1970ء کی دہائی میں کراچی کے بزنس ریکارڈر روڈ سے روزانہ گزر ہوتا تھا لیکن کبھی اس سڑک کے سابقہ نام دیپ چند اوجھا یا اس کی اہمیت پر زیادہ دھیان ہی نہیں تھا۔ برسوں بعد جب ناسٹیلجیا نے دستک دی تب میں نے اس حوالے سے کھوج شروع کی۔ مذکورہ نام کو ضرور پہلے ہی دل کے تار چھیڑ دیے جانے چاہیے تھے۔ جی ہاں، یہ نام اوجھا سینی ٹوریم کے بانی سے منسوب تھا۔
2003ء سے اوجھا انسٹیٹیوٹ برائے امراض سینہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا ذیلی ادارہ بنا ہوا ہے۔ مگر اس سفر کا آغاز دہائیوں پہلے ہوا تھا اور اصل سینی ٹوریم کا سنگِ بنیاد قریب 82 برس قبل رکھا گیا تھا۔ یہ ادارہ جنگی وقتوں، تقسیمِ ہند کے دوران سیاسی کشمکش سے گزرا لیکن اس کا نہ صرف وجود باقی رہا بلکہ ترقی بھی کرتا رہا۔
اوجھا خاندان
تو اوجھا تھا کون؟ اس سوال کا جواب مجھے ان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے کمل اوجھا کے پاس لے گیا جو لندن میں گائناکولوجسٹ ہیں۔ ان کے بارے میں مجھے کچھ معلومات Great Personalities of Pushkarna Brahmin نامی کتاب میں بھی ملی۔
اوجھا خاندان کے افراد دو سو سال پہلے موجودہ بھارت کے شہر جیسلمیر سے آکر ٹھٹہ بس گئے تھے۔ وہ آیور وید میں اپنی مہارت کے باعث جانے جاتے تھے۔ معروف آیور وید کے معالج رنچھوڑداس کے 4 بیٹے تھے، جن میں سے تیج بھنداس اور سوامی داس ٹھٹہ میں ہی رہے جبکہ لال چند اور ٹھاکر داس نے کراچی میں رہائش اختیار کی۔
تیج بھنداس کا آیور وید کی مصنوعات کا بڑا کاروبار تھا اور ان کے ہاں 6 بیٹوں کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان میں سے 2 کی بچپن ہی میں موت ہوگئی تھی۔ دیپ چند نامی سب سے بڑے اور ان کے چھوٹے بھائی اسن مل کو حصولِ تعلیم کے مقصد سے کراچی بھیج دیا گیا۔ اسن مل نے بمبئی میں قانون کی تعلیم حاصل کی لیکن وکالت کے لیے کراچی لوٹ آئے۔ ان کے چھوٹے بھائی سکھ رام داس آیور وید میڈیسن کی پریکٹس کرتے تھے اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انہوں نے کراچی میں اس کام کو بھرپور انداز میں آگے بڑھایا۔
دیپ چند ڈی جے کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی کی ضلعی عدالت میں چیف کلرک مقرر ہوئے اور بعدازاں کراچی میونسپلٹی میں چیف کلرک کے طور پر تعینات ہوئے۔ ملازمت کے دوران انہوں نے 1897ء میں بار کا امتحان پاس کیا اور سکھر میں ماتحت جج بن گئے۔ تاہم 1902ء میں صدر کورٹ کراچی میں رجسٹرار کے عہدے پر فائز ہوئے۔
دیپ چند 1908ء میں کراچی میونسپلٹی کے کونسلر اور بعدازاں اسکول بورڈ کے چیئرمین بنے۔ ترقی کرتے ہوئے وہ میونسپلٹی کے صدر بن گئے۔ 1920ء کی دہائی کے اوائل میں انہوں نے بمبئی کی قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت میں خدمات بھی انجام دیں۔ انہوں نے 1920ء-1918ء کے آس پاس لیاری میں دیپ چند ٹی اوجھا اسکول قائم کیا.
انہوں نے راما بائی نامی خاتون سے شادی کی جو 6 بار حاملہ ہوئیں لیکن ہر بار حمل ضائع ہوگیا۔ ان کی موت کے بعد دوستوں اور رشتہ داروں کے اصرار پر انہوں نے چھوٹی بائی نامی خاتون سے شادی کی۔ ان کے ہاں ایک بیٹے کشن داس کی ولادت ہوئی لیکن بدقسمتی سے 1925ء میں بظاہر طور پر ٹی بی سے ان کے بیٹے کی موت واقع ہوگئی۔
1938ء میں 66 سالہ دیپ چند جب خود موت کی آغوش میں سوئے تو انہوں نے اپنی جائیداد کا ایک حصہ سکھ رام داس کے زیرِ نگرانی چلنے والے ٹرسٹ کے نام کیا تاکہ ٹی بی سے متاثرہ مریضوں کی خدمت کی جاسکے۔ 50 ہزار روپے کے فنڈ میں سکھ رام داس نے مزید 5 ہزار روپے کا اپنی جیب سے اضافہ کیا اور آیور ویدک ٹیوبرکلوسز ریلیف ایسوسی ایشن نامی منصوبے کو حقیقت کا روپ دیا اور میئر جمشید نسروانجی مہتا اس کے چیئرمین، سیٹھ مانوبھائی ڈونگرسی سیکرٹری بنے اور اس کا بورڈ آف ٹرسٹیز تشکیل دیا گیا۔
°سینی ٹوریم کی توسیع
ٹی بی مرکز کے لیے حکومت نے دیھ صفوراں میں 127 ایکڑ پر محیط پلاٹ بطور عطیہ دیا۔ یونائیٹڈ مشن ٹیوبرکلوسز سینی ٹوریم آف معدناپالی، آندھرا پردیش کے میڈیکل سپرینٹینڈنٹ ڈاکٹر فریموٹ مولر نے اس کے ڈیزائن میں مدد فراہم کی اور پھر 16 جون 1939ء کو اس وقت کے صوبائی وزیر نہال داس وزیرانی نے دیپ چند ٹی اوجھا کے نام پر بننے والے ہسپتال کی بنیاد رکھی۔ عمارت کی تعمیر کا کام ویلجی ہرکا پٹیل اینڈ سنز کو سونپا گیا۔
بیس کمروں پر مشتمل ہسپتال، تین کمروں پر مشتمل انتظامی بلاک، دو رہائش گاہیں، جن میں سے ایک ڈاکٹر اور دوسرا وید (یعنی آیور وید کے معالج) کے لیے بنائی گئیں، عملے کے لیے (ڈاکٹر کائی خوشرو اسپینسر کے اہل خانہ کی جانب سے عطیے کے طور پر) چار کوارٹرز اور خادمین کے لیے تیس کمروں پر مشتمل بلاک کا تعمیراتی کام انجام دیا گیا۔ کمپلیکس کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا جس میں مریضوں کے لیے 64 کاٹیجز ایک دوسرے سے 80 فٹ کے فاصلے پر موجود تھے، ان میں سے چند کاٹجز دو کمروں پر مشتمل تھے۔
ہر ایک یونٹ میں سونے کا کمرا، باورچی خانہ، لیٹرین اور برآمدہ بنا ہوا تھا۔ تمام کاٹجز عطیات کے ذریعے تعمیر کیے گئے تھے اور ہر ایک کاٹج پر ایک ہزار چار سو روپے کی لاگت آئی تھی۔
برآمدے میں عطیہ دینے والے اپنی تختی نصب کرتے۔ ایک تختی پر (انگریزی زبان میں) لکھا ہے کہ ‘خان بہادر دادا بھائی منصف کی پاکیزہ یاد میں جنہوں نے 19 فروری 1910ء کو وفات پائی۔ یہ عطیہ ان کی اہلیہ گل بانو ڈی منصف کی جانب سے دیا گیا’۔ ایک دوسری تختی پر رقم ہے کہ، ‘بچو بائی نادرشا ایڈولجی ڈنشا کی پیاری یاد میں یہ ان کے بھائیوں کی جانب سے تعمیر کروایا گیا جو ان کی جدائی کو بھول نہیں پائے’۔ ایک تختی پر یہ تحریر ہے کہ، ‘یہ سیٹھ جیون جی کریم جی مرسی والا نے اپنی زوجہ بائی امتل بائی کی یاد میں تعمیر کروایا’۔
سیٹھ ڈونگرسی جوشی نے تفریحی سرگرمیوں کے لیے ہال عطیے کے طور پر تعمیر کروایا۔ سر ڈیوڈ سسون نے برقی جنریٹر فراہم کیا، جو پونا سے منگوایا گیا تھا اور پاور ہاؤس تعمیر کروایا۔ سکھ رام داس نے سینی ٹوریم میں اپنی وقتاً فوتاً رہائش کے لیے اپنے پیسوں سے بنگلہ تعمیر کروایا۔ انہوں نے ادارے کے اعزازی منیجر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 8 جنوری 1942ء کو وائسرائے اور گورنر جنرل آف انڈیا لارڈ لنلتھگو نے اس منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا۔ بعدازاں اس میں مسافر خانہ اور چھوٹا گرجا گھر کا اضافہ کیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج نے اس عمارت کو اپنے قبضے میں لیا اور اسے امریکی آرمی کا بیس بنانے کے ساتھ جنگی قیدیوں اور پولش مہاجرین کو ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا۔ اس عمارت کو دوبارہ 1946ء میں دیپ چند ٹی اوجھا ٹی بی سینی ٹوریم کے طور پر بحال کردیا گیا۔
