یہ قرت العین ہے!

محمد خان داؤد

اسے غیرت آئی اور اس نے بھونکتی بندوق سے قرت العین کا سینہ چھلنی کر دیا..
اسے قتل کر دیا..
معلوم ہونے سے پہلے ہی اس نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لی کہ
وہ ”کا ری تھی!“

قتل ہوجانے والی لڑکی کے بھائی نے کہا ہے کہ ”وہ کاری نہیں تھی پر قاتل خود ہی موالی اور آوارہ ہے!“

اب اس تضا د پہ کیس چلے گا.. وکیل پیسے لے کر دلیل دیں گے.. گواہ گواہیاں دیں گےاور جج فیصلہ کرے گا..
پر پوری عدالتی کاروائی میں وہ مقتول لڑکی موجود نہیں ہو گی۔ اس کیس کا بنیاد موجود نہیں ہوگا۔ اس لیے مجرم سے لے کر گواہوں تک جس کا جو جی چاہے گا، جو دل کہے گا وہ وہی کریں گے اور کہیں گے۔ اس یقین سے کہ مُردے تردید نہیں کرتے۔ملزم بلکہ مجرم کو یہ یقین ہے کہ وہ غیرت کی آڑ میں بچ جائے گا!
اس لیے میں یہ کالم مقتول لڑکی کے بجائے غیرت پہ لکھنا چاہتا ہوں..
غیرت جس کی اوٹ میں مرد بچ جا تے ہیں اور عورتیں مر جا تی ہیں۔ اور ان کے قتل مردوں کو معاف کر دیے جا تے ہیں۔
اکثر تو یہ قتل عدالتوں تک پہنچتے ہی نہیں۔ اس لیے میں سمجھنا چاہتا ہوں کہ غیرت کیا ہے؟ وہ بس مَردوں کو کیوں آتی ہے؟
ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ کوئی لڑکی غیرت میں آکر کلھاڑی سے اپنے مرد کی گردن کو تن سے جدا کر کے خون آلود کلھاڑی کو صوبیدار کی ٹیبل پہ رکھ کر کہتی کہ ”میرا شوہر کارا تھا، میں نے غیرت میں آکر اسے قتل کر دیا ہے!“
اور وہ غیرت کی آڑ لے کر بچ نکلے۔
پر یہ ممکن نہیں کیوں کہ غیرت بس مردوں کی جاگیر ہے اور اس کی حد بس گھر کی چوکھٹ تک ہوتی ہے۔

معلوم نہیں یہ مرد اپنی غیرت اس وقت کہاں چھوڑ آتے ہیں جب وہ وئشیا گھروں کی گلیوں میں اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر رُلتے نظر آتے ہیں۔ اور جب ایسے موقعوں پر پولیس کا چھاپہ پڑتا ہے تو ان کی تصویریں پولیس سپاہیوں کے ساتھ اخباروں میں چھپتی ہیں۔
میں نے کبھی یہ نہیں سنا کہ ایسے مردوں کو کارا کر کے قتل کیا گیا ہو۔ پر یہی مرد جب اپنے گھروں میں ہوتے ہیں تو معمولی باتوں پر اپنی عورتوں کو مار مر کر ان کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں۔

ایسے مردوں کی ایسی روش کو دیکھ کر امریکا کے نوبل یا فتہ ادیب جان اسٹین نے اپنے ناول ”دی پرل“ میں لکھا تھا کہ
”مرد آدھا پاگل اور آدھا خدا ہوتا ہے!“

سالن میں نمک کم ہونے پر وہ عورت کو پلیٹ پھینک کر مارتا ہے ۔اور جب اسے عورت کا کوئی جواب اچھا نہیں لگتا تو وہ عورت کو بالوں سے کھینچ کر آنگن میں گھسیٹتا ہے اور اس کے سر کو دیواروں سے ٹکرا کر اسے لہو لہو کر دیتا ہے۔ پر انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہوتا۔کسی کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ ان کے ہاتھوں کو روکے۔بس گھر کے چھوٹے معصوم بچے رو تے رہتے ہیں اور ایک غیرت مند مرد ایک کمزور عورت کو غیرت کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔

وہی مرد تھانے میں پولیس کے ہاتھوں جانوروں کی طرح پٹتا ہے پر اسے غیرت نہیں آتی۔
اس کے مونچھیں نوچی جا تی ہیں پر اسے غیرت نہیں آتی۔
اسے مرچ ڈالے جاتے ہیں، اسے غیرت نہیں آتی۔
اسے بس اپنی سب سے قریب رشتے والی عورت پر غیرت کا جن چڑہتا ہے..

مجھے نہیں معلوم کہ ”کاری“ کا الزام وہ مرد عورت پر قتل کرنے سے پہلے لگاتے ہیں یا بعد میں؟
پر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ ”کا ری“ ایک ایسی چادر ہے جو مردوں کے منہ پر نقاب ڈال دیتی ہے۔ شاید وہ الزام کالی چادر سے اوپر کا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ”کا ری” بذاتِ خود ہمارے سماج کا ایک قانون ہے۔ وہ قانون جس کے استعمال کا حق ہرہر مرد کو ہے اور یہ عدالتیں بھی مرد کی اس جنونی کیفیت کو رعایت کی نظروں سے دیکھتی ہے۔

ا س طرح آج تک سیکڑوں عورتیں، سیکڑوں معصوم لڑکیاں کلھاڑیوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوتی رہی ہیں۔ اور مرد اپنی خونی کاروائیوں کو پورا کر کے مونچھوں کو تاؤ دے کر اس بات کا اعلان کرتے رہیں ہیں کہ یہ انہوں نے غیرت کے نام پہ کیا ہے۔

ایسے ماحول میں وہ بھائی جن کی بہنیں قتل ہو جاتی ہیں، چیختے رہتے ہیں کہ "وہ کا ری نہیں تھی” پر ان کی ایسی چیخ کو کوئی نہیں سنتا۔

ایسی لڑکیوں کے قتل کے بعد غیرت مند مرد کسی اور لڑکی کی تلاش میں نکلتے ہیں.. سہرہ باندھ کر ہاتھوں میں مہندی لگی کسی اور رانی کو گھر لے آتے ہیں۔ اور وہ رانی بھی مستقل اسی خوف اور ڈر میں رہتی ہے کہ
"اس پہ کبھی بھی کاری کا الزام لگ سکتا ہے اور وہ بھی لہو لہو ہو سکتی ہے..”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close