کراچی : گڈاپ پولیس کے رویے سے ایک بار پھر یہ سوال ابھر کر سامنے آیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن ریاست کے اندر ایک ایسی ریاست بن گیا ہے، جو خود ریاست سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکا ہے.
گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے ملک ریاض، سیکورٹی انچارج اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن گڈاپ پولیس مقدمہ درج کرنے کے بجائے فریادی کو ہی ڈرانے اور دھمکانے پر اتر آئی ہے
سندھ ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے بعد فریادی امیر علی گبول پر پولیس اور دیگر ریاستی عناصر کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ملک ریاض کا نام ایف آئی آر میں لکھوانے سے گریز کرے، بصورت دیگر انہیں اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے
فریادی امیر علی گبول جب سندھ انڈیجنئس رائٹس الائنس اور سندھ لیگل ایڈ کمیٹی کے وکلاء محمد خان شیخ و دیگر کے ساتھ گڈاپ تھانے پہنچے اور سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض، کرنل رفاقت، ریٹائرڈ ایڈمرل عظمت حیات، کرنل خورشید بخاری، احسن ایوب صدیقی و دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی تو پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا گیا
سندھ انڈیجنئس رائٹس الائنس اور سندھ لیگل ایڈ کمیٹی کے رہنماؤں اور وکلاء نے بتایا کہ ہم نے پولیس سے کہا کہ آپ لوگوں نے بحریہ ٹاؤن کے ایک منشی کے کہنے پر سندھ کی تمام قومپرست قیادت اور ہزاروں کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمہ درج کر لیے، لیکن سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر ملک ریاض کے خلاف مقدمہ درج نہیں کر رہے، اس کے باوجود بھی پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے صاف انکار کر دیا
سندھ لیگل ایڈ کمیٹی کے وکلاء نے بتایا کہ وہ دوسرے دن کی صبح سندھ ہائی کورٹ میں پولیس کے خلاف توہین عدالت کی پٹیشن دائر کرنے پہنچے تو امیر علی گبول نے معذرت کر لی کہ وہ ملک ریاض کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرا سکتا کیونکہ انہیں ایسا کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں ملی ہیں
یاد رہے کہ 14 مئی 2016 کو بحریہ ٹاؤن کی طرف سے جمعہ گبول گوٹھ پر حملہ کر کے گھروں کو مسمار کیا گیا تھا، جس کے باعث گوٹھ کے بیشتر رہائشیوں کو بے دخل ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا. اس واقعے کا مقدمہ درج نہ کیے جانے کے بعد ملیر کورٹ میں مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست دی گئی تھی. بعدازاں درخواست گزار کی جانب سے ملیر کورٹ کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، جس پر سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ روز طویل شنوائی کے بعد اپنا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا تھا، لیکن گڈاپ پولیس نے سندھ ہائی کورٹ کا حکم ماننے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں
سندھ انڈیجنئس رائٹس الائنس کے سوشل میڈیا کوآرڈینیٹر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ 2016 میں جمع گبول گوٹھ کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو راؤ انوار کے سرکردگی میں چاچا فیض محمد کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیئے کیا گیا، گوٹھ کو زبردستی ختم کیا گیا، گاؤں واسیوں پر جھوٹے دھشت گردی کے ایف آئی آر درج کر کے انہیں خاموش کیا گیا، اس کیس کے مدعی امیر علی گبول پر چھ سے زائد دھشت گردی کے کیس درج کیئے گئے، اسی وقت