یہاں مریض اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کرتے تھے کہ انہیں ڈاکٹر سے علاج کروانا ہے یا کسی آیور وید معالج سے۔ عمارت میں 2 ڈسپینسریاں علیحدہ علیحدہ کام کرتی تھیں۔ جو مریض اپنے علاج کا خرچ اٹھا سکتے تھے وہ سینی ٹوریم کو عطیہ دیتے تھے جبکہ غریبوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی جاتی تھی۔ مریضوں کے اہل خانہ کو کاٹج میں کھانا پکانے کی سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔ جو افراد خود کھانا نہیں پکانا چاہتے تھے ان کے لیے پکوان مرکز کا آپشن ہوتا جو انہیں ان کے اخراجات پر کھانا فراہم کرتا تھا۔
تھوڑے ہی عرصے بعد تقسیمِ ہند کے باعث ہندو عملہ بھارت ہجرت کرکے جانے لگا۔ سکھ رام داس 1948ء میں بمبئی بس گئے۔ جس کے نتیجے میں سینی ٹوریم بند ہوگیا اور آیور ویدک ٹیوبرکلوسز ریلیف ایسوسی ایشن غیر فعال ہوگئی۔ یہاں اس کے صرف 3 ٹرسٹیز جمشید نسروانجی مہتا، سردار گبول اور مسز شاہانی ہی رہ گئے تھے۔ 1948ء میں یہ حکومتِ پاکستان کے حوالے کردیا گیا لیکن فعال نہ ہوسکا۔ مہتا کی کوششوں کے باعث دسمبر 1949ء میں اس سینی ٹوریم کو بحال کردیا گیا۔
اوجھا سینی ٹوریم کی 1942ء میں ہونے والی افتتاحی تقریب کی یادگاری تختی
اس سینی ٹوریم نے جناح سینٹرل ہسپتال کے ٹی بی شعبے کی زیرِ سرپرستی کام شروع کیا۔ کمپلیکس پر ویرانیوں کا ڈیرہ تھا اور وہاں کوئی کارآمد ساز و سامان باقی نہیں بچا تھا۔ بجٹ کو نئے سرے سے مختص کرتے ہوئے عمارت کی بحالی کا کام کیا گیا اور ڈاکٹر اقبال یاد کو پہلے میڈیکل افسر انچارج کے طور پر مقرر کیا گیا۔
فروری 1950ء میں 20 مرد مریضوں کے گروپ کو جناح سینٹرل ہسپتال سے یہاں منتقل کیا گیا۔ بعدازاں مارچ میں 20 خواتین مریضوں کے گروپ کو یہاں بھیجا گیا۔ یہ جناح سینٹرل ہسپتال کی ٹی بی انیکسی (منسلک عمارت) بن گئی۔ اتفاقاً جب سینی ٹوریم دوبارہ قائم کیا جا رہا تھا اس وقت 1950ء میں سکھ رام داس بمبئی میں انتقال کرگئے۔
1940ء کی دہائی میں جب پہلی مؤثر اینٹی بائیوٹک اسٹریپٹومائسن دریافت ہوئی تو ٹی بی کے علاج معالجے میں انقلاب آگیا۔ یہ کراچی کا پہلا ہسپتال تھا جہاں اسٹریپٹومائسن کے ٹیکوں کی سہولت فراہم کی گئی۔
سینی ٹوریم ڈاکٹر اے کے شریف، پروفیسر ایم اے ایچ صدیقی، ڈاکٹر ایس اے حسین اور ڈاکٹر یاد کی زیرِ قیادت کام کر رہا تھا لیکن انتظامی اختیارات جناح سینٹرل ہسپتال کے سپریڈنٹ کے پاس تھے۔ بعدازاں دسمبر 1957ء میں اسے خودمختار ہسپتال کی حیثیت مل گئی۔ اس اثنا میں اس کے بستروں کی گنجائش میں 100 تک کا اضافہ ہوا، ریڈیولاجی کے آلہ جات کے جدید تقاضوں کو پورا کیا گیا، ریڈیولاجی کی سہولیات بہتر کی گئیں اور عملے کے لیے کوارٹرز کا اضافہ کیا گیا۔
جب اسے خودمختار ہسپتال کا درجہ ملا تب ڈاکٹر شریف کو اس کے پہلے ڈاکٹر کے طور مقرر کیا گیا۔جدید اور مؤثر ٹی بی کش تھراپی کی آمد کے ساتھ دنیا بھر میں سینی ٹوریم بھی تبدیل ہونے لگے۔
