ﷲ کا بیت المال

منیر احمد بلوچ

قدرت ﷲ شہاب اپنی خود نوشت "شہاب نامہ” میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ 1960ء کی بات ہے‘ میں اپنے ماتحت کے ساتھ جیپ پر جا رہا تھا کہ ایک جگہ ایک ادھیڑ عمر مرد اور عورت‘ جنہوں نے گدھے پر دو بوریاں لاد رکھی تھیں‘ نے ہمیں رکنے کا اشارہ کیا۔ ہماری جیپ رکی تو بوڑھے شخص نے ہم سے بیت المال کا پتا پوچھا۔ شہاب لکھتے ہیں کہ ہم سمجھے کہ بیت المال سے کچھ مدد لینا چاہتے ہوں گے‘ میرے ساتھ موجود اہلکار نے ان سے پوچھا کہ آپ بیت المال کا کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اس پر وہ بوڑھا شخص کہنے لگا کہ ہم دونوں مٹی ڈھونے کا کام کرتے ہیں‘ منگلا کی پرانی اور اجڑی ہوئی آبادی سے مٹی کھودتے ہوئے ہمیں ملبے سے چاندی اور سونے کے زیور ملے ہیں جنہیں ہم نے ان بوریوں میں ڈال دیا ہے اور اب یہ سرکار کو دینے کیلئے جا رہے ہیں مگر ہمیں بیت المال کا پتا نہیں معلوم۔ بوڑھے کی بات سن کر ایک لمحے کیلئے انہیں جھٹکا سا لگا کہ یہ دونوں مٹی کھودنے والے غریب مزدور بجائے اس کے کہ اس سونے اور چاندی سے اپنا گھر بھر لیں‘ لاکھوں (بلکہ آج کے کروڑوں) روپے مالیت کا سونا چاندی سرکاری خزانے میں جمع کرانے کیلئے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ اجڑی ہوئی آبادی کے ڈھیر سے ملنے والا زیور اس بوڑھے جوڑے نے اس لیے اکٹھا نہیں کیا کہ اس سے وہ اپنا گھر بنائیں گے یا اپنے بچوں کے لیے کوئی زمین جائیداد وغیرہ خرید لیں گے بلکہ محض اس لیے سارا زیور جمع کیا کہ وہ اسے ملک کے خزانے میں جمع کرانا چاہتے تھے۔

اب تو نہ وہ بوڑھے میاں بیوی اس دنیا میں رہے‘ نہ ہی یہ واقعہ بیان کرنے والے قدرت اللہ شہاب مگر جب بھی منگلا کے ان دو بوڑھے میاں بیوی کا واقعہ کوئی پڑھے گا اور جہاں جہاں بھی ان کا ذکر ہو گا یہ دونوں روشن ستاروں کی طرح آسمان کی وسعتوں میں جگمگاتے رہیں گے۔

قیامِ پاکستان سے اب تک‘ ہر سال حکومت پاکستان نہ جانے کتنے لوگوں کو ہلال پاکستان، ستارۂ امتیاز، ہلالِ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس جیسے اعزازات سے نوازتی ہے۔ اگر کبھی اعزازات کی فہرست مرتب کرتے ہوئے کسی کا دھیان ان بوڑھے میاں بیوی کی جانب سے بیت المال میں جمع کرائی گئیں سونے چاندی کے زیورات والی دو بوریوں کی جانب چلا گیا تو ان کیلئے بڑے سے بڑا اعزاز بھی حقیر سمجھا جائے گا۔ وزیراعظم یا صدر پاکستان تک اگر کوئی یہ داستان پہنچا دے تو ان بوڑھے میاں بیوی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کوئی بستی بسائی جا سکتی ہے یا وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کی کوئی اہم شاہراہ ان کے نام سے موسوم کی جا سکتی ہے۔ میں اس وقت تک ایوانِ اقتدار کا دروازہ کھٹکھٹاتا رہوں گا جب تک ان بوڑھے میاں بیوی کے نام ملکی تاریخ میں محفوظ نہیں کر لیے جاتے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بعد یہ دو بوڑھے افراد پاکستان کی اصل پہچان ہیں جنہوں نے اپنے کمزور ہاتھوں اور جھکی ہوئی کمر سے مٹی کے ڈھیر سے اکٹھا کیا گیا سونا چاندی وطن عزیز کے سپرد کر کے اپنا فرض ادا کیا۔

کچھ مستحق لوگوں کیلئے بیت المال سے رابطہ کیا تھا لیکن آج تک کوئی جواب نہیں ملا شاید ان کے پاس فنڈز ہی نہیں ہوتے۔ انتہائی ضرورت مند یتیم بچوں اور بیوائوں کو پہنچنے والی تکالیف مختلف ذرائع سے مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں ان میں کچھ ایسی بیوائیں بھی ہیں جو کئی کئی برسوں سے فالج اور دوسرے مہلک امراض میں مبتلا ہیں۔ اللہ پاک کا اب تک یہ احسان ہے کہ جب بھی کسی ایسے ضرورت مند‘ بے بس اور لاچار کی فریاد اپنے ہم وطنوں تک پہنچائی تو خاص طور پر بیرونِ ملک سے یک دم کچھ ہاتھ ان کی مدد کیلئے بڑھے جس سے یہ یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ اللہ کے بیت المال کی شاخیں ہر جگہ قائم ہیں۔ عید سے کوئی ایک ہفتہ قبل ایک بیوہ خاتون‘ جو ایک چھوٹے سے قصبے میں ڈھائی مرلے کے مکان میں دو نوجوان بیٹیوں اور ایک نوعمر بیٹے کے ہمراہ رہتی ہے اور کچھ گھروں میں کام کر کے بڑی مشکل سے اپنا گزارہ کرتی ہے‘ کی داستانِ درد مجھ تک پہنچی۔ اس کا بیٹا ایک حادثے میں سخت زخمی ہو گیا تھا، وہ خاتون اسے موٹر سائیکل رکشے میں ہسپتال لے کر جا رہی تھی کہ ایک تیز رفتار گاڑی سے ٹکر کے باعث وہ رکشہ الٹ گیا جس سے عورت کی ایک ٹانگ اور دایاں بازو ٹوٹ گئے۔ سرکاری ہسپتال کورونا کی وبا کی وجہ سے آپریشن کیلئے بند تھے، کچھ راہگیر انہیں ایک پرائیویٹ ہسپتال لے گئے اور انہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔ اب ان کے علاج اور آپریشن کیلئے اچھی بھلی رقم کی ضرورت تھی۔ کسی طرح اس کی خبر مجھ تک پہنچی‘ ابھی میں اس کیلئے پریشان ہو ہی رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک پیغام موصول ہوا ”آپ کے اردگرد کوئی ضرورت مند ہے تو بتائیے؟‘‘ اللہ کے گھر میں بیٹھی ہوئی اور ہمہ وقت اپنے دل میں درد اور ہمدردی لئے ہوئے اس شخصیت کی جانب سے اس بیوہ عورت کی ٹانگ کے آپریشن اور بچے کے سر پر لگنے والی چوٹ کے بہترین علاج اور اس کے یتیم بچوں کیلئے عید پر نئے کپڑے اور گھر میں کھانے کیلئے برتن اور راشن کیلئے اللہ کا بیت المال حرکت میں آ گیا۔ معاشرے کا دوسرا پہلو دیکھئے کہ ایک طرف ایک عرب ملک میں موجود ایک ڈاکٹر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا بیت المال بن رہا تھا تو دوسری طرف کچھ شیطان صفت افراد حرکت میں آ گئے اور جب وہ بیوہ عورت اپنے بچے سمیت ہسپتال میں داخل تھی تو کچھ چور اس بیوہ کے گھر سے سلے اَن سلے کپڑے، چولہا، توا اور تمام برتن چرا کر لے گئے۔ اگلے دن پورے قصبے میں ایک شور سا مچ گیا کیونکہ چوری کی اس طرح کی واردات قصبے کی ایک دوسری بیوہ و غریب عورت کے گھر میں بھی کی جا چکی تھی۔

اللہ کے بیت المال اور اس کے منتخب کردہ افراد کی بات کرتے ہوئے مجھے شاہ پور کے قریب ایک گائوں کا وہ نوجوان یاد آ گیا جو لاہور میں اپنے کسی رشتہ دار کے پاس حجام کا کام سیکھنے کیلئے آیا تھا۔ گائوں میں وہ ایک زمیندار کے ڈیرے پر اس کی بھینسوں کیلئے چارہ کاٹتا اور پھر اسے کتر کر بھینسوں کو ڈالتا تھا یا اس کے علاوہ اس سے دودھ دوہنے کا کام لیا جاتا تھا۔ بدلے میں اسے ماہانہ سات ہزار روپے، ایک گڑوی دودھ روزانہ اور ربیع اور خریف میں کچھ گندم اور چاول دیے جاتے تھے۔ حالات سے تنگ آ کر وہ نوجوان اپنی بیوی کے ساتھ لاہور میں اپنے ایک رشتہ دار کی دکان پر حجام کا کام سیکھنا شروع ہو گیا۔ خدا کی کرنی کہ چار پانچ ماہ بعد اس کی بیوی کورونا جیسی مہلک بیماری کی انتہائی خطرناک سطح کا شکار ہو گئی۔ اسے ایک مقامی ہسپتال میں اسے داخل کرایا گیا لیکن بیماری بڑھتے بڑھتے انتہائی خوفناک شکل اختیار کر گئی۔ لگتا تھا کہ کسی بھی وقت وہ جان دے دے گی۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں سرکاری ہسپتال والوں نے‘ جہاں وہ ایڈمٹ تھی‘ کچھ ٹیسٹ کرانے کیلئے کہا۔ اس شخص نے اپنے استاد سے پندرہ ہزار روپے مانگے کیونکہ گزشتہ چار ماہ سے وہ دکان پر کام کر رہا تھا اور اب تک اسے روزانہ محض پچاس روپے ملتے تھے ۔ اسے نہ صرف پیسے دینے سے انکار کر دیا گیا بلکہ دکان سے بھی بھگا دیا گیا۔ بیوی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھی اور خاوند بے گھر اور بے یار و مددگار۔ وہ ہسپتال کے باہر بے بس کھڑا رو رہا تھا۔ دوسری طرف اللہ کے بندے طاق راتوں میں سخاوت کیلئے نکل چکے تھے۔ اللہ کا خوف رکھنے والی ایک شخصیت نے مجھے وسیلہ بنا کر اللہ کے بیت المال کی امانت کے ہمراہ رات گئے اس ہسپتال بھیج دیا جہاں وہ شخص دونوں ہاتھوں میں سر دیے مسلسل رو رہا تھا۔ بیت المال کا وہ نگران مجھے سیدھا اس نوجوان کے پاس لے گیا اور پھر اللہ کے بیت المال سے آئی رقم سے اس کی بیوی کے تمام ٹیسٹ بھی ہو گئے، اس کی مہنگی ادویات کا انتظام بھی ہو گیا اور اس کے بعد اس شخص کے مستقل روزگار کا بندوبست بھی اس طرح ہو گیا کہ اسے حجام کی دکان کیلئے درکار چھ ماہ کا ایڈوانس کرایہ اور مطلوبہ تمام سامان مہیا کر دیا گیا۔ اب وہ نوجوان اپنے ہی گائوں میں حجام کی دکان چلاتا ہے اور ساتھ ہی اپنے بوڑھے ماں باپ اور بیوی کی دیکھ بھال بھی کر رہا ہے۔
بشکریہ تجزیہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close