جب بھی گرمیاں عروج پر آتی ہیں تو لاڑکانہ، دادو، جیکب آباد اور سبی انتہائی درجہ حرارت کے سبب خبری پٹیوں پر چھا جاتے ہیں۔ مگر اب ان شہروں کو نوید ہو کہ ان سے انتہائی گرم علاقوں کا اعزاز بھی چھننے والا ہے۔ دنیا کا نیا دادو، جیکب آباد، لاڑکانہ اب کینیڈا ، امریکا اور کرہِ شمالی کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔
وہ وہ سننے کو مل رہا ہے جو چند برس پہلے تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ کینیڈا کے مغربی ساحل پربرٹش کولمبیا کے صوبے اور وینکوور شہر میں جون کے آخری ہفتے میں درجہِ حرارت لگ بھگ پچاس سنٹی گریڈ چھو گیا۔ایک ہفتے میں تقریباً پانچ سو ہلاکتیں۔سرحد پار امریکی ریاست اوریگون کے شہر پورٹ لینڈ میں بھی درجہ حرارت چھیالیس سنٹی گریڈ پار کر گیا۔ راہگیر ایئرکنڈیشنڈ عمارات میں پناہ لینے پر مجبور۔ اسپتالوں میں ریڈ الرٹ۔ ایسا پہلے نہیں ہوا!
اگرچہ اس برس اب تک کا سب سے زیادہ درجہِ حرارت کویت سٹی کے نواح میں (تریپن اعشاریہ دو سنٹی گریڈ) ریکارڈ کیا گیا ہے، مگر آنے والے چند برسوں میں امریکا یا شمالی یورپ کا کوئی شہر یہ ریکارڈ بھی اپنے نام کر لے گا۔ اب تک تئیس ممالک میں درجہِ حرارت مختلف اوقات میں پچاس سنٹی گریڈ کا ہندسہ پار کر چکا ہے۔ مگر انیس سو تیرہ کا ریکارڈ ٹوٹنا باقی ہے جب کیلی فورنیا کی ڈیتھ ویلی میں درجہ حرارت چھپن اعشاریہ سات سنٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔
انیس سو اکتیس میں تیونس کے قصبے کبیلی میں درجہِ حرارت پچپن تک پہنچ گیا۔ دو ہزار سترہ میں ایران میں چون درجہ حرارت نے ایشیا کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ جب کہ گزشتہ برس انٹارکٹیکا کے جزیرہ سیمور میں درجہِ حرارت بیس اعشاریہ سات سنٹی گریڈ کو چھو گیا۔پچھلی نصف صدی میں انٹارکٹیکا کے درجہِ حرارت میں تین ڈگری اضافہ ہوا ہے۔یہ ہرگز ہرگز اچھی خبر نہیں۔ انٹارکٹیکا اس دنیا کا سب سے بڑا منجمد آبی بینک ہے۔ یہ گیا تو ہم بھی گئے!
شمالی کرے کے آرکٹک سرکل کے درجہِ حرارت میں بھی پچھلے تیس برس کے دوران تین ڈگری کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے سبب ہر دس برس میں شمالی کرے کی اٹھارہ فیصد برف پانی میں بدل رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عالمی سمندروں کی سطح اور بڑھ رہی ہے اور سورج کی شعاعیں سمندری پانی کو اور گرم کر رہی ہیں اور اس گرمی سے بننے والے بخارات اور تیزی سے اور بڑی مقدار میں سوئے آسمان جا رہے ہیں اور نا وقت بارشوں کی صورت میں ہمارے سروں پر برس رہے ہیں۔
امریکی خلائی ادارے ناساکی تازہ ماحولیاتی رپورٹ کے مطابق جب سے موسمیاتی ریکارڈ درج ہونا شروع ہوا ہے تب سے کرہِ ارض کے گرم ترین سال پچھلے سات برس ہیں۔دو ہزار بیس نے تو تمام ریکارڈ توڑ دیے اور قوی امید ہے کہ انیس سو اکیس بیس سے بھی بازی لے جائے گا اور آنے والوں وقت میں ہر سال نیا ریکارڈ بنے گا۔ناسا رپورٹ کے مطابق انیس سو اکیاون سے دو ہزار بیس تک کے دورانیے میں کرہِ ارض کے اوسط درجہِ حرارت میں ایک اعشاریہ چوراسی سنٹی گریڈ (لگ بھگ دو ڈگری) کا اضافہ ہوا ہے۔اس کا سب سے بڑا سبب ترقی کے نام پر انسان کی بے لگام صنعتی و زرعی سرگرمیاں ہیں جن کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیس کے اخراج سے ہمیں سورج کی خام شعاعوں سے بچانے والی اوزون چھتری کے سوراخ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
یوں زمینی قطبین پر کروڑوں برس سے جمی برف پگھلنے کا عمل تیز تر ہو گیا ہے اور موسمیاتی گردش کا دماغی توازن بھی تشویش ناک حد تک گڑبڑا گیا ہے۔چنانچہ گرمی میں اچانک اضافہ ، بے جگہ کی سردی ، خوامخواہ کے سمندری و ہوائی طوفان، خشک سالی ، پانی کے زیرِ زمین ذحائر کی اتھل پتھل، جنگلاتی آتش زنی میں اضافے اور ان سب کے نتیجے میں جنگلی حیاتیات کی نسل کشی اور بنیادی وسائل مثلاً خوراک اور پانی کی تلاش میں انسانوں کی غیر معمولی نقل مکانی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
یہ سب محسوس کرنے اور دیکھنے کے لیے ماحولیاتی سائنسداں ہونا ضروری نہیں۔پالتو جانوروں اور پرندوں کو بھی معلوم ہو چکا ہے کہ انسان نے فطرت کو لالچ کے ریڑھے پر اپاہج کر کے بٹھا دیا ہے اور زندگی کی خیرات مانگنے کے لیے نکل کھڑا ہوا ہے۔مگر اب آسمان بھی کرہِ ارض کے اس دشمن کو بھیک دینے سے انکاری ہے۔ پچھلے چار برس میں دو ایسی قدرتی آفات آئی ہیں جنھوں نے ماحولیات کی کمر پر آخری تنکے جیسا کام کیا ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ برس درجہِ حرارت میں اضافے کے سبب آسٹریلیا میں چھیالیس ملین ایکڑ رقبے میں آگ بھڑک اٹھی۔ ارب ہا جانور تو خیر مرے سو مرے۔ان جنگلات سے اٹھنے والے دھوئیں نے زمین سے اٹھارہ میل اوپر خلا میں منجمد شکل اختیار کر لی۔یوں ایک بڑے علاقے میں سورج کی روشنی کے زمین تک آنے کی راہ اور تنگ ہو گئی۔دوسرا واقعہ کوویڈ کی شکل میں ہوا جب عالمی صنعتی زندگی اور روزمرہ زندگی کئی ماہ کے لیے تھم جانے سے ماحولیاتی آلودگی میں زرا سی کمی واقع ہوئی۔ مگر یہ کمی اتنی معمولی ہے کہ وہ کرہِ ارض کے مسلسل بڑھتے درجہِ حرارت کی راہ میں چند ماہ سے زیادہ رکاوٹ نہ ڈال پائی۔
ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ماہرین کا پینل اس وقت جو مفصل رپورٹ تیار کر رہا ہے وہ اگلے برس فروری میں سامنے آنے گی۔مگر اس کا خام مسودہ بھی تشویشناک خبر دے رہا ہے۔لبِ لباب یہ ہے کہ آیندہ تیس برس میں فیصلہ ہو جائے گا کہ یہ کرہ نسلِ انسانی کے لیے اگلی صدی میں بھی رہنے کے قابل ہو گا یا پھر اسی صدی میں کام تمام ہونے والا ہے۔موجودہ ماحولیاتی بحران اس حالت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جس کا سامنا ہمارے پوتوں اور نواسوں کو کرنا ہے۔ گیسوں اور آلودگی کی مقدار اس قدر بڑھ چکی ہے کہ جنگلات اور سمندر بھی انھیں ہضم کرنے سے قاصر ہیں۔
اب تک یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اس صدی میں اگر ہم درجہِ حرارت دو ڈگری تک کم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کرہِ ارض بچ جائے گا۔مگر تازہ آنکڑوں کے مطابق دو ہزار چھبیس تک کرہِ ارض کے کچھ علاقوں کے درجہِ حرارت میں مزید ایک ڈگری کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب ناقابلِ برداشت گرمی اور اس کے سبب حیاتیات و نباتات کی موجودہ اقسام و نسلوں کی تیز رفتار بربادی ہے۔
اس پر مستزاد قطبین کی برف پاؤں تلے سے سرک رہی ہے اور گرین لینڈ جیسے علاقے تاریخ میں پہلی بار برف کے بڑے بڑے قطعات سے باہر جھانک رہے ہیں اور یہ برف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پانی بننے جا رہی ہے۔اس ماحول میں کروڑوں ایکڑ پر پھیلے جنگلات میں آگ لگنا ایک نیا معمول ہوگا۔ اس آگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آلودگی کرہِ ارض کا رہا سہا سانس بھی اکھاڑ پھینکے گی۔
چند برس پہلے تک نوے فیصد ماحولیاتی سائنس دانوں کا خیال تھا کہ حالات کو سرتوڑ اجتماعی کوشش سے بحال کیا جا سکتا ہے۔مگر اب ستر فیصد ماحولیاتی محقق کمیونٹی کا خیال ہے کہ ٹرین چھوٹ گئی ہے۔اب اگر ہم پٹڑی کو پگھلنے سے ہی بچا لیں تو بڑی بات ہو گی۔اس کے لیے ابھی اور آج سے اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔ ورنہ اکیلے اکیلے ملک اگر کاربن میں کمی بھی کر لیں اور گرین سونامی جیسے منصوبے بھی کامیابی سے مکمل کر لیں تب بھی مجموعی درجہِ حرارت میں کمی ممکن نہیں۔
یعنی آسان اردو میں اکیلے آئے تھے مگر ساتھ جائیں گے۔ گویا جرم کسی کا سزا ہم سب کو۔۔۔
(یہ کالم ایکسپریس اردو کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا، وسعتُ ﷲ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)