تیرا خوشہ خوشہ نوچوں، تیرا گوشہ گوشہ لُوٹوں!

نجم الحسن عارف

توشہ خانہ کی ادھوری، منتخب اور مبینہ طور پر پُرکاری سے تیار کی گئی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کر دی گئی ہے۔ یہ رپورٹ 21 برسوں کی ’لوٹ مار‘ کا ایک پہلو سے ذکر ہے، پچھتر برسوں کی کہانی نہیں۔ 466 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ ’سب ہڑپ کر جاؤ‘ کا ایک شاہکار ہے!

اس رپورٹ میں وہ بھی فیض یاب نظر آتے ہیں، جو ’فیض‘ والے نہیں بلکہ ’بے فیض’ مانے جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ حلوائی کی دکان پر نانا جی کے ختم سے زیادہ کھلا ہاتھ مارا گیا ہے۔ وزرائے اعظم، صدور مملکت، وزراء اور دیگر کے فیضِ عام پانے اور جام لنڈھانے کے نہیں تو کم ازکم انناس کے آب شیریں کے مزے اڑانے کی دلربا داستان موجود ہے

وزرائے اعظم کے اہل خانہ کے لیے تو فطری طور پر پاک وطن کا توشہ خانہ شِیرِ مادر تھا۔ اس لیے پاکپتن والوں کی بھی اس بارے میں کافی داستانیں سامنے آئیں۔ اس سے ریاست کے چوتھے ستون کے کئی معزز ناموں نے بھی خوب ابن الوقتی کی ہے۔ البتہ انہیں گھڑی چوری کی پھبتی کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے کہ یہ بہت گھسی پٹی سی اصطلاح بن چکی ہے۔ ویسے بھی معاملہ صرف گھڑی چوری کا نہیں گھڑیوں کی گھڑی گھڑی چوریوں کا ہے۔ اس رپورٹ کو دیکھا جائے تو گھڑی چور کوئی ایک فرد نہیں، اشرافیہ کی پوری قطار کا گھڑی چوروں میں شمار ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ چور چور اور گھڑی چور کی آوازے کسنے والے بھی اس حمام میں پوری طرح ننگے ہیں

لیکن اہلِ صحافت نے بوجوہ ان کی پردہ داری رکھی ہوئی ہے۔ خود ان اہلِ صحافت میں ایک نام ایسا بھی ہے، جو اس وقت پنجاب کی نگران حکومت کا سربراہ ہے۔ نگران حکومت کی حالت بظاہر گھڑی دو گھڑی کی ہوتی ہے۔ لیکن جس سرعت اور صفائی سے نگرانِ اعلیٰ پنجاب نے آتے ہی گھڑی اٹھائی ہے۔ اس کی دہائی ہے بھئی دہائی ہے۔ اس ’محسنِ پنجاب‘ کی کیا خوبصورت کلائی ہے اور کس ہاتھ کی صفائی سے اس کلائی پر نئی نویلی رولیکس سجائی ہے

توشہ خانہ رپورٹ میں سابق صدور اور سابق وزرائے اعظم کے ان ادوار کو فی الحال اخفاء میں رکھنے کی حکمت عملی اپنائی ہے، جن میں ’ٹین پرسنٹ‘ اور ’نیکلس‘ بڑے مشہور ہوتے رہے ہیں۔ سچی بات یہی ہے کہ زیادہ مزے کے وہی دور تھے، جنہیں فی الحال اخفاء میں رکھا گیا ہے۔ جب حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کے ہی نہیں آس پاس والوں کو بھی کھل کر کھانے کا موقع ملا رہا اور کبھی توشہ خانہ کی خبر باہر نہ آ سکی۔ اگرچہ ان ادوار میں اپنے مخالفین کو گندا کرنے کے لیے احتساب بیورو بنایا گیا اور پھر نوبت نیب تک پہنچ گئی۔ لیکن توشہ خانہ کا خوشہ خوشہ نوچنے والوں کا کبھی ذکر سامنے نہیں آیا۔ وجہ صاف تھی کہ اس مالِ مفت پر سب بےرحمی سے ٹوٹے پڑتے تھے

اہم بات ہے کہ اس رپورٹ میں اکثر سفارتی و عسکری ضرورتوں کے پیشِ نظر امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے دوروں پر رہنے والے ملک و اقتدار کے اصل مالکان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ وجہ حکومت کا اخلاقی، سیاسی یا ڈھانچہ جاتی ضعف بنا ہے یا خدانخواستہ رپورٹ کے ضخیم ہو جانے کا خوف آڑے آیا ہے کہ اس طرح رپورٹ کی ایک سے زائد ضخیم جلدوں کی ضرورت پڑ جاتی۔ البتہ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیر اعظم میں موجود حاضر سروس فوجی حکام اور ان کے گھر والوں نے توشہ خانہ پر جس طرح ہاتھ صاف کیا ہے، اُس کی خبر اس رپورٹ میں شامل ہے

وطن عزیز کی معیشت آج سے نہیں سالہا سال سے قرضوں میں ڈوبی ہوئی معیشت ہے۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز ان قرضوں کی ادائیگی کرنے کی سکت سے بھی عاری ہے۔ حتیٰ کہ قرضوں کی وجہ سے عائد سود کی ادائیگی کے لیے بھی مزید قرضوں کا محتاج رہتا ہے۔ نتیجتاً حکومت کی شناخت ہر جگہ بھکاری کی بن کر رہ گئی ہے۔ وطن عزیز کے اس حال کو پہنچنے کی بھی وجوہات ہیں کہ اس کے با اقتدار اور با اختیار حکمران، اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ اس کا خون جونکوں کی طرح چوس رہے ہیں۔ توشہ خانہ ملک کا خون چوسنے والوں کی ایک مختصر کہانی ہے

ایک طرف عام لوگ ہیں، جن کی چالیس سے پچاس فی صد تعداد خطِ افلاس سے نیچے لڑھک چکی ہے اور دوسری جانب ڈی ایچ ایز کی لمبی قطار کا منظرِ بہار ہے۔ یہ مناظرِ بہار راولپنڈی، لاہور، کراچی میں نمایاں تھے۔ اب ملتان اور گوجرانولہ میں بھی دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ ان پر اس طرح ہن برس رہا ہے کہ اعلیٰ ترین مناصب پر فائز لوگوں کے لیے دنیا کی مہنگی ترین اور پُرتعیش جگہوں پر گھر بنانا، منتقل ہو جانا اور ریٹائرمنٹ کی زندگی چَین ہی چَین کے ساتھ گزارنا فطرت کے بلاوے کی طرح ضروری ہوگیا ہے۔ لیکن معاملہ صرف ڈی ایچ ایز کا ہی نہیں، جاتی عمرہ، بنی گالا، کلفٹن کے علاوہ بحریہ ٹاؤن کے مالک سے تحائف میں ملنے والے بڑے بڑے بلاول اور زرداری ہاؤس اور ایوین فیلڈ سب عوام کی مفلسی اور بےبسی کے ماتھے پر اشرافیہ کی خوشحالی کے چمکتے دمکتے جھومر ہیں

یادش بخیر۔۔ جنرل پرویز مشرف مرحوم کا تابوت حالیہ مہینوں میں ہی بیرونِ ملک سے آیا تھا۔ ان کے اس حال میں وطن واپس آنے سے چند ہفتے پہلے ہی جنرل ریٹائرڈ باجوہ کبھی دبئی کے چوک چوراہوں پر زیبرا کراسنگ پر اور کبھی کسی بنک نما دفتر میں نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔ گویا ایک سے بڑھ کر ایک۔۔ ایک گیا، دوسرا آیا!

حکمران اشرافیہ قومی خزانے اور پاک سرزمین کو جس طرح نوچ اور لوٹ رہی ہے۔ اس میں سے یہ اکا دکا اشارے ہیں۔ سول بیوروکریسی کے پردہ نشیں بھی کسی سے کم نہیں۔ ان کی دولتیں بیرونِ ملک تلاش کرنا یقیناً ایک لمبا کام ہے۔ مگر بیرونِ ملک جن بیوروکریٹس نے اپنے بچوں کو منتقل کیا ہے، شہریتیں دلوائی ہیں یا خود کسی دوسرے ملک کی شہریت لی ہے، کیا یہ ایک غریب ملک کے عمال کے لیےرزق حلال یا جائز قانونی ذرائع سے ممکن تھا؟ یقیناً نہیں!

اسی لیے حکمران طبقے نے لوٹ مار کو قانونی بنانے کے ہتھکنڈوں کو روایت سے بڑھ کر ایک صنعت کا درجہ دے رکھا ہے۔ آئین میں ترمیم ہو یا قانون سازی و قانون کی تبدیلی سب حکمرانوں کی لوٹ مار کو جاری و ساری رکھنے، اقتدار کو قائم دائم رکھنے اور بائیس کروڑ عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے دور رکھنے کے لیے کی جاتی ہے۔ یہ جمہوریت کا دور ہو یا چھپی اور کھلی آمریت کا دور ہو، چھری ہمیشہ قومی خزانے کے خربوزے پر گرتی اور پھرتی ہے

اس لیے توشہ خانہ رپورٹ کو مکمل اور کافی کارروائی کے طور پر نہ لیا جائے۔ اسے محض ایک گوشہ وا ہونے سے تعبیر کیا جائے اور کچھ بے رحم ججوں پر مشتمل عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ تاکہ ’قانونی لوٹ مار‘ کے سارے گوشے سامنے آ سکیں۔ خدشہ ہے کہ ’قانونی لوٹ مار‘ ، غیر قانونی لوٹ مار سے زیادہ منظم اور خطرناک ہو چکی ہے کہ قانونی لوٹ مار کرنے اور قوم کے خزانے کو شِیرِ مادر سمجھنے والے ہی اختیار کے مالک اور اقتدار پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ صاف نظر آتا ہے کہ ان سب کی ہے ٹولی ایک، ان سب کی ہے بولی ایک۔۔ اس اشرافیہ کا وطنِ عزیز کے لیے ایک ہی نعرہ ہے۔ ”تیرا خوشہ خوشہ نوچوں، تیرا گوشہ گوشہ لُوٹوں“

بشکریہ: العربیہ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close