کرائے کا فوجی (ریمنڈ ڈیوس کی کتاب The Contractor کا اردو ترجمہ)

دوسری قسط

اس کے بعد پیش آنے والے واقعات اور حالات کے بارے میں، میں آپ کو اپنے ماضی کے مختصر تذکرے کے بعد بتاتا ہوں…
بگ سٹون کیپ ورجینا، (1979 ) جہاں میں پیدا ہوا، وہاں زندگی اتنی بھی آسان نہیں تھی۔ میرے والد وہاں کوئلہ کی صنعت میں کام کرتے تھے اور وہیں وہ ایک حادثے کا شکار ہو گئے تھے۔ ان پر کام کے دوران سات سو پاؤنڈ وزنی چٹان گر گئی تھی۔ اس وقت میں محض پانچ سال کا تھا لیکن اپنے والد کے زخمی ہونے کا منظر میرے ذہن میں ثبت ہوگیا۔ ہماری کفالت اور زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے میری والدہ کو تین جگہوں پر کام کرنا پڑتا تھا۔ان دنوں ہمارے پاس پیسوں کی قلت تھی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مجھے یا میرے بہن بھائیوں کو بھوکے پیٹ سونا پڑا ہو۔ جب میں جوان ہوا تو اپنے گریڈ کی نسبت زیادہ صحت مند تھا ۔ مین ساتویں گریڈ میں ہونے کے باوجود آٹھویں گریڈ کی فٹ بال ٹیم میں شمولیت کا حق دار تھا۔ میں بہت تیز رفتار اور طاقتور تھا ۔ میرے والد بھی میری اتھلیٹ کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ میں نے ریسلنگ اور اسکول ریس مین بھی حصہ لیا لیکن میرے والد میری کامیابیاں دیکھنے سے پہلے ہی وفات پا گئے ۔ ان کی موت ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ان کے بعد مجھے مزدوری بھی کرنی پڑی ۔ میں اینٹیں اور بلاک اٹھاتا تھا جس کے بدلے مجھے فی گھنٹہ دس ڈالر ملا کرتے تھے جس میں کبھی اضافہ بھی ہو جاتا تھا ۔ اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی ۔ میں مزدوری کے بدلے ملنے والا چیک لا کر اپنی والدہ کو دے دیتا تھا۔ اس ساری محنت کے باوجود مجھے یقین تھا کہ میں مزدوری کرنے کے لئے پیدا نہیں ہوا ہوں ۔ اسی لئے میں مقامی آرمڈ فورسز ریکروٹمنٹ دفتر گیا اور میں نے میرین کمانڈوز میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ریکروٹ آفیسر نے مجھے بتایا کہ صرف انفنٹری میں پوسٹ خالی ہے ۔ میں اس وقت صرف اٹھارہ برس کا تھا جب ہوائی جہاز میں بیٹھ کر جارجیا گیا ۔ اس کے بعدایک ایسا دور شروع ہوا جو سخت محنت، مشقت، مہارت اور ٹریننگ سے عبارت تھا۔

کابل افغانستان (جون 2004) کے بعد میری منزل لاہور تھی۔ یہاں سے ہم دوبارہ لاہور مزنگ چوک کی طرف چلتے ہیں..

جب اس موٹر سائیکل سوار نے اپنی پستول کا رخ میری جانب کیا تو میں انتہائی مشکل صورت حال کا شکار ہو چکا تھا ۔اس گن اور میرے درمیان دس فٹ سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ اگر سڑک کھلی ہوتی تو میں ریس پر پاؤں رکھ کر گاڑی بھگا کر وہاں سے نکل جاتا لیکن بدقسمتی سے اس وقت مین ٹریفک میں پھنسا ہوا تھا لہذا گاڑی بھگا لے جانے کی آپشن موجود نہ تھی ۔ اگر میں مخصوص ایس یو وی گاڑی میں ہوتا تب بھی ان کی جانب مسکرا کر دیکھتا کیونکہ ان کی چلائی کوئی گولی گاڑی پر اثر انداز نہ ہوتی، اس گاڑی کے شیشے بلٹ پروف تھے، لیکن بدقسمتی سے میں عام سیڈان میں تھا۔

شام کا ہلکا ہلکا اندھیرا میرے ارد گرد چھا رہا تھا ۔ اس موقع پر میرے پاس اپنے ٹرینرز کی دی گئی تربیت کے سوا کچھ نہ تھا ۔ میری تربیت نے مجھے سکھایا تھا کہ اگر میری جان کا خطرہ ہو تو مجھے اس صورت میں کیا کرنا ہے، لہٰذا میں نے وہی کیا جو مجھے سکھایا گیا تھا ۔

ان کے پستول کی نالی کا رخ میری جانب تھا۔ میں نے ہاتھ کو غیر محسوس انداز مین حرکت دیتے ہوئے اپنی سیٹ بیلٹ کھول دی اور اپنی گن کی جانب ہاتھ بڑھایا..

مجھے اپنی پستول نکالنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ میں نے ایک سیکنڈ میں اپنی ٹی شرٹ میں ہاتھ ڈال کر پستول باہر نکال لی۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ ایسا کیسے ہوا لیکن میرے لئے یہ معمول کی تربیت تھ ۔ میں نے اپنی ساری زندگی اسلحہ چلانے میں ہی بسر کی ہے۔ نجی زندگی سے لے کر فوج تک اسلحہ سے میرا انتہائی قریبی تعلق رہا ہے ۔ میرے ٹرینرز اور افسران تو جانتے ہیں کہ میں اسلحہ کے استعمال میں کتنا تیز ہوں، لیکن اگر اس بات کا علم ان نوجوانوں کو بھی ہوتا، جو مزنگ چوک میں مجھ پر حملہ آور ہوئے تھے، تو شاید وہ کبھی بھی یوں مجھ سے ٹکرانے کی غلطی نہ کرتے۔ ایسی صورت میں اس شام انہیں موقعہ واردات سے ہٹنے کے لئے کئی بہانے مل سکتے تھے ۔ اس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ میں کس قدر تیزی سے اپنی پستول نکالنے میں کامیاب ہو جاؤں گا ۔ میرے پاس مکمل آٹومیٹک نئی پستول تھی۔ جیسے ہی میرا ہاتھ کار کے سٹیرنگ سے اوپر ہوا میں نے برق رفتاری سے ان پر فائر کر دیا ۔ یہ پستول برانڈ نیو گلک 17 تھی، جو مجھے لاہور پہنچتے ہی فراہم کی گئی تھی۔ اس وقت میرے پاس دیگر ضروری اشیا بھی موجود تھیں، جن میں جی پی ایس، ریڈیو، کیمرہ فون وغیرہ شامل تھے

اس روز مزنگ چوک میں میں نے دو یا تین سیکنڈ میں 10 گولیاں چلائیں اور کھیل ختم ہوگیا ۔ میری گولیاں گاڑی کی ونڈ سکرین توڑتی ہوئی اپنے ٹارگٹ کی جانب گئی تھیں، لیکن اس کے باوجود ساری گولیاں اپنے حدف پر لگیں۔ میرا نشانہ بہت اچھا تھا۔ اس وقت مزنگ چوک پر کافی رش تھا لیکن پھر بھی کوئی غیر متعلقہ شخص زخمی نہ ہوا۔ اگر نشانہ تھوڑا سا بھی چوک جاتا تو کافی لوگوں کی جان جا سکتی تھی۔

اس روز ہلاک ہونے والوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے شخص کوپانچ گولیاں لگی تھیں جن میں سے ایک دائیں ٹانگ پر ، ایک بائیں ٹانگ پر ، دو گولیاں سینے پر اور ایک سر کے پیچھے لگی تھی۔ وہ شخص موقع پر ہی ہلاک ہو گیا تھا جبکہ فیضان حیدر کو پانچ گولیاں پشت پر لگی تھیں اور وہ شدید زخمی ہو گیا تھا۔ ان کی موٹر سائیکل وہیں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے درمیان سڑک پر گر گئی تھی۔ فیضان حیدر نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن شدید زخمی ہونے کی وجہ سے زیادہ دور نہ جا سکا اور میری کار سے تیس فٹ دور جا کر گرا اور وہیں مر گیا۔

یہ درست ہے کہ کسی شخص کی جان لینا قابل تعریف عمل نہیں ہے، لیکن جب کوئی شخص مجھ پر اسلحہ تان لیتا ہے تو اس وقت سب سے سے اہم اپنی جان بچانا ہوتا ہے اور اس فوری خطرے کو ختم کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے ۔ میں نے ان پر آخری گولی چلاتے ہی فوراً اپنے ارد گرد دیکھا کہ کہیں کوئی اور خطرہ تو میرے سر پر نہیں منڈلا رہا ۔ گولیاں چلانے کی وجہ سے میری گاڑی کی ونڈ سکرین بری طرح متاثر ہوئی تھی اور مجھے واضح طور پر نظر نہیں آ رہا تھا لہذا میں گاڑی سے باہر نکل کر ارد گرد کا جائزہ لینے لگا۔ اس وقت کافی لوگ وہاں جمع ہو رہے تھے لیکن اب میں خطرے سے باہر تھا ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ جگہ پر سکون ہو گئی لیکن میں جانتا تھا کہ یہ خاموشی عارضی ہے۔ وہاں سے امریکی قونصلیٹ تین میل کی دوری پر تھا۔ میں نے فوراً ہی اپنے سفری بیگ سے کیمرہ نکالا اور فیضان کی تصاویر بنانے لگا۔ میں مقامی انتظامیہ کو دینے کے لئے کچھ ثبوت اکٹھے کرنا چاہتا تھا..

(جاری ہے)

کرائے کا فوجی (ریمنڈ ڈیوس کی کتاب The Contractor کا اردو ترجمہ) پہلی قسط

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close