امیر علی گبول نے بھی بحریہ ٹاؤن کے مالک اور اس کے انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر کے لیئے ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرائی، امیر علی گبول پر جتنے ایف آئی آر درج تھے جوں کے توں رہے مگر امیر علی گبول کے درخواست پر اسٹے آڈر لگ گیاـ پانچ سال بعد اب امیر علی گبول کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دے دیا اسٹے آڈر ہٹا کر پولیس کو حکم دیا کہ دو دن کے اندر مدعی امیر علی گبول کی ایف آئی آر اس کی مرضی اور منشا کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے انتظامیہ کے خلاف درج کرے ـ امیر علی گبول شروع دن سے میرے رابطے میں ہے ـ اب بھی مجھ سمیت انڈیجینئس رائیٹس لیگل کمیٹی کے ساتھ سندھ کے بہت سارے وکلا اس کے ساتھ کھڑے ہیں ـ کل تھانے میں رات گئے تک امیر علی وکلا کے ساتھ بیٹھا رہا مگر ایف آئی آر میں ملک ریاض کا نام درج کرنے پر پولیس انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں لرزنے لگے اور انہوں نے ایف آئی آر میں ملک ریاض کا نام درج کرنے سے انکار کر دیا ـ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے 6 جون کے واقعے کے ایف آئی آر میں سندھ ایکشن کمیٹی کے تمام قائدین، سندھ انڈیجینئس رائیٹس الائینس کے مرکزی رہنما خالق جونیجو، الٰہی بخش بکک اور سندھ کے ممتاز ادیب تاریخ دان کئی کتابوں کے مصنف محترم گل حسن کلمتی سمیت مقامی زمینداروں سمیت ہزاروں سندھ کے نوجوانوں کے خلاف تیس سے زائد ایف آئی آر درج کئے گئے جس میں دھشت گردی کے دفعات لگائے گئے ـ ان ساتھ سالوں میں بحریہ ٹاؤن کے انتظامیہ نے سیکڑوں بار دھشت گردی کرتے ہوئے ہزاروں زمینوں پر غیر قانونی قبضہ کیا جس کا ثبوت سپریم کورٹ کے 2018 کے بحریہ ٹاؤن کیس کا فیصلہ ہے جس میں بحریہ ٹاؤن کو غیر قانونی قرار دیا تھا ـ آج بھی مقامی انڈیجینئس لوگوں اور عام سیاسی کارکنوں پر دھشت گردی کے ایف آئی درج کیئے جا رہے ہیں مگر ایک ایف آئی آر میں ملک ریاض کا نام آنا قومی سلامتی کا مسئلہ بن جاتا ہے یہ ریاست کے اندر ریاست نہیں تو اور کیا ہے
انہوں نے کہا کہ امیر علی گبول آج بھی سندھ ھائی کورٹ میں انڈیجینئس رائیٹس لیگل کمیٹی کے وکلا کے ساتھ کھڑا رہا ـ مگر رات سے صبح تک اسے چاروں طرف سے پریشر ڈالا گیا کہ وہ ملک ریاض کا نام ایف آئی آر میں نہ لکھائے ـ وہ ڈرا ہوا ہے کیونکہ عدالت کی جنگ اس کے وکلا عدالتوں میں لڑیں گے مگر اسے واپس گھر بھی آنا ہے، اس کے اوپر دھشت گردی کے چھ سے زائد کیسز درج ہیں ـ اس کا باپ بیمار ہے ـ اس کے حالات بہت سنگین ہیں ـ جب گھر اور اپنے پیاروں کے حوالے سے سنگین دھمکیاں دی جائیں تو اکثر انسان ٹوٹ جاتے ہیں
انہوں نے کہا کہ ابھی میری امیر علی سے بات ہوئی ہے ابھی تک وہ اپنی بات پہ کھڑا ہے مگر اس نے ان دو دنوں میں بہت سارا پریشر برداشت کیا ہے آگے وہ ٹک پائے گا میں یہ نہیں کہہ سکتا ـ ہاں اگر اسے یہ احساس دلایا جائے کہ عدالت کا جنگ تو وکلا لڑیں گے مگر گراؤنڈ میں حالات کا مقابلہ کرنے کے لیئے ہم سب اس کے ساتھ ہیں تو شاید وہ ہمت کر کے یہ جنگ بہادری سے لڑ سکتا ہے ـ ہم نے تو اسے کہا ہے کہ ہم آخری تک اس کا ساتھ دیں گےـ اگر امیر علی گبول وقت اور حالات کے جبر کی وجہ سے سرینڈر ہو گیا تو یہ صرف امیر علی کی شکست نہیں پورے انڈیجینئس لوگوں کے لیئے شکست ہوگی ـ
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک طویل مدتی لڑائی ہے ایک تحریک ہے ـ اس میں ایک ہار مکمل ہار نہیں ہوتی نہ ہی ایک جیت مکمل جیت ہے ـ یہ لڑائی ہم لڑ رہے ہیں یہی لڑائی ہماری آنے والی نسلیں بھی لڑیں گی ـ تاریخ میں سب کے کردار لکھے جا رہے ہیں.