جب سویڈن کی گوٹنبرک یونیورسٹی سے وابستہ معاشیات کے پروفیسر اولا اولسن اور ان کے ساتھیوں نے سسیلین مافیا کے آغاز پر تحقیق شروع کی تو انہیں اعداد و شمار سے پراسرار خد و خال واضح ہوتے نظر آئے
انیسویں صدی کے وسط میں اٹلی کی نئی مالدار ریاست نے سسلی میں بلدیاتی سطح پر جرائم کی صورت حال جاننے کے لیے مختلف جائزے منعقد کیے۔ جزیرے کے ایک تہائی شہروں سے مسلسل جرائم پیشہ گروہوں کی سرگرمیوں کی اطلاعات آنے لگیں
لیکن کیا وجہ ہے کہ جرائم پیشہ گروہ چند مقامات پر تھے اور دوسری جگہوں پر نہیں؟ دیگر مقامات کے برعکس جن علاقوں سے جرائم کی اطلاعات زیادہ تھیں ماہرین اقتصادیات نے ان علاقوں کی صنعتوں سے لے کر کان کنی اور مختلف زرعی اجناس تک کے مشترک پہلو دیکھنے شروع کیے
اولسن کہتے ہیں: ’ان علاقوں میں واحد قابل ذکر مشترک عنصر کھٹے پھلوں کے جھنڈ تھے۔‘
لیموں کے درخت ایک خاص اونچائی اور درجہ حرارت میں ہی پیدا ہو سکتے ہیں اور بحیرہ روم کے جزائر کا بیشتر حصہ ان کی پیداوار کے لیے سازگار نہیں
تاہم ماہرین اقتصادیات اس نتیجے پر پہنچے کہ جس مقام پر لیموں کے جھنڈ اگ سکتے تھے وہاں جرائم پیشہ گروہ بھی موجود تھے۔ اس بے ضرر پھل اور جرائم پیشہ پرتشدد گروہ کے درمیان کیا تعلق تھا؟
اس سوال کا جواب ہے، سکروی کی بیماری!
اٹھارویں صدی کے اواخر تک دور دراز کا سفر کرنے والے مسافر سکروی میں مبتلا ہو جایا کرتے تھے۔ اس بیماری کی وجہ سے تھکاوٹ، تکلیف اور مسوڑھوں سے خون بہنے لگتا تھا۔ زیادہ خطرناک سطح پر یہ حلیے میں تبدیلی اور یہاں تک کہ موت کا باعث بھی بن جاتی تھی۔ تاہم ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے کہ مریض کی خوراک میں تازہ پھلوں کی معمولی مقدار بھی وٹامن سی کی کمی پورے کرتے ہوئے بیماری سے نجات دلا سکتی ہے۔
1790ع میں شاہی بری فوج کا باقاعدہ لائحہ عمل بن گیا کہ جہاز میں سارے عملے کو لیمو کا رس فراہم کیا جائے گا۔ راتوں رات لیموں کی مانگ میں اضافہ ہو گیا۔ اٹلی کے نشیب میں واقع ایک غریب جزیرہ اس کی پیداوار کے لیے سازگار ترین جگہ تھی۔
سسلی پہلے ہی برآمد کرنے کے لیے کچھ لیموں اگا رہا تھا (جو زیادہ تر خوشبوؤں اور آرائش کے لیے استعمال ہوتے تھے) اور ان کی پیداوار کے لیے انتہائی بہترین ماحول رکھتا تھا۔
لیموں سے جڑے صحت کے فوائد اور اسے ذخیرہ کرنے کی گنجائش کا مطلب ترش پھلوں کی کاشت کرنے والے کسانوں میں دولت کی ریل پیل تھی۔
بدقسمتی سے لیموں چرانا انتہائی آسان ہے اور کئی کسانوں کو تجربہ ہوا کہ سال بھر کی فصل ڈاکو ایک اندھیری رات میں چرا سکتے ہیں۔ بہت جلد انہوں نے طاقت ور مقامی افراد کو اپنی فصلوں کی حفاظت کے لیے رکھنا شروع کر دیا۔ جلد ہی ان ٹھگوں نے لیموں کے مالک کسانوں کو ان کی حفاظت کی پیشکش کرنی شروع کر دی چاہے انہیں ضرورت تھی بھی یا نہیں۔ اس طرح Cosa Nostra یعنی مافیا کا جنم ہوا۔
ایک مرتبہ لیموں کی فصل اور سسیلین مافیا کے درمیان ربط استوار ہونے کی دیر تھی، پھر تو یہ تاریخ کا ایک مستقل باب بن گیا.
تاہم گذشتہ دہائیوں میں محققین نے ایسے ہی چند ملتے جلتے خطوط کی نشان دہی کی ہے کہ جو ممالک معدنیات، تیل اور یہاں تک کہ مخصوص پودوں کے وسیع وسائل رکھتے ہیں وہ کسی اچانک دریافت کے بعد بدحالی اور افراتفری کا شکار ہو گئے۔ اس مظہر کو ’وسائل کے منفی اثرات‘ کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
فیدم سے منسلک اینڈریو ہیرس وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں: ’وسائل کے منفی اثرات کی کئی مختلف توضیحات ہیں اور دراصل یہ ایک جامع اصطلاح ہے جس میں کئی نظریات شامل ہیں۔ میرے خیال کے مطابق ان نظریات میں سے سب سے زیادہ حوالہ ڈچ بیماری کے مفروضے کا دیا جاتا ہے۔
’ابتدائی سطح پر یہ مظہر اس وقت ظہور پذیر ہوتا ہے جب کسی ملک میں خام مواد کی دریافت سے اس کے روپے کی قدر و قیمت میں اچانک اضافہ ہوتا ہے۔
’یہ اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب اجناس بیچنے والے افراد ادائیگی اس مقامی رقم میں چاہتے ہیں جس میں انہوں نے خود ادائیگی کرنا ہوتا ہے اور اس طرح کرنسی کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے (جس کے نتیجے میں اس کی قیمت بڑھتی ہے۔)‘
اس طرح ملک کی دیگر برآمدات بیرون ملک خریداروں کے لیے مزید مہنگی اور نتیجتاً معیشت مسابقتی رجحان سے محروم ہو جاتی ہے۔
اگرچہ اشیا کا برآمد کنندہ اچھی کمائی کرتا ہے لیکن ملک کے دیگر افراد غریب تر ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ غربت کا بڑھنا ہی کافی تباہ کن ہے لیکن وسائل کی دریافت پہلے سے موجود مسائل میں اضافے اور تشدد کے فروغ کا باعث بن جاتی ہے۔
فیدم نے اس مظہر کا مزید مفصل تجزیہ کرنے کے لیے حالیہ عرصے میں عوامی جمہوریہ کانگو پر ایک تحقیق منعقد کی۔
کانگو کے جائزے سے معلوم ہوا کہ مہنگی تجارتی اشیا کی قیمتیں بڑھتے ہوئے تشدد کے ساتھ گہری جڑت رکھتی ہیں۔
’تصادم میں ہونے والی اموات کے اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا تجزیہ واضح کرتا ہے کہ تشدد کا رجحان اس دورانیے میں بڑھتا ہوا نظر آیا جب چند مخصوص تجارتی اشیا کی قیمتیں بلند تھیں یا بلندی کی جانب مائل تھیں۔‘ فیدم کی توجہ کوبالٹ، کولٹن اور کاپر جیسی دھاتوں پر مرکوز رہی جو ہماری الیکٹرانکس، ٹی وی اور الیکٹریک کار بیٹریوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
قیمتی وسائل کی دریافت بذات خود تشدد اور کرپشن کا رجحان اپنے اندر نہیں رکھتی۔ روٹرڈیم ایرازمس یونیورسٹی یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر الیسائیوس پاپیراکس گذشتہ 50 سے زائد برسوں سے وسائل کے منفی اثرات کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کر رہے ہیں۔
وہ ایسے عوامل کا خلاصہ تیار کرتے ہیں جو کسی غیر متوقع مالی فائدے کو بحران میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’سب سے پہلے آپ کو مرتکز مآخذ اور منتشر وسائل میں فرق کرنا ہو گا۔‘ مرتکز مآخذ تیل، معدنیات یا کسی ایک جگہ پر پائے جانے والے ایسے قدرتی وسائل ہیں جو جغرافیائی طور پر کسی خاص مقام سے تعلق رکھتے ہوں (جیسا کہ سسلی کے لیموں جو ایک مخصوص بلندی پر ہی پیدا ہوتے ہیں)۔
ایسے وسائل نسبتاً لوگوں کے چھوٹے گروہوں کے ہاتھ میں ہوں گے جو خود ان کا تحفظ کریں گے یا جرائم پیشہ افراد کی مدد سے زبردستی ان کا ’تحفظ‘ ممکن بنائیں گے۔
پاپیراکس کہتے ہیں اگر ملک میں نسبتاً حکومت کمزور، قانون کی گرفت ڈھیلی اور چیز آسانی سے سمگل یا ذخیرہ اندوز کی جا سکتی ہو تو وسائل کے منفی اثرات زیادہ تباہ کن ہوتے ہیں۔
اگر معیشت پہلے ہی نسبتاً کمزور ہو تب بھی اس کے اثرات شدید ہوتے ہیں۔ ایک بنیادی عنصر خطے میں مختلف نسلی گروہوں کی موجودگی ہے جو مخاصمت کے شعلوں کو مزید بھڑکا سکتی ہے۔
ہمیں اپنی زمین پر موجود قدرتی وسائل کی نعمت ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے مختلف گروہوں کے ساتھ کیوں بانٹنی چاپیے؟
پروفیسر اولسن کہتے ہیں جہاں تک سسلی کا معاملہ ہے تو اس میں یہ سب لوازمات موجود ہیں۔ مافیا کے کسی رکن کا تحریری شکل میں پہلا ذکر 1860 کی دہائی میں سامنے آتا ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب جزیرے پر افراتفری اپنے عروج پر تھی، اس وقت سسلی پر حکومت کرنے والی آسٹرو ہنگیرین سلطنت کے خلاف بغاوتیں عام اور قانون کی گرفت کمزور تھی۔
’سسلی کی تاریخ میں ہمیشہ جس نے بھی جزیرے پر حکومت کی اس کے خلاف مزاحمت کی طویل روایت موجود رہی اور اس نے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی ثقافت کو پروان چڑھایا‘ بجائے یہ کہ جرائم پیشہ افراد کی اطلاعات حکومت کو کی جائیں۔
وسائل کے منفی اثرات والے دیگر ممالک کی طرح سسلی کو بھی اپنی پوری تاریخ میں مختلف نسلی گروہوں کے درمیان تقسیم کا سامنا کرنا پڑا جو مختلف مقامات سے ہجرت کر کے اس جزیرے پر آئے تھے۔
دنیا بھر میں ایسے کئی خطے ہیں جہاں کسی مخصوص مقامی قدرتی وسائل کی مانگ میں اچانک اضافے سے وہ مسلح جرائم پیشہ گروہوں کی پرتشدد لہر کی لپیٹ میں آ گئے ہوں۔
پورے کولمبیا میں نہ سہی بہرحال اس کے کچھ حصوں میں کوکین کی تیاری میں استعمال ہونے والے پتوں coca leaves کی مانگ میں اضافے سے کئی دہائیوں تک افراتفری مچی رہی۔
افغانستان کے بہت سے مسائل کا تعلق افیون برآمد کرنے سے جوڑا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ٹوسٹ پر اواکاڈو کے جدید ترین غیر روایتی استعمال کی مقبولیت کے بعد منظم جرائم پیشہ گروہ اس تجارت پر قبضہ جمانے سے بھی پیچھے نہیں رہے۔
لیکن وسائل کے منفی اثرات کے حالیہ واقعات میں شاید سب سے زیادہ تباہی کانگو کے شمالی و جنوبی خطوں کیو میں ہوئی۔
خیراتی ادارے ورلڈ ویژن یو کے کے سی ای او مارک شیرڈ کہتے ہیں کہ یہ خطہ ’بیش قیمت معدنیات اور دھاتوں سے بھرا پڑا ہے مثال کے طور پر کولٹن جو بہت سے برقی آلات میں، کیسیٹرائٹ جو قلعی کے بنیادی اجزا میں اور ولفرامائیٹ جو بھاری مشینوں اور سونے کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔‘
نظریاتی طور پر اس فروانی سے یہ دنیا کا مالدار ترین مقام ہونا چاہیے تھا۔ تاہم شیرڈ وضاحت کرتے ہیں کہ ’ان قدرتی وسائل کی اہمیت نے کئی مصلح گروہوں کو پروان چڑھایا جو زبردستی ان قیمتی معدنیاتی مقامات پر قبضہ کرتے اور اپنا تسلط برقرار رکھتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں ان معدنیاتی مقامات کا انتظام اور کام ہی نہیں بلکہ ان اشیاء کی پیداوار اور تقسیم کا سلسلہ بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے اور ان وسائل کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔‘
معدنیاتی وسائل پر انحصار سے کئی مقامی افراد کی زندگیاں خوراک کی کمی کے خدشات اور غربت کے زیر اثر آجاتی ہیں جہاں بچوں کو زبردستی معمولی معاوضے کے عوض کانوں میں کام کرنا پڑتا ہے۔
پھر اس طرح استحصال کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جہاں کانوں کے نزدیک رہنے والے لوگ روز مرہ آمدن کے لیے انہی وسائل پر انحصار کرنے لگتے ہیں بجائے یہ کہ وہ ایسی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کریں جو انہیں طویل مدتی فائدہ پہنچائیں۔
شیرڈ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے ’قدرتی وسائل پر مزید تکیہ کرتے ہوئے مقامی برادریاں اپنے ذرائع آمدن میں تنوع پیدا کرنے‘ سے قاصر رہتی ہیں۔
مزید برآں عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ان خطوں میں قدرتی وسائل پر انحصار کرنے والے لوگوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
عالمی وبا کے دوران تجارتی اشیا کی قیمتوں میں یک لخت کمی کا مطلب ایسے ممالک میں غربت کا مزید اضافہ تھا جو خام مواد بیچ کر گزارہ کرتے ہیں۔
پروفیسر اولسن ذکر کرتے ہیں کہ شمالی و جنوبی کیو جیسے مقامات پر تشدد کو فروغ دینے والے افراد کو اکثر باغی گروہ کہا جاتا ہے۔ تاہم کئی ماہرین اقتصادیات کی رائے ہے کہ انہیں غنڈوں کے گروہ کہنا چاہیے کیونکہ ان کا بنیادی مقصد وسائل کے بدلے رقم بٹورنا ہے۔
بیش قیمت معدنیات یا کسی مخصوص اجناس کی مانگ میں اضافہ ہمیشہ تشدد اور غربت پر منتہج نہیں ہوتا۔ درحقیقت ایسے وسائل سے فیض یاب ہونے والے چند ممالک اس مظہر کے منفی اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
مثال کے طور پر چھوٹے سے ملک ناروے نے کیوں 1967ع میں سمندر سے کچھ فاصلے پر دریافت ہونے والے تیل کے وسیع ذخائر کے بعد خود کو افراتفری سے محفوظ رکھا جبکہ وینزویلا یا نائجیریا جیسے ممالک نے اس تجربے سے خود کو تباہ کر لیا؟ ہیرے برآمد کرنے والے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بوٹسوانا نے کیوں خود کو ایسے ’بلڈ ڈائمنڈ‘ تشدد سے محفوظ رکھا جس نے سب صحارا افریقہ کے کئی دیگر ممالک کو غارت کر دیا؟
کسی حد تک وسائل کے برے اثرات سے محفوظ رہنے والے ممالک خوش قسمت تھے۔ پروفیسر والسن کہتے ہیں جب ہیروں کی دولت دریافت ہوئی اس سے پہلے ہی بوٹسوانا جمہوری خطوط پر استوار تھا۔
یہاں بھاری اکثریت سے ٹسوانا لوگ ہی آباد ہیں اس لیے یہ واضح طور پر ایک ہی نسلی گروہ پر مشتمل ملک تھا۔ نتیجتاً یہاں ایسی پرخاش کا امکان بہت کم تھا کہ اس خزانے کے ثمرات کیسے تقسیم ہوں
پرفیسر پاپیراکس پہلے سے موجود جمہوریت اور مضبوط حکومت کے علاوہ کچھ اور چیزوں کی بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ ناروے جیسے ممالک تیل کی دریافت سے پہلے بھی نسبتاً مضبوط اور متنوع معیشت کے مالک تھے۔
اس کا مطلب ہے ناروے کے لوگوں نے اچانک تیل سے حاصل ہونے والی آمدن پر ہی سارا دارومدار نہیں کیا بلکہ اس کے بجائے انتہائی دانش مندی سے اسے بطور سرمایہ کاری استعمال کیا۔ (خود مختار مالی فنڈز کے حساب سے ناروے اس وقت دنیا کے چوٹی کے ممالک میں سے ایک ہے)۔
لیکن جو ممالک پہلے ہی وسائل منفی اثرات کا شکار ہو چکے ان کا کیا حل ہے؟ جن ممالک میں پہلے ہی حکومت کمزور اور قانون کی حکمرانی بدتر ہے ان میں منظم جرائم پیشہ گروہوں کی پرورش روکنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
فیدم سے منسلک اینڈریو ہیرس کہتے ہیں ’زیادہ تر ادب شاید آپ کو یہی بتائے گا کہ ترقی پذیر معیشتوں میں شامل بہت سے دیگر عوامل کی طرح یہ بھی مکمل طور پر اداروں پر منحصر ہے۔ حکومت کا اعلی معیار ہی زمین کے مالکانہ حقوق (جیسا کہ کان کس کی ملکیت ہے) کی اہمیت سمجھ سکتا ہے اور اس پر عمل درآمد ممکن بنا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے حصول کا کوئی آسان راستہ مجھ پر بھی واضح نہیں۔’
بہرحال ایسے ادارے وجود میں آئے جو اس مسئلے کے حل کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اکسٹریکٹیو انڈسٹریز ٹرانپیرنسی انی شیٹو کی بنیاد 2003ع میں پڑی اور اس کا مقصد قدرتی وسائل سے مالامال ممالک میں کرپشن کا خاتمہ اور شفافیت کا فروغ تھا۔
اس کے بنیادی طریقوں میں سے ایک معدنیات نکالنے والی کمپنیوں کو یہ کہنا ہے کہ انہوں نے مقامی حکومت کو جو ٹیکس ادا کیا اسے شائع کر دیں۔ حکومت کو جو موصول ہوتا ہے وہ بھی چھاپ دیتی ہے۔
سیاستدانوں اور حکام کو رقم خفیہ طریقے سے غیر ملکی اکاؤنٹس میں بھیجنے سے روکنے کا مقصد کرپشن سے نمٹنا ہے۔ اگر لوگوں کو یقین ہو کہ وسائل سے حاصل ہونے والی ساری رقم حکومت کے اپنے خزانے میں ہی جا رہی ہے تو وہ زیادہ پرامید ہوسکتے ہیں کہ اس کی تقسیم منصفانہ ہو گی۔
اس سے گروہوں میں کم تعصب پیدا ہوتا ہے اور اس کا مطلب ہے اب تشدد پر آمادہ کرنے والا محرک بھی ہم ہے۔
کانگو میں ورلڈ ویژن بچوں کے استحصال کے خلاف شراکت داری (Partnership Against Child Exploitation) کے نام سے براہ راست عملی اقدامات کر رہا ہے جس کا مقصد شیرڈ کے مطابق بچوں اور مقامی برادریوں کو مضبوط بنانا اور اپنے حقوق کے متعلق بہتر شعور دینا ہے۔
دیگر سرگرمیوں کے ساتھ اس شراکت داری کا مقصد مقامی برادریوں میں چائلڈ لیبر کی جگہ متبادل (جیسا کہ تعلیم) اپنانے، قانون اور پالیساں وضع کرنے کی فضا بہتر کرنے اور اور اشیا کی برآمدگی سے پہلے معاہدوں میں محتاط رویہ اختیار کرنے کا شعور پیدا کرنا ہے۔
چند سال پہلے میں چھٹیاں گزارنے سسلی گیا اور رات آوارہ گردی کے اختتامی لمحات میں ایک پیزا ہٹ کی بالکنی میں بیٹھا اس جزیرے کا مشہور پین پیزا کھا رہا تھا۔
پلاسٹک کی میزوں کے ارد گرد نوجوانوں کے جھرمٹ پیزے اور ایرانسیسی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گرم رات کی ہوا کے سنگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
اچانک پوری بالکنی کو اس وقت سانپ سونگھ گیا جب سفید لباس میں ملبوس ایک بوڑھا آ کر بیٹھا اور مخمور انداز میں لفظوں کو چباتے ہوئے بولنے لگا۔
میں نے ایک نظر اس پر ڈالی اور جب مڑ کر واپس دیکھا تو تمام نوجوانوں سانس روکے تیزی سے جا رہے تھے۔
سفید لباس میں ملبوس وہ شخص کسی مافیا کا رکن تھا یا نہیں، میں پوری طرح کبھی نہیں جان پاؤں گا لیکن ماحول پر طاری خوف بہت واضح تھا۔
دو سو برس قبل لیموں کی طلب میں اضافے سے پیدا ہونے والی جرائم پیشہ تنظیم کا آج بھی عوامی شعور پر ایسا تسلط دیکھنا خوفناک تجربہ تھا۔
آج دیگر ممالک جو وسائل کے ایسے ہی منفی اثرات کا شکار ہیں، وہ ایسی صورت حال سے بچنے کی محض توقع ہی کر سکتے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو