زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ہم اس وقت ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں،
جو ڈجیٹل کو بھی ڈاج دیتا ہوا،
کسی منہ زور بدمست گھوڑے کی طرح
آگے سے آگے
اور آگے
اور بھی آگے دوڑتا ہی چلا جا رہا ہے…
زمانے کے انقلابات رو نما ہونے کی رفتار
اس تیزی سے بڑھ رہی ہے،
کہ ہمارا ذہن ان پر سوچتے ہی ہانپنے لگتا ہے…
ہم سو کر اٹھتے ہیں
اور جاگنے پر
دنیا کو ایک نئے رنگ میں پاتے ہیں،
ابھی بے یقینی سے آنکھیں ملنا شروع کرتے ہیں،
تو وہ نیا رنگ بھی
کوئی نیا روپ بدل چکا ہوتا ہے،
یہ یقین کرنے کے لیے
کہ ہم کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہے،
خود کی چٹکی کاٹتے ہیں،
تو سامنے کا منظر ہمارے لیے
ایک نئی حیرانی لیے کھڑا ہوتا ہے..
وقت کی رفتار کا باگڑ بلا
خلیل خاں کی فاختہ کے بچے
کب کا چٹ کر گیا
اور ان محترم کی فاختہ محترمہ
کب کی اپنی جان بچا کر ہوا ہو چکی،
اس لیے اب دنیا کو
خلیل خاں کی آنکھ میں بیٹھ کر دیکھنا
اور اسے سمجھنے کے لیے
خلیل خاں کے ذہن میں بیٹھ کر سوچنا
سرے سے ہی بے سود ہے عزیزانِ من….
دوڑو… کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا!
انقلاباتِ زمانہ کے سانپ نے کینچلی بدل کر
ڈجیٹل کھال کا
دیدہ زیب لباس زیبِ تن کر لیا ہے
اور تو اور
ہمارے جذبات تک ڈجیٹل ہو چکے ہیں…
اب ہم ایموجیز میں ہنستے، اور روتے ہیں
ایموجیز میں ہی سوچتے اور حیران ہوتے ہیں.
قہقہوں کی جگہ پر
"لول” نے آکر قبضہ جما لیا ہے
اور آنسوؤں کے وینس میں
"رپ” کے جزیرے رونما ہو چکے ہیں..
اپنوں سے دوری یا قربت
ان کا ملنا یا بچھڑنا
اور ان کے رویے میں اچھی یا بری تبدیلی
اب ہمارے غم یا خوشی کی وجہ بننے سے دستبردار ہو چکی ہے،
اب ہمارے غم اور خوشی کے اسباب کا بوجھ
لائکس اور کمنٹس نے
اپنے ناتواں کندہوں پر سہار لیا ہے..
ایمان کے پکھیرو نے دل سے
اور حیا کے پنچھی نے
آنکھوں سے ہجرت کر کے،
اب ناموں میں بسیرا کر لیا ہے.
ماتھے کی کھال شکن پروف ہوچکی ہے،
چھوٹی چھوٹی باتوں پر
اچنبے سے "ہائے اللہ” کہنا
کب کا آؤٹ آف فیشن ہو چکا
ماتھے پر بل لائے بغیر
آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کا رواج
عقلمندی کے زمرے میں رجسٹر ہو چکا ہے،
سو اب دماغ نے اسے
آفیشلی طور پر
رجسٹرڈ عقلمندی ڈکلیئر کر دیا ہے
دنیا اپنے معیار
اور ترجیحات کو یکسر بدل چکی ہے
اور اب وہ نئی تشریحات کی
نئی اور خوبصورت پیکنگ میں
دھڑا دھڑ بِک رہی ہیں..
بدتمیزی نے
اپنا دقیانوسی نام بدل کر کانفیڈینس
اور منافقت نے اپنا نام ڈپلومیسی رکھ لیا ہے،
اور حد تو یہ
کہ انہوں نے
ردی کے بھاؤ بکنے والے کسی اخبار میں
تبدیلیءِ نام کا اشتہار دینے کی بھی ضرورت نہ سمجھی،
کہ بوقت ضرورت کام آسکتا…
کیونکہ وہ دونوں خوب جانتے ہیں
کہ اب بوقت ضرورت
تبدیلیءِ نام کا اشتہار نہیں
بلکہ ان کے نئے نام ہی کام آتے ہیں.
اور سنو،
اب یہاں دیانتداری، ایمانداری،
عدل، انصاف اور اصول کی صدائیں دو گے
تو وہ
"بِی پریکٹیکل” کی گونج بن کر
واپس لوٹ آئیں گی…
پرانے وقتوں کے بچے کھچے
پھٹیچر سے چند لوگ بیچارے
وقت ناپنے کے لیے
ہفتوں مہینوں اور سالوں کی بوریاں لیے کھڑے رہ گئے
اور وقت گراں ہو کر
نینو اور مائکرو سیکنڈس کی ساشے پیکنگ میں آ گیا..
والدین یاشیکا کی لاٹھی کے سہارے چلتے ہوئے
ابھی بمشکل فیملی فوٹو کے فریم میں پہنچے تھے
اور ہانپتے ہوئے
ابھی پرانے وقتوں کا غبار ہی جھاڑ رہے تھے،
کہ بچوں نے اسٹک کے ایک سرے سے بندھے
سمارٹ فون کے راکٹ پر اڑ کر
سیلفی کے ٹیڑھے منہ والے سیارے پر
زندگی کے آثار دریافت کر لیے…
باورچی خانہ عرف کچن خان
گاؤں کی لکڑی بی بی کو چھوڑ کر
میڈم گیس کو بیاہ کر لایا تھا
اور وہ وہاں پہنچتے ہی
اوون کے ساتھ رفوچکر ہو گئی..
اور مزے کی بات یہ
کہ میں جو یہ ساری جھک مار رہا،
بکواس کر رہا
یا لکھ رہا ہوں
تو اس وقت نہ میرے سامنے
کوئی کاغذ دھرا ہے
کہ جس کی کھڑکھڑاہٹ سن سکوں
اور نہ ہاتھوں میں قلم ہے
کہ جس کا لمس محسوس کر سکوں
یا جس کی سیاہی کی مجھے خوشبو ہی آئے…
سمارٹ فون ہاتھ میں پکڑے
اس کے نوٹ بک پر
گوگل وائس کے ذریعے بولتا
اور کمپوز کرتا چلا جا رہا ہوں…
او آپ بھی تو یہ سب کچھ
اسی الو کی آنکھ کی اسکرین پر پڑھ رہے ہونگے،
جس نے اپنا یہ ڈجیٹل نشیمن
جانے کتنے گلشن اجاڑ کر بسایا ہے…
اب اس درد کو کون محسوس کرے
اور اس بات کو کون سمجھے
کہ ان آسانیوں نے
کتنی مشکلیں کھڑی کر دی ہیں،
یہ بات سوچنے اور سمجھنے والا دماغ،
اس درد کو محسوس کرنے والا دل لانے کے لیے
اب تو شاید ہمیں،
کسی کباڑی کے پاس ہی جانا پڑے…