تین ہفتے پہلے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیناں ( یو این ایچ سی آر) کی سالانہ رپورٹ شائع ہوئی جسے حسبِ معمول کسی نیوز چینل یا اخبار نے ایک چھچھلتی خبر سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ جب کہ اس رپورٹ کی شکل میں ہم سب کے لیے یہ المناک خبر تھی کہ جیسے جیسے دنیا ترقی کر رہی ہے ویسے ویسے دربدر انسانوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔بھلے اس کا سبب غربت ہو، ماحولیاتی ابتری ہو ، قحط و خشک سالی ہو یا جنگیں۔مگر بے چھت انسانیت کا مسلسل بڑھتا مسئلہ ترقی کے تمام نام نہاد اشاریوں کے ماتھے پر سیاہ داغ جیسا چمک رہا ہے۔
اس المیے کی المناکی کس قدر گہری ہے ؟ دس برس پہلے کرہِ ارض کا ہر ایک سو انسٹھواں انسان دربدر تھا۔آج دنیاکاہرپچانواں انسان دربدر ہے۔یعنی ایک فیصد سے زائد عالمی آبادی پناہ گزینوں پر مشتمل ہے۔ دو ہزار بارہ میں پناہ کے متلاشی انسانوں کی تعداد اکتالیس ملین تھی جو آج دگنی ہو کر بیاسی ملین سے اوپر چلی گئی ہے۔ایک دو برس کی بات ہے کہ یہ سو ملین کا ہندسہ بھی پار کرنے والی ہے۔گویا نئے پناہ گزینوں کی تعداد میں سالانہ تئیس سے پچیس لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ یہ دنیا سال بہ سال زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے غیرمحفوظ ، سفاک اور بے حس بنتی جا رہی ہے۔
اس دنیا کے ’’جہاں پناہوں ‘‘ سے تنگ پناہ کے جتنے متلاشی آج مارے مارے پھر رہے ہیں اتنے انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں تھے۔بیاسی ملین میں سے ساٹھ فیصد (اڑتالیس ملین) وہ ہیں جو اپنے ہی وطن میں دربدر ہیں اور باقی نصف کسی اور ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ان پناہ گزینوں میں سے بیالیس فیصد کی عمر پندرہ برس سے کم ہے۔
ان میں ایک ملین وہ بچے ہیں جو دو ہزار اٹھارہ سے بیس کے درمیان پناہ گزین کیمپوں میں ہی پیدا ہوئے۔ ہزاروں بچے ایسے ہیں جن کا نہ باپ ہے نہ ماں۔ان میں سے پینتالیس ہزار بچوں نے دو ہزار انیس اور بیس میں پناہ حاصل کرنے کے لیے کسی تیسرے ملک کا دروازہ کھٹکھٹایا۔کتنوں کے لیے در کھلا یا کوویڈ کی وجہ سے اور مضبوطی سے بند ہو گیا۔اس کا اندازہ اگلے برس کے اعداد و شمار سے لگ پائے گا۔
عالمی پناہ گزینوں میں سے اسی فیصد کا تعلق صرف دس ممالک سے ہے۔سرِ فہرست شام ہے جس کے پناہ گزینوں کی تعداد اڑسٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔اس کے بعد وینزویلا کے چالیس لاکھ، افغانستان کے چھبیس لاکھ ، جنوبی سوڈان کے بائیس لاکھ ، برما کے چودہ لاکھ (بشمول آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمان ) بھی شامل ہیں، جب کہ دیگر پانچ ممالک میں ایتھوپیا ( تگرے کا صوبہ )، سینٹرل افریقن ریپبلک ، یمن ، موزمبیق اور کولمبیا ہیں۔
اندرونِ ملک دربدروں کی سب سے بڑی تعداد کولمبیا میں ہے جہاں چوراسی لاکھ شہری گینگ وار کے سبب اپنے گھر چھوڑ چکے ہیں۔اس تعداد میں ان ایک ملین غیرملکیوں کا بھی اضافہ ہو گیا ہے جو گزشتہ دو برس میں وینزویلا کی اقتصادی ابتری کے سبب کولمبیا میں سر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔مگر ترکی اس وقت سب سے اہم ملک ہے جو سینتیس لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ان میں پچانوے فیصد شامی باشندے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیناں نے اس وقت اکیس ملین مجبوروں کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ ان میں ستاون لاکھ فلسطینیوں کی دیکھ بھال طویل ترین عرصے سے جاری ہے۔
پانچ ماہ قبل برما میں اقتدار پر فوج کے قبضے کے بعد سے دو لاکھ سے زائد نئے برمی اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔جب کہ ایو این ایچ سی آر کے ریکارڈ میں آٹھ لاکھ رجسٹرڈ روہنگیا پناہ گزین پہلے سے موجود ہیں۔ وہ اس وقت بنگلہ دیش میں چونتیس کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ حالتِ زار کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ ایک مربع کلو میٹر میں چالیس ہزار انسان آباد ہیں۔اس اعتبار سے بنگلہ دیش کے روہنگیا کیمپ دنیا کے سب سے گنجان کیمپ ہیں۔
حال ہی میں کیمپوں میں آگ لگنے سے دس ہزار جھگیاں جل گئیں۔یوں پہلے سے بے گھر ساٹھ ہزار نفوس مزید بے گھر ہو گئے۔ایک لاکھ کے لگ بھگ روہنگیوں کو بنگلہ دیشی حکومت ایک چھوٹے سے جزیرے بھسن چار میں منتقل کر چکی ہے۔جب کہ ایک لاکھ وہ ہیں جو برما کے اندر ہی رخائن صوبے کے کیمپوں میں پڑے ہیں۔
اگلا باب افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد خانہ جنگی کے نئے ممکنہ مرحلے کی شکل میں کھلنے والا ہے۔اس کے نتیجے میں پہلے سے اندرونِ ملک دربدر چالیس لاکھ اور بیرونِ افغانستان رہنے پر مجبور تئیس لاکھ پناہ گزینوں میں اور کتنا اضافہ ہوگا۔ پاکستان سمیت علاقائی ممالک یہ نیا بوجھ کس حد تک سہار پائیں گے ؟ بس اگلے تین سے چار ماہ میں معلوم ہو جائے گا۔
کوویڈ کے سبب بھی پناہ گزینوں کو عارضی چھت دینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ یعنی دو ہزار بیس میں محض ساڑھے تین لاکھ افراد کو کسی تیسرے ملک میں پناہ مل سکی۔یہ تعداد دو ہزار انیس کے مقابلے میں انہتر فیصد کم ہے۔
ترکی کے راستے یورپ میں پناہ کے متلاشی انسانوں کی ایک بڑی تعداد یونان کو بطور گذرگاہ استعمال کرتی ہے۔ یونانی بھی تنگ آ چکے ہیں۔دو ہزار انیس میں یونان میں پچھتر ہزار پناہ گزینوں کو داخلے کی اجازت ملی۔مگر دو ہزار بیس میں یہ تعداد محض سولہ ہزار رہ گئی۔ یعنی ایک ہی برس میں پناہ گزینوں کے داخلے کی اجازت میں اٹھہتر فیصد کی کمی۔وجہ کوویڈ کے سبب عائد پابندیاں بتائی جا رہی ہیں۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ دو ہزار پندرہ اور سولہ میں جب افغانستان، عراق اور شام کے لگ بھگ ایک ملین باشندے یورپی ممالک میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ تب سے یورپی یونین نے محتاط رہنے کا غیر اعلانیہ فیصلہ کر لیا۔گزشتہ پانچ برس کے دوران پناہ گزینوں کی نئی ممکنہ لہر کی روک تھام کے لیے زمینی و بحری سرحدوں پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے موثر استعمال ، اسمارٹ کیمرے اور سنسر آلات نصب کرنے اور فولادی دیواریں کھڑی کرنے کی مد میں ساڑھے تین ارب یورو کے لگ بھگ رقم خرچ ہوچکی ہے۔ نئے آلات کی یونان ، ہنگری اور لٹویا کی سرحدوں پر آزمائش بھی جاری ہے۔
اب تو وہ مغربی ممالک بھی اکتا چکے ہیں جو کل تک پناہ کو بنیادی انسانی حق سمجھ کر اس کا احترام کرتے تھے۔مثلاً پچھلے اپریل سے کوپن ہیگن میں پارلیمنٹ کے باہر شامی پناہ گزین تنظیموں نے دھرنا دے رکھا ہے۔کیونکہ حکومتِ ڈنمارک نے ان پناہ گزینوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جن کا تعلق صوبہ دمشق سے ہے۔ ڈنمارک کی حکومت سمجھتی ہے کہ اب دمشق اور گرد و نواح پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے محفوظ ہے۔مگر اسی دمشق میں قائم ڈنمارک کا سفارت خانہ تادمِ تحریر غیر یقینی حالات کے سبب بند ہے۔
راستہ گھر کا بھول جانے پر
ٹوٹ پڑتا ہے آسمان میاں
(رفعت القاسمی)
یہ کالم ایکسپریس اردو کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا، وسعت ﷲ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے