کراچی میں زیرِ تعمیر بحریہ ٹاؤن اور سندھ کا مستقبل (قسط 7)

گل حسن کلمتی

جب یہ منصوبے بالخصوص بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے سٹی اور فضائیہ ٹاؤن مکمل ہوں گے تو ان آبادیوں کے چاروں اطراف کچی آبادیوں کا جال بچھ جاۓ گا کیونکہ اتنے بڑے منصوبوں کے لیے یہاں بنگلوں اور بازاروں کے لیے مزدوروں اور کم کاج کرنے والوں کی ضرورت ہوگی تو یہ سب مزدور پنجاب بالخصوص سرائیکی پٹی خیبر پختون خواہ، کشمیر اور شمالی علاقوں سے آئیں گے جس کی مثالیں قبل ازیں بننے والے ڈفینس، کلفٹن، اسٹیل مل، پورٹ قاسم ،ایئر پورٹ، ملیر کینٹ، نئی اور پرانی سبزی منڈیاں، سائٹ اورنگی اور لانڈھی انڈسٹریل ایریاز ہیں۔ ان اداروں اور رہائشی منصوبوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ان کے بنتے وقت یہاں کے مقامی لوگوں، جن سے یہ زمیں حاصل کی گئیں، سے ترقی و خوش حالی کے وعدے وعید کئے گئے۔ ان سے ایسے اداروں میں شراکت داری کا بھی وعدہ کیا گیا۔ بنتے وقت مقامی لوگوں کو خوش کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا بھی گیا، لیکن جب یہ مکمل کئے گئے تو آج یہاں ان اداروں اور رہائشی منصوبوں میں مقامی لوگ موجود نہیں ہیں۔ ان اداروں اور رہائشی منصوبوں کے چاروں جانب جومزدوروں کی کچی آبادیاں بنی ہیں، ان کا تعلق سندھ کے کسی بھی ضلع سے نہیں ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کی اگر شراکت ہے تو وہ ان اسکیموں میں بننے والے گھروں میں جھاڑو پونچا دینے والی عورتیں ہیں، جن میں مقامی عورتیں مشکل سے 5 فیصد ہیں۔ آج مقامی لوگ، ان کے دلال جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ روزگار ملے گا تو انہیں مذکورہ بالا منصوبوں میں جا کر دیکھنا چاہیے کہ یہاں کے مقامی لوگوں کو کتنا روز گار ملا ہے۔ روزگار ملے نہ بے لیکن روز+گار معنی روزانہ گالی ضرور ملے گی.

نئی سبزی منڈی جو 2002ء میں مکمل ہوئی۔ جس میں کچھ عرصے تک یہاں کا آدمی روزگار کرتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ بندوق کے زور پر باجوڑ اور وزیرستان کے لوگوں نے یہ روز گار بھی چھین لیا۔ نہ فقط روزگار بلکہ مقامی لوگوں کو الاٹ کردہ دکانوں پر قبضے کئے گئے۔ مقامی آبادی جس کا کوئی والی وارث نہیں ہے، آج بھی الاٹمنٹ کے کاغذات اٹھا کر مارکیٹ کمیٹی کے دفاتر اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہے۔ اِس وقت آپ دیکھیں گے کہ سبزی منڈی کے چہار اطراف غیر مقامیوں کی کچی آبادیاں بن گئی ہیں، ان میں سندھی، بلوچ اور اردو بولنے والے جو اس شہر کے اکثریتی اور مستقل باشندے ہیں، ان کی کتنی کچی آبادیاں ہیں؟ اور سبزی منڈی کی مزدوروں میں وہ کتنی تعداد میں ہیں؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا۔

ایک بین الاقوامی تنظیم کے تازہ ترین سروے کے مطابق کراچی میں جس طریقے سے غیر مقامی آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہے، اسے دیکھ کر محتاط پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ 2040 تک یہ شہر پشتو بولنے والی آبادی کا اکثریتی شہر ہوگا اور سرائیکی جو اس وقت 2015 میں کسی بھی گنتی میں نہیں، 2040 تک 12 سے 15 فیصد ہوجائیں گے۔ یہ بات کراچی کے اصل رہائشیوں کے ساتھ خود اردو بولنے والوں کے لیے بھی سوچنے اور غوروفکر کر نے کے لائق ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں جب یہ منصوبے مکمل ہوجائیں گے، تو آبادی کا توازن سندھیوں کے حق میں نہیں رہے گا، تو پھر سندھی بھی فلسطینیوں کی طرح اپنی دھرتی پر مکمل طور سے غلام بن جائیں گے۔ سندھ اسمبلی میں ممبران کی تعداد سندھی بولنے والوں سے زائد ہو جائے گی، تو جو قانون سازی ہوگی وہ سندھ اور سندھیوں کے حق میں نہ ہوگی، کیوں کہ انتہائی صورت حال میں سندھیوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ اکثریتی نمائندگی کا ہوگا۔ غیر مقامیوں اور اجنبیوں کو بڑھتی آبادی کے باعث اسمبلی میں سندھیوں کی نمائندگی اثرپذیر نہیں ہوگی اور جو بھی ہوگی وہ مصلحت پسندی کا شکار رہے گی.

ایسے بڑے منصوبے شروع کرتے وقت ببانگ دہل ان کے مالکان اور حکم رانوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ دبئی جیسا شہر تعمیر کیا جائے گا. سندھ اسمبلی میں مورخہ 03 مارچ 2015 کو جب مسلم لیگ (ن) کی خاتون ممبر سورٹھ تھیبو نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف بل پیش کرنے کی کوشش کی، تو پیپلز پارٹی سمیت ایم کیوایم نے بھی اس بل کی مخالفت کی اور بل پیش کرنے نہیں دیا گیا۔ حزب اختلاف بھی خاموش رہی۔ تقریر کرتے ہوئے نثارکھوڑ اور دیگر ممبروں نے ترقی اور دبئی کے اسٹرکچر کے حوالے دیئے۔

یہاں میں رام بخشانی کی کتاب ’’گھونسلے آکاش میں‘‘ سے نصیر میمن کے تحریر کردہ پیش لفظ کا اقتباس پیش کروں گا، نصیر میمن رقم طراز ہیں:
بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کو جب بڑے اسٹرکچر بنانے ہوتے ہیں تو وہ بڑی خوشی سے اس کے لیے دبئی کے حوالے دیتے ہیں۔ انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ دبئی کی ترقی کا راز تعمیرات نہیں، بلکہ عوام دوست پالیسیاں اور ترقی پسند سوچ ہے۔ یہ تعمیرات تو اس سوچ اور بہت منصوبہ بندی کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں۔۔۔ دوسرے یہ کہ دبئی کی تعمیرات کے حوالے دینے والے حکم راں یہ بھول جاتے ہیں کہ دبئی کے مالکوں نے کیسے اپنے اصل مقامی باشندوں کے تاریخی حقوق اور مفادات کی رکھوالی کی ہے۔ آبادی کا 71 فیصد حصہ غیر ملکیوں پر مشتمل ہونے کے باوجود دبئی کے اصل باشندوں کا پہلا حق واضح طور پر تسلیم شدہ ہے۔کئی دہائیوں سے رہنے والے اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ہونے کے باوجود ان لاکھوں لوگوں کو شہریت کا حق نہیں دیا گیا۔ کاروبار، علاج، سائبان اور زندگی کی تمام سہولتوں میں اصل باشندوں کو ریاست کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، جو غیرملکی کے تصور سے بھی باہر ہے۔ اس کے برعکس سندھ عالمی یتیم خانہ ہے، جہاں دنیا کے کونے کونے سے کئی ملین غیر قانونی غیرملکی نہ صرف ٹھہرے ہوئے ہیں بلکہ انہیں مقامی شہریت بھی حاصل ہے اور وہ سندھ کے اصل وارثوں کے مقابلے میں ہزار گنا خوش حال جیون گزار رہے ہیں۔‘‘

