باب دوئم: کراچی میں تعمیر شدہ و زیر تعمیر رہائشی اسکیمیں
سندھ کی تاریخ میں کم زوری و درگزر کے باوجود ذہانت و فتح مندی کی علامت بن کر امر رہنے والے کر دار "مورڑو میر بحر” سے لے کر آج تک سندھ کے اس حصے جسے کراچی/ کلاچی کے نام سے جانا جاتا ہے، میں رہنے والے لوگ استحصالی قوتوں کے خلاف پنجہ آزمائی کرتے آرہے ہیں، تاہم موجودہ دور انتہائی نازک اور گمبیھر ہے۔ اندرونی سازشوں سے لے کر بین الاقوامی سطح تک استعماری قوتوں کا ایک پورا نیٹ ورک کافی عرصے سے کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنے کے لیے سرگرم ہے، جو گزشتہ دس برسوں سے پوری پلاننگ سے کام کر رہا ہے۔ سندھ کی وحدت، قومی و سیاسی اتحاد کو ختم کرنے، یہاں کے لوگوں کو آپس میں لڑانے کے لیے نادیدہ قوتوں نے شروع سے لے کر کراچی کے ایک لسانی گروپ پر ہاتھ رکھ کر اسے طاقتور بنا کے اپنی منشاء کے مطابق کام شروع کر دیا ہے۔
مقامی لوگوں کی وحدت، قومی و سیاسی قوت کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کی معیشت پر قبضہ کرنے، ان کے روزگار کے وسائل کو ختم کرنے کی ابتداء کی گئی تا کہ یہاں کا اصل باشندہ معاشی بدحالی کی دلدل میں پھنسا رہے اور قومی دھارے میں کوئی بھی کردار ادا نہ کر سکے۔
یاد رہے کہ یہاں کا اصل باشندہ زرعی اور ماہی گیر سماج سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کے معاشی وسائل کا ذریعہ زراعت، مویشی بانی اور مچھلی کا شکار ہے۔ زرعی زمینوں پر باہر سے آئے لوگوں کو آباد کرنے کے لیے رہائشی اسکیموں، کچی آبادیوں اور قومی ترقی کے نام پر صنعتی زون کے لیے یہ زمینیں مقامی لوگوں سے چھینی گئیں، روز گار کے وسائل ختم ہوئے تو لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ روٹی کپڑا اور مکان کے چکر میں ان سے لڑائی کی قوت بھی ختم ہوگئی اور کوئی بھی سیاسی و سماجی قوت نہ ہونے کے باعث یہ لوگ تتر بتر ہوگئے۔ یہ سلسلہ 1947ء سے آج تک جاری ہے۔ 1947ء میں تقسیم کی وجہ سے اس شہر نے سب سے زیادہ زخم دیکھے۔ مذہب کی بنیاد پر ہونے والی نقل مکانی اور ایک نئے سماج، تہذیب و ثقافت میں پروان چڑھنے والے لوگوں نے جب کراچی شہر کا رخ کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا یہ صاف ستھرا، پرامن شہر دنیا کے آلودہ ترین شہر میں تبدیل ہو گیا تقسیم کے بعد آنے والے لوگ یہاں کی تہذیب و ثقافت کا حصہ نہ بن سکے تو شہر مختلف طبقوں میں تقسیم ہو گیا۔اکثریتی لوگ اقلیت میں تبدیل ہوئے تو ان کے لیے ناانصافی ظلم و جبر اور سماجی عدم مساوات کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔
تقسیم کے وقت کراچی شہر کی آبادی 436887 تھی۔ شہر کی وسعت 223 مربع کلومیٹر تھی ۔ اردو بولنے والوں کا تناسب 6.3 فیصد تھا تقسیم سے 1950ء تک 9 لاکھ مہاجروں نے ہندوستان کے مختلف شہروں سے نقل مکانی کرکے کراچی شہر کا رخ کیا۔ 1951ء کی پہلی مردم شماری کے مطابق کراچی کی کل آبادی 10,86,500 تھی (کچھ کتابوں میں یہ عدد 1137667 ہے) تقسیم کے وقت کراچی کی نصف آبادی 2 لاکھ سندھی ہندو نقل مکانی کرکے ہندوستان چلے گئے ۔ ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کے باعث کراچی میں آبادی میں زبردست اضافہ ہوا۔ 1959ء میں یہ شہر 3000 مربع کلومیٹر پھیل گیا۔ 1955ء تک کراچی مکمل طور پر پناہ گزینوں کا کیمپ تھا، ہرگلی، ہر فٹ پاتھ، ہر پارک، باغیچے کھلی جگہوں پر جُگیاں ہی جُگیاں اور خیمے ہی خیمے تھے۔ 1951ء کی مردم شماری کے مطابق اس وقت کراچی شہر میں 6,11,824 لوگ جگیوں اور خیموں میں مقیم تھے۔ یہ سب ہندوستان سے نقل مکانی کرکے آۓ تھے ۔شہر کا 12 فیصد علاقہ جُگیوں سے اٹا ہوا تھا۔
1957ء میں مہاجروں کی آبادکاری کے لیے’’کراچی ڈولپمنٹ اتھارٹی‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ایوب کے دور میں 1958ء میں ’’گریٹر کراچی ری سیٹلمنٹ پلان‘‘ بنایا گیا، جس کے تحت شہر سے دور دو نئی آبادیاں قائم کی گئیں۔ مشرق کی طرف لانڈھی کورنگی اور شمال کی جانب نیو کراچی کو آباد کیا گیا۔ لانڈھی کورنگی میں زرعی زمینوں کو ختم کر کے کورنگی انڈسٹریل زون لگایا گیا، سرحد اور پنجاب سے مزدور منگوا کر انہیں یہاں آباد کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ ملیر، لانڈھی اور کورنگی کی زرعی زمین جو اس وقت مقامی لوگوں کے روزگار کا وسیلہ تھی، ختم کرکے ہندوستان سے آنے والے مہاجروں میں بانٹی گئی۔ دوسری اسکیم میں نیو کراچی میں رہائشی اسکیمیں بنا کر مہاجروں کو بسایا گیا۔
تقسیم کے وقت کراچی میں دیہات پرمشتمل 92 دیہیں تھیں، یہ سارا زرعی علاقہ تھا، جہاں 100 فیصد سندھی اور بلوچوں کی زرعی زمینیں، کھیت، چراگاہیں اور چھوٹے بند تھے۔ یہ پورا علاقہ موجودہ جیل روڈ اور تین ہٹی سے لیاری ندی کے دائیں کنارے سے سمندر تک محیط تھا۔ 1948ء میں جب ضلع ٹھٹہ بنایا گیا تو کراچی کی 37 دیہیں اس نئے ضلع میں شامل کی گئیں۔ باقی ماندہ 55 دیہیں کراچی میونسپلٹی کے 12 وارڈز سمیت وفاقی حکومت کے حوالے کی گئیں۔ 1956ء میں مغربی پاکستان میں اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو کراچی دیہات لس بیلہ سے ملا کر ایک حلقہ انتخاب بنایا گیا۔ 1963ء میں دوبارہ یہ 37 دیہیں ضلع کراچی میں شامل کی گئیں۔ ون یونٹ ختم ہونے کے بعد یہ کراچی دیہات میں شامل کرکے ضلع کونسل کراچی (کراچی لوکل بورڈ) کو دوبارہ بحال کیا گیا، جو 1860ء میں قائم کیا گیا تھا۔ تقسیم کے وقت سب سے پہلے دیہہ کھاری لکی اور دیہہ گجھڑو کی زرعی حیثیت ختم کی گئ ۔ چراگاہوں کو ختم کیا گیا۔ ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کو یہاں بسانا شروع کیا گیا۔ لیاقت علی خان نے 100 کوارٹر نامی رہائشی اسکیم شروع کی تو "لالو والے کھیت” ختم ہوگئے اور لالوکھیت، لیاقت آباد میں تبدیل ہوگیا۔ یہ اور بات ہے کہ آج بھی عوام میں لالو کھیت ہی مقبول ہے۔
لالوکھیت میں 524 ایکڑز پر ایک لاکھ لوگوں کو بسایا گیا۔ لالوکھیت کا نام تبدیل کرکے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے نام پر ’’لیاقت آباد“ رکھا گیا۔
کراچی میں ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کے لیے 1946 میں مسان روڈ لیاری میں پہلی کالونی "بِہار کالونی” بنائی گئی، جسے 1948 میں توسیع دی گئی.
1948 میں پیر الٰہی بخش کالونی (پی آئی بی کالونی) قائم ہوئی. 1948 میں آنے والے مہاجرین کی یہ پہلی باقاعدہ کالونی تھی. یہ کالونی 250 ایکڑوں پر مفت مہیا کی گئی، جہاں 75 ہزار لوگوں کو بسایا گیا.
1960ء میں دیہہ کھاری لکی میں ایک ہزار ایکڑز پر مہاجر بستی “ناظم آباد“ کی بنیاد رکھی گئی، جہاں ہندوستان سے آنے والے 2 لاکھ لوگوں کو بسایا گیا.
دیہہ گجھڑو میں حاجی مرید بکک اور دیگر گوٹھوں کے نزدیک گجھڑو برساتی نالے کے کنارے رضویہ کالونی، فردوس کالونی، نیا گولیمار، پیر آباد اور عثمانیہ نامی علاقے بسائے گئے. گجھڑو برساتی نالے کا نام تبدیل کر کے پہلے گجرو اور اب گجر نالہ رکھ دیا گیا ہے.
ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کے لیے مذکورہ بالا علاقوں کے علاوہ مندرجہ ذیل علاقوں میں کالونیاں بنا کر آبادکیا گیا۔
1- اورنگ آباد ،118 ایکڑ
2- ڈرگ کالونی ،611 ایکڑ ۔ دیہہ ڈرگ
3۔ ملیر 1320 ایکڑ ۔دیہہ تھانو
4. ملیر ایکسٹنشن، 585 ایکڑ، دیہہ تھانو
5. لانڈھی 740 ایکڑ، دیہہ شرافی
6. سعود آباد، ملیر، دیہہ تھانو
7- گولیمار
8- قصبہ، بلدیہ اور اورنگی۔ 4600 ایکڑ ۔دیہہ اورنگی
سوسائٹیاں:
1- پی ای سی ایچ سوسائٹی، 1200 ایکڑ ۔ 1947۔
2۔ کراچی یونین ( 28 سوسائیٹیاں )1250 ایکڑ ۔ 26 جنوری 1949
3۔ مسلم آباد سوسائٹی (سندھی مسلمانوں کی سوسائی) 78 قطعات (دو،دو ہزار گز کے). 1947
4- مددعلی سوسائٹی 298 پلاٹ ۔1959 ۔دیہہ اکیواڑی
کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، جو صدر پاکستان کے حکم نمبر پانچ مجریہ دسمبر 1957ء کو وجود میں آئی، اس کی طرف سے 1970ء تک 12 اسکیمیں مکمل کی گئیں جہاں 76,768 پلاٹ بنائے گئے۔ 1400 گھر تعمیر کئے گئے۔ کورنگی میں 20000 گھر اور شمالی کراچی ( نارتھ کراچی) میں 9000 گھر تعمیر کئے گئے۔
کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی باقی اسکیمیں:
1۔ گل یاسمین ( پہلی اسکیم )222 ایکڑ ۔دیہہ اکیواڑی
2- تیموریہ اور نارتھ ناظم آباد۔ دوسری اسکیم 3500 ایکڑ ۔دیہہ کھاری لکی 3-لانڈھی انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ۔ 250 ایکڑ ۔ دیہہ شرافی
4.لانڈھی ٹاؤن شپ یا لانڈھی نمبر 2، 470 ایکڑ
5۔ کلفٹن اسکیم اور کہکشاں ۔ 1786 ایکڑ (سمندر سے حاصل کردہ زمین)
6۔ چھٹی اسکیم۔ (چاندنی چوک سے نیشنل اسٹیڈیم روڈ اور یونیورسٹی روڈ کے درمیان) دیہہ اکیواڑی
7۔ داؤدنگر ،لیاقت ٹاؤن ،الہلال ،لیاقت نیشنل لائبریری، کراچی ٹیلی ویژن، آغاخان میڈیکل اسپتال، لیاقت اسپتال، خاتون پاکستان کالج، کچھی میمن سوسائٹیاں 1360 ایکڑ ۔ دیہہ اکیواڑی
8-اسکیم نمبر 8- کوہ سار (ہل پارک) 1246 ایکڑ ۔دیہہ اکیواڑی
9- فیڈرل بی ایریا (منصورہ) اسکیم 16-2950 ایکڑ ۔ دیہہ گجھڑو
10- خدادادکالونی (اسکیم 19 ) -43 ایکڑ ۔ دیہہ اکیواڑی
11۔ گلشن اقبال نمبر 1۔ اسکیم 24- 2664 ایکڑ۔ دیہہ اکیواڑی
12۔ کورنگی ٹاؤن شپ (گلستان کراچی)-16000 ایکڑ (45 مربع میل) دیہہ شرافی
13 – شمالی کراچی، لیاری ندی اور منگھو پیر کا درمیانی علاقہ ۔ 6400 ایکڑ ۔دیہہ کھاری لکی
14-اسکیم نمبر 25۔ شمالی مشرقی کراچی ۔ 26,926 ایکڑ ۔ دیہہ مہران ۔دیہہ تھانو کا کچھ حصہ اور دیہہ صفوراں
15- کھانٹو پپری، اسٹیل مل، پورٹ قاسم گلشن حدید اور گلشن حدید اور ٹاؤن شپ ۔ 151200 ایکڑ ۔ دیہہ کھانٹو، دیہہ پپری ، دیہہ باکران اور دیہہ جوریجی
1970ء تک یہ گجھڑو، دیہہ اکیواڑی، دیہہ کھاری لکی ، دیہہ ببرانو، دیہہ سونگل، دیہہ صفوراں، دیہہ مہران، دیہہ ڈرگ روڈ، دیہہ ڈگھ، دیہہ پھہائی، دیہہ ڈہ، دیہہ شرافی، دیہہ کورنگی اور دیہہ تھانو کا نصف جو سارے کے سارے زرعی علاقے اور قدیم باسیوں کے روزگار کا وسیلہ تھے، ختم کئے گئے۔ یہاں بڑے پیمانے پر رہائشی اسکیمیں بنا کر ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کو بسایا گیا۔ شیر شاہ، سائٹ، کورنگی اور نیوکراچی میں صنعتیں لگا کر خیبر پختون خوا سے پٹھانوں کو مزدوری کے بلوا کر انہیں یہاں آباد کیا گیا.
1975ء میں کراچی ماسٹر پلان بنایا گیا، جس کے تحت 1975ء میں اورنگی میٹرول میں تین رہائشی منصوبوں کی شروعات کی گئی تو مقامی لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
بنگلا دیش بنے کے بعد تین لاکھ بہاریوں کو دیہہ اورانگھی (اورنگی) کے تاریخی مقام پر آباد کیا گیا، جہاں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کچی آ بادی بنائی گئی ہے
دسمبر 1979ء میں افغانستان میں انقلاب کے بعد بھاگ کر آنے والے افغانیوں کو ملک کے مختلف کیمپوں میں بسایا گیا۔ ایک کیمپ کراچی میں دیہہ بجار بُٹھی کے علاقے میں آج بھی موجود ہے۔ پورے ملک کے کیمپوں سے چوری چھپے 30 لاکھ سے زائد افغانی کراچی پہنچے اور ایک اندازے کے مطابق ان میں سے دس لاکھ نے یہاں کی شہریت حاصل کی جو کراچی کے کاروبار اور سیاست پر چھا رہے ہیں۔
انگریزوں کے دور سے لے کر 70 کی دہائی تک پورے کراچی کو دودھ کی سپلائی یہاں کے مقامی لوگ جوکھیو، گبول اور پنہور کرتے تھے۔ چراگاہیں اور زرعی زمینیں ختم ہوگئیں تو ان لوگوں نے اپنا روزگار دیگر اشیاء اور کاموں میں ڈھونڈا تو دودھ کی سپلائی کا پورا نیٹ ورک ناگوریوں کے حوالے ہوگیا۔
مذکورہ بالا تین مکمل ادوار میں نقل مکانی سے یہ شہر غیرفطری طور پر بڑھتا گیا، آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، جس نے نہ صرف کراچی کے خد و خال کو متاثر کیا بلکہ پورے سندھ پر اس کے اثرات پڑے۔ ان نقل مکانیوں نے کراچی کے چارصدیوں کے کلچر کوضرب لگائی۔ 1947ء کے بعد جب انگریزوں اور ہندو تاجروں نے بڑی تعداد میں یہ علاقہ چھوڑا تو سماجی، سیاسی، ادبی، صحافتی اور ثقافتی حلقوں میں تقسیم کے باعث بڑا خلاء پیدا ہوا۔ برصغیر کی تقسیم کے ابتدائی برسوں میں کراچی شہر کو بہت کچھ بھگتنا پڑا۔
جاری ہے