ایران کی افغانستان کے ساتھ غیر محفوظ سرحد، جس کے آر پار تارکین وطن، منشیات، مسلح گروہ اور پانی آتا جاتا رہتا ہے، یہ منظرنامہ ایران طالبان تعلقات کی وضاحت کرتا ہے
دو بڑے دریا ہری رڈ اور ہلمند افغانستان سے بہہ کر ایران میں داخل ہوتے ہیں۔ جب اس پانی کی فراہمی میں خلل پڑتا ہے تو اس سے نیچے پانی کے بہاؤ کی طرف رہنے والی ایرانی برادریوں کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جب طالبان کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تو ایران کو نئی افغان حکومت اور اس کی پانی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے کی جانے والی کوششوں سے ایک نیا خطرہ محسوس ہوا۔ ان بنیادی ڈھانچوں کے منصوبوں میں سے ایک کمال خان ڈیم ہے، جو دریائے ہلمند کے اوپر تعمیر کیا گیا ہے اور جس کا افتتاح مارچ میں کیا گیا تھا، جس پر ایرانی کارکنوں اور عہدیداروں نے یکساں طور پر تشویش کا اظہار کیا تھا
دوسری جانب افغان اور امریکی حکام متعدد مرتبہ ایران، خصوصاً پاسدارانِ ایران پر الزام عائد کر چکے ہیں کہ وہ طالبان قوتوں کو مالی اور فوجی مدد فراہم کرکے انفراسٹرکچر کے ایسے منصوبوں میں رکاوٹ ڈالتا رہا ہے، جن سے افغانستان ایران کو پانی کی فراہمی پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کر سکتا ہے
دراصل طالبان کے ساتھ ایران کا سیکیورٹی تعاون بھی اتحادی افواج کے ساتھ مشترکہ دشمنی پر مبنی ہے. یہی وجہ ہے کہ برطانیہ اور امریکہ ایران پر طالبان کو ہتھیاروں کی فراہمی کا الزام بھی عائد کرتے رہے ہیں
اسی طرح سنہ 2015ع میں افغانستان میں دولتِ اسلامیہ کے عروج کے بعد ایران نے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے طالبان کے ساتھ تعاون بڑھایا ہے۔ یاد رہے کہ ایران کی سرحد کے ساتھ ملحقہ زیادہ تر علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے۔ اس اَن کہے تعاون نے طالبان اور ایران سفارتی تعلقات کو بھی وسعت دی۔ ایران کے ساتھ طالبان کے تعلقات اس وقت واضح ہو گئے جب مئی 2016ع میں طالبان کے رہنما ملا اختر منصور ایران سے پاکستان واپس آتے ہوئے ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیے گئے۔ ایران نے پہلی بار عوامی طور پر 2018ع کے آخر میں طالبان کے نمائندوں کی میزبانی کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اس نے ایسا افغان حکومت کے علم میں لانے کے بعد کیا تھا۔ اس نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ مذاکرات میں افغانستان میں سلامتی کے مسائل کو حل کرنے پر بات کی گئی تھی
امریکہ کے افغانستان سے فوجوں کے انخلا کے معاہدے کے بعد ایران نے واشنگٹن پر تنقید کی کہ وہ بین الافغان مذاکرات کو ترجیح نہیں دے رہا۔ لیکن ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے سب کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ طالبان ’افغانستان کا پورا مستقبل نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ ہیں۔‘
طالبان ایران تعلق آج کہاں کھڑا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا اتنا مشکل نہیں ہے. بیشتر ایرانی ذرائع ابلاغ نے طالبان کی عسکری طاقت کے دوبارہ سامنے آنے اور اقتدار میں ان کی واپسی کے ممکنہ خطرے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عوامی طور پر، ایرانی سفارت کاروں نے افغانستان میں فوجی کارروائیوں میں بتدریج کمی اور سفارتکاری کی ضرورت پر زور دیا ہے
لیکن وہیں ایران کا ہارڈ لائن میڈیا ایک الگ ہی کہانی سناتا ہے۔ تسنیم خبر رساں ایجنسی طالبان کے اعتدال پسندی کی ضرورت پر زور دیتی ہے، اور اس نے فرقہ واریت کے خلاف بولنے والی سینیئر طالبان شخصیات کو اپنا پلیٹ فارم دیا ہے
مثال کے طور پر طالبان کے ترجمان ذبیح ﷲ مجاہد نے خبر رساں ایجنسی تسنیم کو بتایا کہ ’ہم اپنے شیعہ بھائیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کے خلاف کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں برتا جائے گا، اور ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
یہ ذرائع ایرانی سکیورٹی ایجنسیوں اور طالبان کے مابین کافی عرصے سے جاری تعلقات کے عوامی چہرے کی نمائندگی کرتے ہیں
دوسری طرف طالبان نے بھی ایرانی میڈیا کے وسیع تر حصے میں صلح آمیز لہجہ ہی اختیار کیا ہے۔ النا نیوز ایجنسی کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں ذبیح ﷲ مجاہد نے افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں ناکامی کی وجہ ملک میں خانہ جنگی اور ناتجربہ کاری پر کو قرار دیا ہے
انھوں نے کہا کہ طالبان اپنے رویے بدل رہے ہیں، اور سنہ 2000 میں طالبان اور ایران کے درمیان قائم بہت برے تعلقات کے بعد سے وہ اب بہت بہتر ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ایران اور طالبان کے مفادات کی بدلتی ہوئی بنیادوں کے پیش نظر ان کے تعلقات کو آسان طریقے سے بیان کرنا ایک مشکل کام ہے، لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ دونوں ہی افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے اصل امکان کی تیاری کر رہے ہیں.
سینئر صحافی، تجزیہ نگار اور معروف کالم نگار وسعت ﷲ خان کی رائے میں موجودہ طالبانی قیادت زیادہ معاملہ فہم ہے۔ اس کی قطر سے اچھی دعا سلام ہے۔ قطر مخالف سعودیوں سے بھی ورکنگ ریلیشن شپ ہے، ایرانی قیادت سے بھی ہلو ہائے ہے، ترکوں سے بھی کوئی خاص مخاصمت نہیں، روسی بھی ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، چین بھی انہیں ایک عامل افغان قوت تسلیم کرتا ہے اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی کابل پر طالبان کے ممکنہ قبضے سے کوئی خاص تشویش نہیں ہوگی اگر وہ اپنے مذہبی، قانونی و ریاستی تجربات صرف افغانستان تک محدود رکھیں
وسعت ﷲ خان کہتے ہیں کہ طالبان کی موجودہ قیادت کو سابقین کی نسبت بخوبی اندازہ ہے کہ ایک بار اقتدار چھن جائے تو دوبارہ بہت جانی نقصان اور طویل عرصے کے بعد ہی ہاتھ لگتا ہے۔ چنانچہ خارجہ پالیسی میں مہم جوئی کو بس اتنی جگہ دی جائے جو آس پاس کے ممالک اور بڑی طاقتوں کو ہضم ہو سکے
مذکورہ بالا زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو ممکنہ طور پر ایران طالبان کا مستقبل امید افزا نظر آتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ان تعلقات میں غیر یقینی کی کیفیت ہمیشہ برقرار رہے گی، اور سچ تو یہ ہے کہ یہ کیفیت خارجی تعلقات کا ایک لازمی عنصر ہے. اس لیے یہ کوئی اتنی انہونی بات نہیں ہوگی.