دوحہ : برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق طالبان نے امریکا اور نیٹو کو خبردار کیا ہے کہ ستمبر میں انخلا کی حتمی مدت کے بعد کوئی غیرملکی فوجی افغانستان میں نہیں رہنا چاہیے ورنہ اس کی جان محفوظ نہیں ہوگی
افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ کابل ایئرپورٹ، سفارت کاروں اور این جی اوز کی حفاظت کے بہانے غیر ملکی سامراجی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی کو ملک پر قبضہ اور معاہدے کی خلاف ورزی تصور کرتے ہوئے بھرپور ردعمل دیں گے
تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو میں طالبان کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا، سیکیورٹی فورسز سے اکثر اضلاع کا کنٹرول حاصل کرنے اور طالبان کی پالیسیوں پر کھل کر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان سفارت کاروں، سفارت خانے کے عملے اور غیر ملکی این جی اوز کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کو طالبان سے کوئی خطرہ ہے تاہم غیر ملکی سامراجی فوجیوں کی ملک میں موجودگی کے خلاف ہیں اور انہی کے لیے خطرہ ہیں
طالبان ترجمان نے خبردار کیا کہ اگر ایک بھی امریکی فوجی کابل ایئرپورٹ، سفارت کاروں اور این جی اوز کے بہانے افغانستان میں رکتا ہے تو اس عمل کو امن معاہدے کی خلاف ورزی اور ملک پر قبضہ تصور کیا جائے گا اور طالبان قیادت بھرپور ردعمل کا فیصلہ بھی کر سکتی ہے
ترجمان سہیل شاہین نے ایک بار پھر یاد دہانی کرائی کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کی حتمی تاریخ 11 ستمبر 2021 ہے اور اس مقررہ تاریخ تک امریکی اور نیٹو افواج کو دوحہ امن معاہدے فروری 2020ع کے تحت افغانستان خالی کرنا ہوگا
واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس انتظامیہ کابل ایئرپورٹ، سفارت کاروں اور دیگر اہم مقامات کی حفاظت کے لیے ایک ہزار امریکی فوجی افغانستان میں چھوڑنے پر غور کررہی ہے تاہم ابھی سرکاری سطح پر اس کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی ہے
دوسری جانب افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے اور انہوں نے بغیر لڑے ہی بدخشاں کے متعدد اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جبکہ سیکڑوں افغان فوجی ہتھیار ڈال کر پڑوسی ملک تاجکستان فرار ہوگئے ہیں
الجزیرہ کے مطابق افغانستان کے شمالی صوبہ بدخشاں میں طالبان تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے سرحد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تاجکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے بتایا ہے کہ مزید تین سو سے زائد افغان فوجی سرحد عبور کرکے بھاگ کر تاجکستان آئے ہیں، جنہیں انسانیت کے ناطے پناہ دی ہے
افغان معاملے پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اپریل کے وسط میں جب سے امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان کو ’ہمیشہ کی جنگ‘ قرار دیتے ہوئے وہاں سے واپسی کا اعلان کیا ہے تب سے طالبان تیزی سے ملک میں غالب آتے جا رہے ہیں۔ تاہم بدخشاں میں فتوحات اس لیے غیر معمولی نوعیت کی حامل ہیں کہ یہ امریکا کے اتحادی سرداروں کا ہمیشہ سے مضبوط گڑھ رہا ہے، جنہوں نے 2001ع میں طالبان کے خلاف امریکا کی مدد کی تھی۔ اب طالبان کا ملک کے 421 اضلاع میں سے ایک تہائی پر قبضہ ہو چکا ہے
بدخشاں کونسل کے رکن محب الرحمٰن نے افغان فوج پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ طالبان بغیر لڑے ہی جنگ جیت رہے ہیں، کیونکہ افغان فوج بد دلی اور مایوسی کا شکار ہے اور بغیر لڑے ہتھیار ڈال کر راہ فرار اختیار کر رہی ہے، گزشتہ تین روز میں طالبان نے دس اضلاع پر قبضہ کیا جن میں سے آٹھ اضلاع بغیر لڑے ہی فتح کر لیے
سیکڑوں افغان فوجی، پولیس اہلکار اور خفیہ ایجنسیوں کے افسران اپنی فوجی چوکیاں چھوڑ کر تاجکستان یا بدخشاں کے صوبائی دارالحکومت فیض آباد بھاگ گئے ہیں، بلکہ اب فیض آباد بھی چھوڑ کر کابل جارہے ہیں
دوسری جانب افغان میڈیا کے مطابق قندھار شہر میں صوبائی گورنر کے گھر کے احاطے میں مقناطیسی بم کا دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں گورنر کا سیکرٹری اور ایک سیکیورٹی گارڈ ہلاک ہوگیا۔ دھماکا اس وقت ہوا جب گورنر کا سیکرٹری منصور احمد پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا
علاوہ ازیں امریکی فوجی انخلا کے بعد اس کی سیکڑوں فوجی گاڑیاں، ٹینکیں، ہموی اور بھاری اسلحہ طالبان کے ہاتھ آگیا ہے۔ اسی حوالے سے سوشل میڈیا پر افغانستان کی تصاور اور وڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہیں، ایک تصویر پر موجود معلومات میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے امریکی فوجی گاڑی کو اب مقامی افراد کی آمد و رفت میں سہولت کے لیے ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے.