احساس ایک بڑی نعمت اور قیمتی شے ہے جس کا ہر انسان کے اندر ہونا نہایت ضروری ہے، اسلئے اس کا ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ گائیڈڈ کا کام کرواتا ہے۔ آنکھوں سے کسی چیز کے دیکھنے کو دل و دماغ میں محسوس کرنا احساس کا نام ہے، اسی طرح کانوں سے سننے کو دل ودماغ میں محسوس کرنا اور کسی چیز کے چھونے کو بھی دل و دماغ میں محسوس کرنا احساس ہے ۔ ان کے ساتھ ساتھ میں احساس کو کسی کام کروانے اور نہ کروانے کا نام بھی دیتا ہوں، کیونکہ احساس کسی کام یا عمل کرنے اور نہ کرنے کا نام ہے جس سے کسی کام یا عمل کرنے کا رہنمائی ملتی ہے اگر ہم احساس کو رہنما یعنی لیڈر کے طور پر پیش کریں تو غلط نہیں ہوسکتے کیونکہ احساس رہنمائی کرنے کے زمرے میں آتا ہے جو اچھے کام کروانے اور برے کام نہ کروانے کا رہنمائی کرتا ہے۔
مثال کے طور پر والدین کے ساتھ تواضع و انکساری اور اکرام و احترام کے ساتھ پیش آنا حسنِ سلوک ہے یعنی اچھا کام اور نیک عمل ہے یہ کام اور عمل کرواتا ہےاور والدین سے برے سلوک کے ساتھ پیش آنا برا فعل اور غلط عمل ہے اس سے رکواتا ہے۔ اگر احساس زندہ نہ ہو تو معاشرے میں رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے، خواہ وہ رشتہ بہن بھائی کا ہو یا ماں باپ کا اپنے بچوں کے لئے یا بچوں کا اپنے ماں باپ کے لئے ہوں یا کسی کا اپنے وطن سے محبت اور وفاداری کا ہو ان سب کا دارومدار احساس پر ہوتا ہے۔ بہرحال زندگی کی معیار کو لطف اور مٹھاس بنانے، رشتوں کو مظبوط اور قوی بنانے اور مٹی سے وفاداری کا جزبہ پیدا کرنے کے لئے احساس کا پہلا اور اہم کردار ہوتا ہے، جس کی خوبصورتی، محبت اور کشش انسان کو اپنے سے پیوست کرتا ہے۔
احساس دوسرے انسان کے لئے انسان کے دل میں ہمدردی کا جزبہ بھی پیدا کرتاہے، مثال کے طور پر اگر کسی شخص کا کسی سڑک پر ایکسیڈنٹ ہوا ہے وہ بے یارومددگار پڑا ہے اور وہ اپنے زخموں کی وجہ سے انتہائی دردناک کیفیت میں مبتلا ہے، جب کوئی شخص اس کو اس حالت میں دیکھے تو وہ اپنے تئیں اس شخص کی مدد کرنے کی سعی کرتا ہے تاکہ اس شخص کی تکلیف کو کم کیا جاسکے، کیونکہ یہ اس شخص کا احساس ہے جو اس بے یارومددگار شخص کی مدد کرنے کے لیے اس شخص کو مجبور کرتا ہے۔ اسی طرح اپنے یا کسی اور کے غم، خوشی، دکھ و درد، پریشانی اور تکلیف کو محسوس کرنا احساس ہے۔ کیونکہ احساس بنیاد ( Foundation ) ہے جس سے محسوس کا اجرا ( Emanation ) ہوتا ہے۔ بینادی طور پر ہم عقل کی کوالٹی سے چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں اور پہچان سکھتے ہیں کیونکہ ریشنل کوالٹی میں یہ قابلیت ہے جس سے ہم سچ اور جھوٹ کو پہچان سکتے ہیں، درست اور غلط کو پہنچان سکتے ہیں جن میں عقل کارفرماں ہوتی ہے پھر معقولیت کے ہتھیار سے لیس ہو کر آگے بڑتے ہیں۔ کیونکہ عقل پہلا دماغی استعداد ایجنٹ (First Agent Intellect ) ہے, جو زہنوں کو منور کرتی ہے, جس سے ہم چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں۔
یہاں میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ بے احساسی انسان کا اپنا دشمن بھی ہے اور دوسروں کا یکساں دشمن بھی، کیونکہ احساس کا مرجانا بہت تکلیف دیتی ہے اور احساس کے مرنے کے ساتھ ضمیر بھی مرجاتی ہے احساس اور ضمیر کا مرنا معاشرے میں بگاڈ پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں، اور معاشرتی اقداروں کا بگڑنا سب پر گراں گزرتا ہے جو انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے جب احساس زندہ ہے تو معاشرہ زندہ ہے جب احساس مرتا ہے تو معاشرہ مرتا ہے جب معاشرہ مرتا ہے تو بنی نوع انسان مرجاتاہے۔ احساس ایک فطری شے ہے جو پیدائشی طور پر انسان کے اندر وجود رکھتا ہے جب انسان دنیا میں قدم رکھتا ہے جوں جوں سیھکنے کے عمل سے گزرتا جاتا ہے تو احساس کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتاہے۔ مگر بد قسمتی سے ہر انسان میں احساس نہیں ہوتی ہے، جس انسان میں احساس نہ ہو اس سے امیدیں لگانا خود کو دھوکہ دینے کا مترادف ہے۔ احساس نہ ہونا انسان کو بے حِس بناتا ہے جس سے انسان پژ مردہ ہوتا ہے۔ احساس دنیا کی بڑی مہنگی چیز ہے جس کو نہیں خریدی جاسکتی ہے اگر ایک انسان میں احساس ہو تو اس کا احساس اس کو دوسرے انسان کے احساسات کو سمجھنے کا قابل بناتا ہے۔ یعقیناٙٙ خود میں احساسات ہونا اور دوسرے انسان کے احساسات کو سمجھنا نیک شگون ہے۔
احساسات کا کنٹرول اچھا نفس اور برا نفس پر ہوتا ہے ( Good self and evil self ) اچھا نفس انسان کو اچھائی کی طرف راغب کرتا ہے جب احساس برا نفس کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوجائے تو پھر انسان برے کاموں کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔
نفس کے محتلف آقسام اور مراحل ہوتے ہیں مثلاٙٙ ( نفس امارہ ) نفس امارہ انسان کو غلط اور برے کاموں کی تلقین کرتاہے, نفس امارہ انسان میں حسد، غصہ، تکبر اور جہالت پیدہ کرتا ہے جس سے انسان برے کاموں اور بے راہ روی کی طرف چلتا ہے جو کہ صریحاٙٙ گمراہ ہوجاتا ہے۔ اور انسان جانوروں اور حیوانوں جیسے سفاکیت پر اتر جاتا ہے، اس لئے اس نفس کی خواہشوں، چاہتوں اور سراب سے بچنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ نفس انسان کا دشمن ہے اور اس کے نتائج منفی نکلتے ہیں۔
دوسرا ( نفس لوامہ ) ہے جب انسان سے کوئی بُرا کام سرزد ہوجاتا ہے تو نفس لوامہ کی وجہ سے انسان شرمندگی محسوس کرتا ہے انسان سخت نادم ہوجاتاہے، انسان اپنی شرمندگی اور ندامت کے خوف سے ائیندہ غلط رویوں کا شکار ہونے سے محفوظ رہنے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ انسان سے برُے کام انجام پانے سے نفس لوامہ انسان کو انتہائی ملامت کرتا ہے۔ جس سے انسان کا احساس انسان کی ضمیر کو حرکت میں لاتا ہے پھر انسان بُری خصلتوں اور رغبتوں سے گریزاں رہتاہے۔ اس مقام پر انسان کو اچھے اور نیک کاموں سے محبت ہوجاتی ہے۔
تیسرا ( نفس ملہمہ ) ہے نفس ملہمہ سے انسان اچھائی اور نیکی کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس سے انسان اچھائی اور برائی کا امتیاز شروع کردیتا ہے۔
چھوتا ( نفس مطمئنہ ) ہے نفس مطمئنہ نہایت خصوصیات کا حامل نفس ہے جس سے انسان اطمینان، سکون اور آرام حاصل کرتا ہے۔ نفس مطمئنہ کی اعلیٰ اوصاف نفس راضیہ، نفس مرضیہ اور نفس کاملہ ہیں کیونکہ جس سے انسان کسی بھی حالت میں ہو غم، پریشانی اور خوشی میں لیکن وہ اللہ رب العزت سے راضی رہتا ہے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کا طلب گار رہتا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کو حاصل کرنے کے لئے اچھے اور استقامت کے ساتھ نیک اعمال کرتاہے، یہاں تک وہ اللہ کے لئے اپنے وجود کو قربان کردیتا ہے۔ جب انسان اپنے وجود کو اپنے رب کی رضا میں فنا کردیتا ہے تو وہ نفس مرضیہ کے مقام پر پہنچ جاتاہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس سے راضی ہوجاتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ پاک کا کامل بندہ ہے۔ جب انسان نفس امارہ میں گرفتار ہے وہ نفس کاملہ میں فائز نہیں ہوتا ہے جب انسان نفس کاملہ کے مقام پر پہنچتا ہے تو وہ اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور اللہ پاک کی قربت کو پانے سے انسان کامیاب ہوجاتا ہے۔ ہم دنیاوی زندگی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے تگ و دود میں مصروف عمل ہیں، مگر دنیاوی مقاصد کے حصول کے ساتھ ہم سب اللہ کی قربت کو زیادہ حاصل کرنے کی محنت اور کوشش بھی کریں کیونکہ ہم سب کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے جس کو دنیا میں کئے گئے اپنے اعمال کا حساب و کتاب دینا ہوگا۔
بہر کیف کسی اعلیٰ مقام پر پہنچنے اور اچھی زندگی بسر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر احساس پیدا کرے، کیونکہ احساس کے بغیر انسان حقیقی زندگی کی اصلیت سے وا قف ہونے سے کوسوں دور رہتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان احساس کے بغیر مکمل نہیں ہے بلکیں ادھورا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ احساس کے بغیر انسان نہ دنیاوی زندگی اور نہ دینوی زندگی کے اغراض و مقاصد کو سمجھے گا اور نہ آخرت اس کو راس آئے گا۔ لحاظہ نفوس کی صعوبتوں سے مبّرا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ بے لگام نفسانی خواہشات کے غلام بننے سے انسان سلگتے مسائل، اقدار کی پامالی اور اخلاقی انخطاط کا شکار ہوکر زوالِ پزیر ہوجاتا ہے۔ ایسے سلگتے مسائل سے ہم چھٹکارہ پا سکتے ہیں جب ہم احساسات، عقلِ سلیم، کامل شعور اور غور و فکر سے زندگی کو تطہیر اور مزین بنانے کی انتھک کوشیشیں کریں۔ اس طرح احساسات تاریخ کے اوراق پر مثبت اور گہرے نقوش چھوڈینگے۔