قربانی اور اساتذہ!!

ادیبہ بابر علی

یوں تو زندگی نام ہی قربان ہونے کا ہے۔ کبھی خواہشات کی قربانی، تو کبھی حالات سے مجبور ہوتے ہوئے کسی چیز کی قربانی۔ زندگی جیسے ہر لمحہ قربانی مانگتی ہے۔

شعبہ ہائے زندگی کی طرف اک نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے یہاں بھی قربان ہونے کا متوازن سلسلہ اپنے جوبن پر ہے۔ کبھی ملازم اپنے مالک کے ہاتھوں قربان ہو رہا ہے تو کبھی اس آتی ہوئی تنخواہ کے ہاتھوں جو اسے شاید اس تناسب سے نہ ملے جس کا وہ حقدار ہے۔ اور اگر اس طرف سے ذی روح بنفس نفیس مطمئن ہے تو پھر ٹی سی جیسی شے کے ہاتھوں قربان ہو رہا ہے۔
بہر کیف یہ دنیا ہے اور یہاں ہم قربان ہونے کے لئے آئے ہیں!!

مگر رکئیے!! کیا شعبہ تدریس و تعلیم بھی اس زمرے میں آتے ہیں؟؟
اگر اس بات کا بغور مشاہدہ کیا جائے اور کچھ ماضی کے پہلو پر روشنی ڈالی جائے تو ہم اس نقطہ پر بغیر کسی تردد ہائے تردید کے پہنچ جائیں گے کہ یہ مقدس شعبہ بھی اس لپیٹ میں آچکا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس شعبہ میں کونسے عہدیداران ہیں جو اس بھنور میں آگئے ہیں۔ اس سوال کی گہرائی میں جب ہستی زماں پہنچے تو یہ اچھنبے کی بات منظر عام کی روح رواں بن گیا کہ وہ بنی نوع اس شعبہ ہائے حیات میں "استاد” کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ آہ رے قسمت!!

جی ہاں!! درحقیقت ہم نے اس شعبے کو اس قدر کمرشلائز کر دیا ہے کہ اب اس کا روحانی پہلو بالکل پامال ہو کر رہ گیا ہے۔ روحانیت تو شاید بہت اعلیٰ درجے کی بات ہے، اس دور میں مکتب و جامعہ کا رویہ اساتذہ کے ساتھ انسانیت کی حدود سے بھی پست ہوچکا ہے۔ رنج کا عالم تو دیکھئیے کہ یہ اس طور سے بڑھ رہا ہے کہ اب اس کا ارتقاء کسی بڑی ہی پر خطر انقلاب کی صورت واقعہ ہونے کو ہو جیسے!!

اساتذہ جہاں درس دینے کے لئے دن رات مگن ہے وہیں متاثرکن حد تک مجبور ہونے میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ کیا یہ کسی قربانی کے زمرے میں آتا ہے؟؟

بغور مشاہدے کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ ان کا اپنے پروفیشن کے ساتھ وفادار ہونا نہ صرف انہیں تنخواہ دار ہونے کا مستحق ٹھہراتا ہے، وہیں انہیں اپنے گھریلو ذندگی قربان کرنے کی ترویج دیتا ہے۔

اساتذہ اگر اپنی روزمرہ ذندگی سے بہت سارا وقت اس شعبے کو بخشتی ہے تو کیا یہ لازم ہے کہ وہ باقی ماندہ وقت بھی اسی کی نظر کردیں وہ بھی بغیر کسی چوں چراں کے!!
کیوں موسم کی حدت ان کے لئے مختلف تصور کی جاتی ہے؟؟
کیوں انسانیت کے اصول ان کےلئے کچھ اور ہیں؟؟
کیوں ان کی ذاتی زندگی ایک المیے کا شکار ہے؟؟
کیوں وہ اپنے پیاروں کے ساتھ دوپل سکون کے نہیں گزار سکتی؟؟
میرے یہ سوالات ان سب اعلیٰ حکام سے ہیں جو ان عہدوں پر فائز ہے جہاں وہ ان  سارے سوالات کا بخوبی جواب دے سکتے ہیں۔

کیا اساتذہ قربان نہیں ہو رہے؟؟
جب بھی کبھی موسم گرما کی تعطیلات کا اعلان ہوتا ہے تو اساتذہ اس ننھے طفل کی مانند اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کوئی ان کو بھی یہی خوشخبری دے دے مگر ان کا یہ خواب ورکشاپ، پروفیشنل ڈیولپمنٹ, کلاس مینٹیننس/ڈیکوریشن جیسی قربانیوں کے بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔
میرا آپ سب سے یہ سوال ہے کیا ایسی قربانی جائز ہے؟؟
بہت سوچئے!!

"کچھ باتیں قربانی کی” سے اقتباس

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close