پنجاب میں مارچ کے مہینے میں بہار کی آہٹ ہر طرف سُنائی دیتی ہے۔ درختوں پر نئی کونپلیں اور رنگا رنگ پھول منظروں کو خوش نما بنا دیتے ہیں۔ مارچ کے اسی مہینے میں سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک سکھ گھرانے کے آنگن میں بھی ایک پھول کھِلا تھا۔ اس وقت کسِے خبر تھی کہ اس پھول کی مہک ایک عالم کو اپنا اسیر بنا لے گی۔ بچے کی پیدائش پر خوشیاں منائی گئیں لیکن ایسے میں بچے کی ماں کو اپنے شوہر کی کمی بُری طرح محسوس ہوئی جس کا انتقال بچے کی پیدائش سے چار ماہ قبل ہو گیا تھا۔ اب بچے کی پرورش کا ذمہ دادا نے لے لیا، لیکن دو ماہ بعد ہی بچے کے دادا کا انتقال ہو گیا۔ تب بچے کی ماں اسے لے کر اپنے والدین کے گھر ڈیرہ غازی خان چلی گئی۔ ماں کی آرزو تھی کہ اس کا لعل لکھ پڑھ کر بڑا آدمی بنے۔ بچے کو اسکول داخل کرایا گیا۔ جہاں اس نے اپنی ذہانت اور شوقِ مطالعہ سے اپنے اساتذہ کو حیران کر دیا۔
اساتذہ نے دیکھا اس بچے کا رجحان تاریخ، فلسفہ اور ریاضی کی طرف ہے۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اس بچے میں غیرمعمولی صلاحیتیں ہیں۔ کہتے ہیں، کتابوں کی دنیا عجیب دنیا ہوتی ہے۔ زمانوں کی دانائی چند صفحات میں سمٹ آتی ہے اور پھر کوئی کتاب ایسی بھی ہوتی ہے، جو پڑھنے والے کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ اس بچے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک دن اس کے ہاتھ ایک کتاب لگی، جس کا نام ”تحفۃ الہند‘‘ تھا۔ اس کے مصنف کا نام عبیدﷲ تھا۔ کتاب کی کہانی مصنف کی ذاتی داستان تھی کہ کس طرح وہ ہندو برہمن سے مسلمان بن گیا۔ کتاب میں مصنف نے ہندو مذہب کے بارے میں کئی سوالات اُٹھائے تھے۔ اس کتاب کے مطالعے نے بچے کی زندگی میں ہلچل پیدا کر دی۔ اس نے اس کتاب کا مطالعہ اتنی بار کیا کہ وہ اسے زبانی یاد ہو گئی تھی۔ اس کے واقعات، اس کا اسلوب، ہندو مذہب کے بارے میں سوالات سب اس کے نوخیز ذہن کی دنیا بدل چکے تھے۔ اسے یوں محسوس ہوا یہ کتاب جیسے اسی کے لیے لکھی گئی ہو۔ وہ چوری چھپے اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں پڑھنے لگا۔ کوئی شوق تھا جو اس بچے کو ایک نئے سفر پر لیے جا رہا تھا۔ تب ایک اور واقعہ ہوا، جس نے اس کے شوق کی چنگاری کو شعلے میں بدل دیا۔ اس بار بھی یہ کام ایک کتاب نے کیا۔ یہ کتاب شاہ اسمٰعیل شہید کی ”تقویۃُ الایمان‘‘ تھی۔ کتاب کے مطالعے سے اس کے یقین کی دنیا اور مستحکم ہو گئی۔ اب بچے کی عمر پندرہ برس ہو چکی تھی اور اسے اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ وہ جس منزل کی تلاش میں ہے وہ اس کے سامنے ہے۔ اس نے گھر والوں سے چوری چھپے رمضان کے روزے رکھنا شروع کر دیے۔ گھر والوں کو پتا چلا تو اس کی خوب سرزنش ہوئی۔ اب صورتحال عجیب سی ہو گئی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ اگر وہ مزید اس تضاد بھری زندگی میں رہا تو اس کا جینا دوبھر ہو جائے گا۔ پھر اس کے ذہن میں ایک خیال آیا کیوں نہ میں اپنا گھر چھوڑ دوں اور کسی ایسی جگہ چلا جاؤں جہاں اپنی سوچ کے مطابق عمل کر سکوں۔ پھر اسے اپنی ماں کا خیال آیا، جس نے اسے لاڈ پیار سے پالا تھا۔ وہی اس کی امیدوں کا مرکز تھا۔ چند دن یونہی سوچ بچار میں گزر گئے۔ آخر اس نے اپنی زندگی کا ایک کڑا فیصلہ کر لیا اور ایک رات چپکے سے گھر سے نکل آیا۔ اس کی منزل مظفر گڑھ کا گاؤں کوٹلہ شاہ تھی۔
وہ 29 اگست کا دن اور 1887ع کا سال تھا، جب اس نے ایک تقریب میں باقاعدہ اسلام قبول کر لیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے دل کی بے قرار دھڑکنوں کو قرار آ گیا ہے۔ جب اس کا اسلامی نام رکھنے کا وقت آیا تو اسے ”تحفۃالہند‘‘ کے مصنف عبیدﷲ کا خیال آ گیا جس نے اس کی زندگی کو بدل کے رکھ دیا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اس کا نام عبیدﷲ ہو گا۔ یہی عبیدﷲ سندھی بعد میں بر صغیر میں ایک ممتاز عالمِ دین اور تحریکِ آزادی کے مجاہد کے طور پر معروف ہوئے، لیکن یہ تو ذرا بعد کی باتیں ہیں۔ ابھی تو کم سِن عبیدﷲ نے کئی پُر خار راستوں کا سفر کرنا تھا۔
ادھر اس کے باقاعدہ اسلام قبول کرنے کا اعلان ہوا، اُدھر اس کے رشتے دار ڈھونڈتے ڈھونڈتے کوٹلہ شاہ آ پہنچے اور اسے گھر واپس جانے کے لیے کہا، لیکن اب عبیدﷲ اپنی منزل کا تعین کر چکا تھا۔ اس نے تمام تر کوششوں کے باوجود گھر جانے سے انکار کر دیا اور نئے سفر کے نئے منظروں کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔ اس نے عربی زبان اور اس کے قواعد پر مزید کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا۔ تب اسے ایک روحانی رہنما کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس کی طلب اسے سندھ میں شیخ المشائخ حافظ محمد صدیق بھرچونڈی کے پاس لے آئی۔ یہ وہی حافظ صدیق تھے جنہیں شاہ اسمٰعیل شہید کی محفلوں میں بیٹھنے کا شرف حاصل تھا۔ عبیدﷲ سندھی نے تقریباً دو ماہ یہاں قیام کیا۔
علم کی پیاس انہیں ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف لے جا رہی تھی۔ اس زمانے میں سفر آسان نہ تھے لیکن کوئی شوق تھا جو ان کا رہبر تھا، اور اس شوق کی انگلی پکڑے وہ نئی منزلوں کی طرف رواں تھے۔ ان کی اگلی منزل مظفر گڑھ تھی، جہاں انہوں نے مولانا خدا بخش سے نحو کی تعلیم حاصل کی۔
یہ 1888ع کا سال تھا، جب عبیدﷲ سندھی کی زندگی میں ایک اور موڑ آیا، جس نے ان کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔ یہ وہ سال تھا جب ان کی علم کی پیاس انہیں دارالعلوم دیو بند کی دہلیز پر لے آئی تھی۔ منطق اور فلسفہ کی تعلیم ان کے بچپن کا شوق تھا اور اب دارالعلوم دیو بند اس شوق کی تکمیل کا ذریعہ بن رہا تھا۔ عبیدﷲ سندھی کو مطالعے کا جنون تھا لیکن بعض اوقات انہیں یہ احساس ہوتا کہ بہت سی کتابیں پڑھنے کے لیے بہت سا وقت چاہیے اور ان کے پاس مطالعے کے لیے وقت کم ہے۔ تب ان کے ایک عربی استاد نے انہیں بتایا کہ کتاب پڑھنے کی تکنیک کیا ہے اور ہم کیسے مختصر وقت میں زیادہ کتابوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ بعد میں یہ تکنیک ان کے بہت کام آئی۔ عبیدﷲ سندھی اپنی آپ بیتی ”سرگزشتِ حیات‘‘، جو عربی زبان میں ہے اور جس کا خوب صورت اور با محاورہ اردو ترجمہ مفتی عبدالخالق رائے پوری صاحب نے کیا ہے، میں لکھتے ہیں، انہوں نے کتابوں کے مطالعے کی تکنیک جو اپنے عربی استاد سے سیکھی تھی کی مدد سے زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھیں، لیکن اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے غوروفکر (Reflection) کو اپنی عادت بنا لیا تھا۔ یوں وہ کتاب یا استاد کی اندھی تقلید کے قائل نہیں تھے۔ عبیدﷲ سندھی کی یہ بات تعلیم کا اصل جوہر ہے۔ طالبِ علم کے اندر سوچ بچار کی صلاحیت کی بیداری ہی تعلیم کا مقصدِ اوّل ہے۔
دارالعلوم کے شب و روز یونہی گزر رہے تھے کہ ایک روز خبر ملی کہ اب انہیں ایک نئے استاد پڑھائیں گے۔ عبیدﷲ سندھی کے پوچھنے پر ان کے ساتھی نے بتایا کہ استاد کا نام شیخ الہند محمودالحسن ہے۔ شیخ الہند کا نام سن کر عبیدﷲ سندھی کے اندر بہار کے رنگ بکھرنے لگے۔ شیخ الہند کی کلاس میں بیٹھنا ہی ایک اعلیٰ ترین اعزاز کی بات تھی۔ اس وقت عبیدﷲ سندھی کو کیا خبر تھی ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ تاجِ برطانیہ کے خلاف مزاحمت میں وہ شیخ الہند کے دستِ راست ہوں گے، لیکن آج تو انہیں اپنے ہم جماعتوں سمیت شیخ الہند کی کلاس کا بے تابی سے انتظار تھا جو کچھ ہی دیر میں شروع ہوا چاہتی تھی۔ (جاری ہے)
بشکریہ تجزیہ