بحریہ ٹاؤن اور ایسے بڑے منصوبوں سے جس طرح اصل باشندوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرکے دربدر کیا جار ہا ہے ان کے گوٹھوں تک جانے والے راستے بند کئے جار ہے ہیں.. ان کے گوٹھوں کو مسمار کیا جا رہا ہے.. ملک ریاض اور اس کے گماشتے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم گوٹھوں اور گھروں کو خرید رہے ہیں۔ کیا ریونیو رکارڈ میں موجود گوٹھ ان کی الاٹ کی ہوئی زمین خرید یا بیچی جاسکتی ہے؟ بلکل نہیں! یہ ایک غیر قانونی عمل ہے، جو ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی، محکمہ ریوینیو اور بحریہ ٹاؤں کر رہے ہیں۔ یہ کوئی حکومتی یا قومی مفاد کا ادارہ نہیں ہے، جس کے لئے گوٹھوں کو مسمار کیا جا رہا ہے، ان کے معاشی وسائل کو تباہ و برباد کیا جار ہا ہے، ترقی کے نام پر اصل رہائشیوں ان کی زمینوں، کھیتوں، کاروبار، گوٹھوں، ندیوں، نالوں، پہاڑوں، جنگلات، قبرستانوں اور آثار قدیمہ کو تباہ کیا جا رہا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ہم ہر ایسی ترقی کے مخالف ہیں، جو ہماری بربادی پر تعمیر کی جائے۔ ایسی ترقی کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے، جو سندھ میں سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کر دے اور یہاں کے اصل باشندوں کو بے خانماں کر دے۔ اس عمل کے باعث سندھ میں بڑی انار کی پیدا ہوگی جس کا نقصان سب سے زیادہ سندھیوں کو بھگتنا پڑے گا، کیوں کہ سندھیوں کے پاس کوئی بھی انقلابی اور مضبوط نمائندگی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی جو وڈیروں اور سرمایہ داروں کی پارٹی ہے وہ مصلحت پسندی اور کرپشن کا شکار ہے۔ سندھی وڈیرے کسی بھی جماعت میں ہوں، ان جھکاؤ ہمیشہ مضبوط قوتوں کی طرف ہوتا ہے۔ دوسری جانب قوم پرست جماعتیں اختلافات کا شکار ہونے کے باعث مشترک و متحد جدوجہد نہیں کرسکتیں۔قوم پرستوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ قوم پرست رہنماؤں سے جب یہ بات کی جاتی ہے تو ہر ایک اپنا راگ الاپتا ہے جس کی مثال ملیر پریس کلب (3مارچ2015ء) اور  انڈیجنئس رائٹس الائنس کی طرف سے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس (9 مئی 2015ء) میں شریک ہونے والے رہنماؤں کی ہے، جو کسی بھی طرح سندھ کی وحدت کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ ان کی جانب سے یہ موقف کہ یہ کراچی والوں کا مسئلہ ہے، وہ اگر آگے بڑھیں تو پھر ساتھ دیں گے یا یہ کہنا کہ ہم نے کسی کا ٹھیکہ نہیں لیا ہے، ان لوگوں نے تو ہمیں ووٹ نہیں دیئے ہیں۔ یہ زبان اور رویہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ یہ نہ صرف کراچی میں رہنے والوں کا نقصان ہے بلکہ یہ پورے سند ھ کا نقصان ہے۔ قوم پرستوں کو ہر محاذ پر مزاحمت کرنے ، ہر فورم کو استعمال میں لانا ہوگا اور عالمی طاقتوں کی سازش کے خلاف اپنی آواز بین الاقوامی فورمز پر پیش کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی۔سندھ میں ایک ہوکر اجتماعی سیاسی و مزاحمتی قوت پیدا کرنے کے لئے عوام تک جانے کی ضرورت ہے۔ غیروں کی آبادکاری اور بڑے تعمیراتی منصوبوں کے خلاف ایک طاقتور اور منظم تحریک کی ضرورت ہے۔ یہ تحریک مستقل بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ اس وقت تک جب تک ثمر آور نہ ہو اور کوئی نتیجہ نہ برآمد ہو۔ اسمبلی میں بیٹھی حزب اختلاف کو بھی مصلحت پسندی سے ہٹ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اسمبلی میں خاموش رہنے کا مطلب حکم رانوں کی پالیسیوں پر رضا مندی و اتفاق ظاہر کرنا ہے۔

جاری ہے
(یہ تحریر 2015 کی ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close