1958ء میں وقت کا تقاضا تھا کہ اوجھا سینی ٹوریم میں جامع تبدیلیوں کے ساتھ ہر سطح پر سہولیات کو جدید بنایا جائے۔ چنانچہ 1961ء میں 47 لاکھ روپے کی لاگت سے ہسپتال کی توسیع اور اسے جدید بنانے کی اسکیم منظور کی گئی۔
قریب اسی اثنا میں ڈاکٹر یاد ہسپتال میں ڈائریکٹر کے طور پر لوٹ آئے اور 10 جولائی 1978ء تادم مرگ تک کی طویل ترین مدت کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ ان کی سرپرستی میں ادارے نے بڑے سنگِ میل عبور کیے اور اسے ایک جدید ادارہ بنانے کی راہ ہموار کی۔
اپریل 1962ء تک کام کا آغاز ہوا۔ نومبر 1962ء میں ہسپتال کے نئے بلاک کا سنگِ بنیاد اس وقت کے وزیرِ صحت عبدالقادر سنجرانی نے رکھا تھا۔ پانچ بلاکس کے اضافے کے ساتھ توسیع کا کام 1967ء میں مکمل ہوا جس کا افتتاح ستمبر 1967ء میں وزیرِ صحت بیگم زاہدہ خلیق الزماں نے کیا اور اسے دوبارہ کھول دیا گیا۔
اس عمارت میں اب ہسپتال کا ایک مرکزی بلاک، جدید سرجیکل تھیٹر، تمام سہولیات سے آراستہ مرکزی باورچی خانے، برقی سب اسٹیشن، قدرتی گیس کے ذخیرے، مناسب راستے اور سڑکیں، آٹومیٹک لانڈری اور اسٹرلائزیشن (جراثیم کشی کے سامان)، انسنیریٹر (فضلہ جلانے والی مشین) کی سہولیات کے علاوہ مسجد اور نرسوں کے لیے ہاسٹل اور عملے کے لیے کوارٹرز موجود تھے۔
پانچ اضافی وارڈز کے ساتھ بستروں کی گنجائش میں 350 تک کا اضافہ ہوا، ریڈیولاجی اور لیبارٹری کی سہولیات کو جدید اور ڈسپینسری کو بہتر بنایا گیا۔ شہر کی پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے عمارت کو قابلِ رساں بنایا گیا اور ہسپتال نے اپنی ٹرانسپورٹیشن حاصل کی۔ اب یہ ملک کے سب سے بڑے ٹی بی ہسپتالوں میں سے ایک بن گیا تھا۔ یہ ادارہ تدریس اور تربیت بھی فراہم کررہا تھا۔
°تدریسی ادارہ اور ٹی بی کے مریضوں کے لیے ایک جدید سہولت
1970ء میں اوجھا سینی ٹوریم کو حکومتِ سندھ کے محکمہ صحت کے حوالے کیا گیا۔
1973ء میں ہسپتال کو سینی ٹوریم سے اوجھا انسٹیٹیوٹ برائے امراض سینہ کا درجہ دیا گیا۔ سینے کے امراض کی کلینک جہاں اس وقت ایس آئی یو ٹی واقع ہے، وہ اوجھا انسٹیٹیوٹ برائے امراض سینہ کا حصہ تھی جس کی سربراہ ڈاکٹر غزالہ انصاری تھیں۔
1994ء میں اس ادارے کو کالج آف فزیشین اینڈ سرجنز آف پاکستان (ایف سی پی ایس) نے تسلیم کیا۔ یہ ادارہ ٹی بی ٹیکنالوجی اور ریسرچ کے بدلتے رجحانات کے مطابق خود کو ڈھالتا رہا اور 2010ء میں اسے ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ ٹی بی منیجمنٹ کے مرکز کے طور پر منتخب کیا گیا۔
ادارے کی لیبارٹری کو صوبائی ریفرنس لیبارٹری فار ٹی بی کا درجہ دیا گیا۔ عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے قائم ہونے والا یہ ادارہ مفت صحت کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ادارے میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ یہاں ایف سی پی ایس (پھیپھڑوں کے امراض سے متعلق) منظور شدہ پوسٹ گریجویٹ تربیتی پروگراموں، ٹی بی اور امراض سینہ میں ڈپلومہ، ڈاکٹر آف میڈیسن اور ڈاکٹر آف سرجری کے ساتھ نیم طبی عملے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔
80 برس پہلے اوجھا خاندان نے جس سینی ٹوریم کا بیج بویا تھا آج وہ ایک تناور درخت کی طرح یونیورسٹی بننے کے سفر پر گامزن ہے۔
باسلڈن یونیورسٹی ہسپتال کے کنسلٹنٹ فزیزیشن، ڈاکٹر رحمن خان نے یہ مضمون مرتب کرنے میں مدد فراہم کی۔
بشکریہ ڈان اخبار