مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی ماہر سائنسدانوں کے ایک گروپ نے اپنے مشترکہ تحقیقی مقالے میں خبردار کیا ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر انسانوں کے اجتماعی طرزِ عمل اور سوچ میں تبدیلی کو سمجھا نہ گیا تو یہ ٹیکنالوجی پوری انسانیت اور انسانی تہذیب کو تباہ کرکے رکھ دے گی
تفصیلات کے مطابق موقر آن لائن تحقیقی مجلّے ’’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘‘ (PNAS) کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے 17 مصنفین مختلف سائنسی موضوعات کے ماہر ہیں، جن کا تعلق حیاتیات، نفسیات، اعصابیات اور ماحولیات سمیت کئی شعبوں سے ہے
ماہرین نے اپنے تمام نکات کو مجموعی طور پر ’’بحرانی علم‘‘ (کرائسس ڈسپلن) کا عنوان دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت انسانوں کے باہمی رابطے نہ صرف بہت بڑھ چکے ہیں بلکہ ان کی پیچیدگی بھی ماضی میں انسانی سماج کی نسبت کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے
ماہرین نے لکھا ہے کہ ہمیں خدشہ ہے کہ اگر وسیع تر انسانی پیمانے پر ٹیکنالوجی کے اثرات نہ سمجھے گئے تو ہم آنے والے برسوں میں کسی غیر ارادی اور غیر متوقع تباہی کا شکار بھی ہوسکتے ہیں
بحرانی علم (crisis discipline) کے تحت کسی ایک شعبے میں درپیش مسئلہ فوری طور پر حل کرنے کےلیے مختلف شعبہ جات سے وابستہ ماہرین مشترکہ طور پر کام کرتے ہیں، کیونکہ وہ مسئلہ بیک وقت کئی شعبوں کو متاثر کررہا ہوتا ہے
واضح رہے کہ بحرانی علم کی اصطلاح سب سے پہلے سن 2000ع میں حیاتیاتی تحفظ کے ماہرین نے پیچیدہ ماحولیاتی مسائل کا ہنگامی اور مؤثر حل ڈھونڈنے کی غرض سے درکار وسیع البنیاد تحقیقی تعاون کےلیے وضع کی تھی
اس مقالے میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آج ہم انسانوں کے اجتماعی طرزِ عمل پر ٹیکنالوجی کے اثرات سمجھنے سے قاصر ہیں جس کا نتیجہ نہ صرف جمہوری بلکہ سائنسی ترقی میں رکاوٹوں کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے
انہوں نے کووِڈ 19 کی عالمی وبا میں غلط اور بے بنیاد خبروں کے وسیع تر پھیلاؤ، اور اس پھیلاؤ سے برآمد ہونے والے سنگین نتائج کو اس امر کی تازہ ترین مثال کے طور پر پیش کیا ہے
اس کے علاوہ انتخابات میں سوشل میڈیا سے پھیلائی جانے والی افواہوں کے اثرات بھی اسی بڑے اور پیچیدہ مسئلے کا ایک حصہ ہیں
مستقبل میں بھی ہم جدید ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے ایسے ہی غیر ارادی، غیر متوقع اور منفی نتائج کا بڑے پیمانے پر سامنا کرسکتے ہیں جن میں انتخابی دھاندلی کے ساتھ ساتھ بیماری، پرتشدد انتہاء پسندی، خشک سالی، نسل پرستی اور جنگی حالات تک شامل ہوسکتے ہیں
واضح رہے کہ اپنے مقالے میں ان سائنسدانوں نے سوشل میڈیا کو مکمل طور پر غلط قرار نہیں دیا بلکہ مختلف مواقع پر سوشل میڈیا کے کردار کو سراہا بھی ہے
مثلاً یہ کہ معاشرے کے وہ طبقات جو اقلیت میں ہیں یا سماج میں ان کی بات سنی نہیں جاتی، آج وہ بھی سوشل میڈیا کی بدولت اپنے مسائل سے ایک وسیع حلقے کو آگاہ کرسکتے ہیں، جیسے کہ روہنگیا میں مسلمانوں کی نسل کشی یا امریکی کانگریس کی عمارت پر سفید فام نسل پرستوں کا حملہ وغیرہ.