کہلایا اور کمر میں ہالی ووڈ فلموں کی طرح ایک نہیں دو پستول لیے چلتا تھا۔ علی حیدر شاہ کےساتھ اب ایک اور خطرناک کردار اسلام الدین عرف چھانگا آکر شامل ہوا جو کار چوری، کاریں چھیننے اور بنک ڈکیتیوں کا ماہر تھا۔ چھانگے کے ہاتھ کی چھ انگلیاں ہونے کی وجہ سے اسے چھانگا کہا جاتا تھا۔ چھانگے کے لیے کہا جاتا تھا کہ وہ عدالتوں میں اپنے کیس خود لڑتا تھا اور اکثر چھوٹ جاتا تھا۔ چھانگا علی حیدر شاہ کا “پارٹنر” تھا اور اسے اکثر اب سندھ یونیورسٹی اور علی حیدر شاہ کے کمرے پر انٹرنیشنل ہاسٹل میں دیکھا جاتا۔ شاید یہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں باہر سے کسی خطرناک مجرم کی پہلی انٹری تھی۔ علی حیدر شاہ نے چھانگا کے ساتھ ایک بڑی واردات نیشنل بنک جہلم کو لوٹنے کی تھی جس میں وہ دونوں پکڑے گئے تھے، لیکن ان پر فوجی عدالت میں کیس بھی چلا تھا۔
شہری ڈاکوؤں میں اب طالب علم یا نوجوانوں کے ساتھ ایک اور خطرناک مجرم صدورو شیخ عرف کشمیر خان بھی آکر شامل ہوا تھا اور کراچی میں لیاقت آباد کے پیلی بھیت کے علاقے میں پولیس سے ان کا زبردست مقابلہ ہوا تھا، جس میں ایک نوجوان جمیل شیخ نامی ہلاک ہو گیا تھا، جو امتیاز شیخ کا کزن تھا۔ صدورو شیخ جام صادق علی کے دنوں میں مئی انیس سو اکانوے میں کشمور کے قریب دریائے سندھ کی مہم پر آئے جاپانی سیاحوں کو اغوا کرنے والے غلام رسول کمانڈو شیخ کا باپ تھا۔
کشمور اس وقت بھی ڈاکوؤں کا گڑھ تھا اور ان پر اثر رسوخ سلیم جان مزاری کا تھا۔ بی بی سی پر ڈاکیومینٹری میں کشمور کے ان ڈاکوؤں کو کہتے سنا گیا تھا “ہم کسی سے نہیں ڈرتے سوائے اللہ کے اور فوج کے”
ایک ڈاکو لاڑکانہ کا الاہی بروہی بھی تھا، جو غلام حسین انڑ کا خاص آدمی تھا (انڑ کے پاس ایسے کئی خاص آدمی تھے)۔انیس سو اسی میں گاڑی کھاتہ، حیدرآباد میں انڑ کی سابق بیوی کبرا شاہ کا قتل ہوا تھا، جو کہتے ہیں کہ الاہی بروہی ڈاکو نے کیا تھا۔ الاہی بروہی جسے لوگ غلام حسین انڑ کی طرف سے عدالتوں میں کسی بھی قتل یا ایسے سنگین جرم کے لیے کہتے تھے کہ یہ ان کے بھوتار نے نہیں انہوں نے خود کیا ہے۔ یاد رہے کہ وہی غلام حسین انڑ ہے جو اپنے ہم زلف مرتضیٰ بخاری کو ٹانگ سے بم باندھ کر بی سی سی آئی بنک سے اس سے اپنی رقم نکلوا کر اینٹھنے کے کیس مین زرداری کے ساتھ شامل جرم بتایا گیا تھا۔ یہ دونوں یار غار تھے، پھر زرداری سے وفاداری بدل کر جام صادق علی سے کرلی تھی۔
بینظیر کا دوسرا دور آیا تو زرداری نے اسے تب تک جیل میں رکھوایا، جب تک ہسپتال میں اس کی آخری سانس نہ نکلی۔ مقتولہ کبریٰ شاہ علاقے کے ایک اور طاقتور وڈیرے اور سابق وزیر قبول محمد شاہ کی رشتے میں بہن تھی۔ قبول محمد شاہ زرداری کا کیڈت کالج پیٹارو کے دنوں کا ساتھی ہے، جو قتل کے کیس میں جیل میں تھا۔
علی حیدر شاہ اور قادر جتوئی کو فوجی کے قتل میں خصوصی فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی، جو بعد میں جنرل ضیا نے عمر قید میں بدلی۔ یہ اب تک ایک “معمہ” ہے کہ ضیاالحق، جس نے بھٹو سمیت کسی کی بھی سزائے موت میں معافی یا کٹوتی نہیں کی، اس نے فوجی کے قتل میں ملوث علی حیدر شاہ اور قادر جتوئی کی سزائے موت عمر قید میں بدلی تھی. نہ فقط سندھ یونیورسٹی میں باہر سے خطرناک مجرم آنے لگے تھے، بلکہ اب ان تعلیمی اداروں میں ایک کرنل نامی کرنل جاوید بھی ایسے طالب علم لیڈروں کو ہدایات دینے لگا تھا کہ جب علی حیدر شاہ اور اس کے گُرو حبیب اللہ ناریجو نے مارشل مخالف طلبہ ریلی پر پستول نکال لیا تھا۔ یہ ایک الگ موضوع اسپر پھر کبھی سہی۔ (جاری ہے)
حسن مجتبٰی کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا.