کرائے کا فوجی (ریمنڈ ڈیوس کی کتاب The Contractor کا اردو ترجمہ) گیارہویں قسط

گیارہویں قسط

16 مارچ، انچاسواں دن

اسی دن امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے قاہرہ کے دورے کے دوران نیشنل پبلک ریڈیو کی سٹیو لینسکیپ نے سوال کیا کہ ریمنڈ کو رہا کروانے کے لیے خون بہا کے لیے دی جانے والی رقم نے کتنا کردارادا کیا، تو ہلیری کلنٹن نے جواب دیا۔ ’’ہم نے ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرانے کے لئے کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا۔ لواحقین کی فیملیز نے ریمنڈ کو معاف کیا جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ اس کے علاوہ ہم پاکستان کے لوگوں اور حکومت کے شکر گزار ہیں۔ ہمارے پاکستان کے ساتھ بڑے مضبوط تعلقات ہیں اور ہم انہیں اور مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ ہیلری کلنٹن نے مزید کہا: ”امریکہ نے کسی قسم کا معاوضہ ادا نہیں کیا۔‘‘ تکنیکی لحاظ سے وہ ٹھیک کہہ رہی تھیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق: پیسے آئی ایس آئی نے دیے تھے اور بعد میں امریکہ نے یہ رقم پاکستانی حکومت کو ادا کر دی تھی۔

آئی ایس آئی میرے باہر آنے کے منصوبے کی تخلیق کار تھی۔ اس کے بہت سے ایجنٹ عدالت کے باہر موجود تھے۔ میں اپنے سیل کے باہر واک کر رہا تھا کہ انہوں نے مجھے انتہائی برے طریقے سے اٹھایا اور پانچ گھنٹوں تک عدالت میں بٹھائے رکھا۔
”کیا میں اگلی میٹنگ میں جانے سے پہلے اپنے سیل کا واش روم استعمال کر سکتا ہوں؟‘‘
”آئی ایم سوری! ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔“
”آپ کیوں نہیں سمجھ رہے، میں کورٹ روم کے اندر تمام دن بیٹھا رہا ہوں، مجھے وہاں جانے کی ضرورت ہے۔“
اس نے اپنے ایک ساتھی سے مشورہ کیا اور مجھے کہا: ”او کے لیکن ذرا جلدی کرنا۔“

انہوں نے مجھ سے میرا سیل فون لے لیا، لیکن مجھے بہت وقت نہیں دیا ’’چلو، جلدی کرو‘‘
جب تک میں واپس نہیں آ گیا۔ وہ بار بار بولتا رہا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ آخر اتنی جلدی کیا ہے؟ میرا خیال تھا کہ میری قونصلیٹ کے سٹاف کے ساتھ ایک میٹنگ ہوگی، لیکن آئی ایس آئی کے لوگ اپنے سینئرز کے حکم کے پابند تھے۔ جب تک میں واش روم میں رہا، وہ باہر رہے اور مجھے نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔ مجھے اتنا بھی وقت نہیں ملا کہ میں اپنے سیل سے کچھ چیز میں اٹھاسکوں..
مجھے بند دروازے کے پیچے سے SUV گاڑی کے ڈیزل انجن کی آواز آئی۔ میں کسی کے بتائے بغیر یہ جان گیا تھا کہ باہر کوئی میرا انتظار کر رہا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میں آج نہیں جارہا، لیکن نہیں جانتا تھا کہ میں ابھی جا رہا ہوں۔
اچانک وہ آدمی جو باہر تھا، جلدی کرو، جلدی کرو کی آوازیں لگانے لگا. میں نے رہنمائی کرنے والے اس آدمی سے کہا۔ ”پلیز، انتظار کریں سر!‘‘
ایک آدمی نے دروازہ کھولا اور صحن میں نکل آیا۔ اس نے صحن کلیئر کیا اور SUV کو صحن میں آنے کی ہدایت کی۔ میں نے تیزی سے صحن کراس کیا اور ایک آدمی نے مجھے SUV تک پہنچایا۔ گاڑی کے قریب جاتے ہی مجھے ایک جھٹکا لگا۔ میں نے ڈیل رش کو نہیں دیکھا تھا، جو سفارت خانے کا ڈاکٹر تھا اور مجھے جیل میں ملنے آیا تھا۔ میں نے دو اور آدمیوں کو دیکھا جو پاکستانی لگ رہے تھے۔ میرے دائیں طرف کھڑے آدمی نے SUV کا پچھلا دروازہ کھولا اور مجھے گاڑی کے اندر دھکیلنے کی کوشش کی۔ میں نے اسے انتظار کرنے کی ہدایت کی اور کھڑا رہا، جب تک کہ ڈرائیور میرے قریب آیا اور کہنے لگا: ”میں امریکی سفارت خانے سے ہوں۔ میرا اعزاز ہے کہ اسے ڈرائیو کر رہا ہوں۔“
گاڑی کی مسافر سیٹ پر بیٹھا آدمی مسلسل فون کر رہا تھا۔ آخر اس نے فون بند کیا۔ میں نے پوچھا کہ وہ کون ہے؟‘‘
وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: ’’میں کرنل ہوں۔‘‘

”میں کرتل ہوں“ آئی ایس آئی کے افسران ایسے سادہ اور معصوم لگ رہے تھے، جیسے انہوں نے میرے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ سوچ کر مجھے ہنسی آ گئی۔

جیسے ہی گاڑی نے چلنا شروع کیا تو جیل کی دیواروں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم کوئی راستہ تلاش کرنے کا سفر کر رہے ہیں۔ جب تک جیل کا بڑا گیٹ نہیں آ گیا اور وہ ہمارے لیے کھولا نہیں گیا، تب تک مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ ہم یہاں سے کبھی نہیں نکل سکیں گے۔
میں نے ڈیل کو دیکھا جو ایک طرف بیٹھا تھا۔
”کیا ہورہا ہے، ڈیل…..؟“
ڈیل نے مجھے کہا۔ ’’نیچے بیٹھ جاؤ۔‘‘
’’ڈیل! کیا چیک کرنا چاہتے ہو؟‘‘
”تمہیں آرام سے نیچے بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ میڈیا کی نظر تم پر پڑے اور وہ یہ جان لیں تم یہاں سے جا رہے ہو“

وہ ان چیزوں کو بہتر سمجھتے تھے۔ میں ان لوگوں کے درمیان پھنستے ہوئے نیچے بیٹھا، لیکن اس طرح پھنس کر بیٹھنا آسان نہیں تھا۔
ہم گیٹ کی طرف جانے لگے۔ کئی دوسری گاڑیاں ہمارے قافلے میں شامل ہو گئیں۔ کچھ گاڑیاں ہمارے آگے اور کچھ پیچھے تھیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ڈیل کچھ پریشان لگ رہا تھا۔ میں اس کی آواز سن رہا تھا۔ ”سب ٹھیک ہے۔ اسی طرح بیٹھے رہو۔ ہم ٹھیک جار ہے ہیں۔“ ڈیل نے مجھے کہا۔
’’ڈیل! پرسکون ہو جاؤ، تم اتنے پریشان کیوں ہو؟‘‘
’’سوری.. میں نے یہ سب کچھ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔“
ڈیل کے اعصاب اور مجھ میں ایک واضح فرق تھا، لیکن جس طرح سے آپ سوچ سکتے ہیں اس طرح میں نہیں سوچ سکتا۔ مجھے پتہ چلا کہ ہم میں سے ہر ایک کے سوچنے کی سطح مختلف ہے۔ اس بات نے مجھے واقعی پرسکون کیا۔ جب تک میں پاکستان سے نکل نہیں سکا، میں بھی بہت پریشان تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ مجھے ملک سے باہر بھیجنے کے لئے جو بھی منصوبہ بنایا گیا تھا، وہ اس سارے بحران سے نکلنے کا بڑا آسان حربہ تھا۔
”دیکھو، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں، تمہیں کسی بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“
”اوکے“ میں کھڑکی سے باہر جھانک کر یہ دیکھ رہا تھا کہ ہم کہاں ہیں؟
ڈیل نے اپنا فون نکالا اور کہا: ”مجھے باس سے بات کرنی چاہیے۔‘‘
میں باہر کا نظارہ کرتے ہوئے روڈ کو جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ ”ہم جیل سے باہر آ گئے ہیں۔ ہم ایئر پورٹ کے راستے پر ہیں۔“
تھوڑی دیر بعد سر جھٹکتے ہوئے ڈیل نے فون اپنی جیب میں رکھا اور پوچھا۔ ” ہم ایئر پورٹ سے کتنے فاصلے پر ہیں؟“
گاڑی کے آگے بیٹھے ہوئے لوگوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں کھڑکی سے دیکھ رہا تھا۔ ’’ہم پندرہ منٹ کی دوری پر ہیں ڈیل!‘‘
ڈیل نے مجھے غور سے دیکھا اور یہ معلومات آگے باس کو فون پر بجھوا دیں۔ دس منٹ.. ڈیل مجھے دوبارہ پریشان نظر آرہا تھا۔
اب ہم کتنی دوری پر ہیں؟‘‘
پانچ منٹ… میں نے جواب دیا۔
پانچ منٹ بعد ہم ایئر پورٹ پہنچ گئے۔
ڈیل نے مجھے اس طرح دیکھا، جیسے پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہو۔ ’’تم واقعی ارد گرد کا راستہ جانتے ہو۔“
”یہ نوکری کے معمول کا حصہ ہے۔“ میں نے کہا۔

تھوڑی دیر میں ہم اپنے اسٹاپ پر پہنچ گئے ۔ ڈیل نے مجھے پکڑا اور کہا ہمیں اندر جانا ہے، جہاں تمہارا ایک پاکستانی ڈاکٹر چیک اپ کرے گا۔
مجھے کپڑے بدلنے کی ضرورت تھی، لیکن بدلنے نہیں دیئے گئے۔ سب مجھے جلد سے جلد جہاز پر بٹھا دینے کی جلدی میں تھے، اور وہ چاہتے تھے کہ یہ جلد سے جلد ہو۔
ڈیل مجھے لے کر ایک عمارت میں داخل ہوا جہاں ایک ڈاکٹر میرا انتظار کر رہا تھا۔ ہمارے ساتھ گاڑیوں میں آنے والا ایک آدمی وہاں آیا اور میں جو کچھ کر رہا تھا، اس کی وڈیو بنانے لگا۔ شائد وہ شواہد کے لیے ایسا کر رہا تھا۔ حتیٰ کہ جب ڈاکٹر نے مجھے کپڑے اتارنے کو کہا تو اس وقت بھی وہ آدمی میری فلم بناتا رہا۔
”واہ کیا بات ہے۔‘‘ میں نے سوچا۔
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے مجھے کلیئر قرار دے دیا اور کہا کہ کوئی انجری نہیں ہے۔

اس مرحلے میں کچھ دیر ہوگئی۔ جس کے بعد ڈیل نے مجھے کپڑے بدلنے نہیں دیئے اور کہا: ’’ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ تم کپڑے جہاز میں بدل لینا۔ ہمیں فوری جانا ہے۔“

جاری ہے

  1. کرائے کا فوجی (ریمنڈ ڈیوس کی کتاب The Contractor کا اردو ترجمہ) دسویں قسط
  2. کرائے کا فوجی (ریمنڈ ڈیوس کی کتاب The Contractor کا اردو ترجمہ) نویں قسط
  3. کرائے کا فوجی (ریمنڈ ڈیوس کی کتاب The Contractor کا اردو ترجمہ) پہلی قسط

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close