روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) دوسری قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

❖ سنسان جزیره

قدرت کے رنگ نیارے ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے بادل غائب ہوئے اور دھوپ نکل آئی۔
میں زندہ تو تھا، لیکن میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا ۔ نہ کھانے کو نہ پینے کو ۔ بھوک اور پیاس نے تنگ کر رکھا تھا اور قدرت نے مجھے اس ویران اور خوفناک جزیرے میں بھوکا پیاسا مرنے کے لئے لا پھینکا تھا۔ میری جیب میں لکڑی کا بنا ہوا تمباکو پینے کاپائپ اور تمباکو کا چمڑے کا بٹوا رہ گیا تھا۔ تمباکو بھیگ چکا تھا۔ میں نے تمباکو کو سوکھنے کے لئے دھوپ میں رکھ دیا ۔ میرے پاس دیا سلائی بھی نہیں تھی کہ تمباکو کے کش ہی لگا سکتا۔ میں بہت پریشان تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب مجھے کیا کرنا ہے ۔ پیاس کی شدت نے بہت تنگ کیا ہوا تھا ۔ سامنے سمندر تھا لیکن اس کا پانی تو پیا نہیں جا سکتا تھا ۔ پانی کی تلاش میں اٹھ کر چلنے لگا۔ سمندر کے کنارے کنارے چلتے ایک گڑھا دیکھا جس میں بارش کا پانی جمع ہوا تھا۔ یہ میٹھا پانی پیا تو پیاس بجھ گئی لیکن پھر بھوک نے ستانا شروع کر دیا ۔ جو درخت نظر آ رہے تھے ۔ ان پر کوئی پھل نہیں تھا۔ شام بھی سر پر کھڑی تھی ۔ جزیرے کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ یہاں کیسے کیسے درندے رہتے ہیں ۔ میں نے سوچا کہ مجھے رات کسی درخت پر بسر کرنی چاہیے۔ میں بہت تھک گیا تھا، اس لئے سونے کے لئے ایک درخت کا انتخاب کر کے اس پر چڑھ گیا ۔ شدید تھکن کا یہ فائدہ ہوا کہ میں جلد ہی سو گیا….

اگلے دن جب میں بیدار ہوا تو دن چڑھ چکا تھا ۔ ہر طرف دھوپ تھی ۔ درختوں پر پرندے چہک رہے تھے ۔ میں درخت سے نیچے اترا۔ سمندر اب بالکل پرسکون تھا ۔ جیسے کبھی طوفان آیا ہی نہ ہو ۔ لیکن چٹانوں میں پھنسا ہوا، ٹوٹا ہوا جہاز زبردست طوفان کی گواہی دے رہا تھا۔ یہ جہاز کبھی پورا تھا۔ اس پر انسانوں کے قہقہے گونجتے تھے لیکن اب وہ سب مر چکے تھے ۔ ان کی یا د نے مجھے رلا دیا..

میں نے جہاز پر جانے کا ارادہ کر لیا، کیونکہ جہاز پر جانا میری زندگی کے لئے بے حد ضروری تھا۔ وہاں سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں ملنے کی امید تھی ۔ میں اپنی ٹوٹی کشتی میں بیٹھا، جس کا پیندا صحيح سلامت تھا، لیکن چپو طوفان میں بہہ گئے تھے ۔ میں نے کشتی کو کھینچ کر سمندر میں پہنچایا اور پھر اس پر سوار ہوا، ہاتھوں کی مدد سے میں نے کشتی کو جہاز کی طرف لے جانا شروع کیا۔

چپو نہ ہوں تو کسی کشتی کو کھینا بہت مشکل ہوتا ہے، جبکہ کشتی بھی ٹوٹی پھوٹی ہو ۔ بہرحال میں ہمت کر کے کشتی کو چٹانوں تک لے ہی گیا، جہاں جہاز کا آدھا حصہ پھنسا ہوا تھا ۔ جہاز کا دوسرا آدھا حصہ پانی میں غرق ہو چکا تھا۔

کشتی سے اتر کر اسے ایک چٹان کے کنارے سے باندھا۔ رسی کی مدد سے آدھے جہاز کے اوپر آیا ۔ جہاز یوں ٹوٹ کر الگ ہوا تھا، جیسے کسی نے چھری سے کیک کو کاٹ دیا ہو۔

جہاز کے باورچی خانے کا دروازہ ٹوٹ چکا تھا۔ ایک چٹان کی نوک نے اس حصے میں ایک بڑا شگاف بنا دیا تھا۔ باورچی خانے کا سارا سامان سمندر میں ڈوب چکا تھا ۔ میں کسی نہ کسی طرح آ گے بڑھتا رہا۔ کھانا پکانے کے تیل کے سارے کنستر بہہ چکے تھے ۔ جہاز کے فرش پر مجھے ایک کلہاڑی دکھائی دی جسے میں نے اٹھا لیا ۔ ایک الماری دیکھی، جو ابھی تک بند پڑی تھی، کلہاڑی سے اس الماری کو توڑا، الماری سے لکڑی کا ایک بڑا ڈبہ ملا. جس میں بکری کے گوشت کے کچھ خشک ٹکڑے تھے، کچھ چاول تھے، کچھ پیاز، ایک تھیلا، جس میں بڑھئی کے کام کے سارے اوزار موجود تھے ۔ ایک ایسا چھوٹا تھیلا ملا جس میں بارود اور چھرے بھرے ہوئے تھے ۔ ایک بندوق اورا یک پستول بھی وہاں سے مل گئے اور پھر دیا سلائی بھی…

اس سارے سامان کو ایک بوری میں ڈال کر کندھے پر اٹھایا، کشتی میں رکھا اور پھر کشتی کو جزیرے کے ساحل تک لے آیا ۔ وہ درخت جس پر میں نے رات بسر کی تھی ، اس کے ساتھ اس بوری کو لٹکا دیا ۔ خشک گوشت کے کچھ ٹکڑے پیاز سے کھاۓ ۔ آ گ جلا کر اپنے کپڑے خشک کئے ۔ پائپ میں تمباکو ڈالا اور کش لگانے لگا ۔ پھر پستول میں بارود بھر کر جزیرے کا چکر لگانے چل دیا۔ میں نے سن اور پڑھ رکھا تھا کہ برازیل میں ایسے جزیرے بھی ہیں جہاں آدم خور قبیلے رہتے ہیں ۔

مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ یہ جزیرہ کس طرح کا ہے ۔ میں سب سے پہلے یہی جائزہ لینا چاہتا تھا ۔ اس لئے جب ایک پہاڑی ٹیلہ دکھائی دیا تو اس پر چڑھ کر جہاں تک نگاہ جاسکتی تھی ، جزیرے کا جائزہ لیا۔

افسوس میں ایک ایسے جزیرے میں آ گیا تھا، جو چھوٹا تھا اور اسے چاروں طرف سے سمندر نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ مجھے بڑی مایوسی ہوئی ۔ چاروں طرف پانی تھا اور یہ چھوٹا سا جزیرہ… میں واپس اس درخت کے پاس آیا جس پر رات بسر کی تھی ۔ شام ہونے سے پہلے میں نے کلہاڑی سے درختوں کی ٹہنیاں اور شاخیں کاٹیں اور پھر انہیں اسی درخت کے چاروں طرف گاڑ کر ایک پنجرہ سا بنایا تاکہ کوئی جنگلی جانور حملہ نہ کر دے..

تھوڑے دنوں کے بعد ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ اس جزیرے میں میرے سوا کوئی بھی نہیں تھا. نہ انسان، نہ حیوان.. رات درخت پر سویا. اب پیٹ بھرا ہوا تھا، اس لئے گہری نیند سویا ۔

دوسرے دن پھر اٹھا، کشتی میں بیٹھا اور ٹوٹے ہوئے جہاز کا رخ کیا ۔ اب تک یہ حقیقت معلوم ہو چکی تھی کہ یہ جزیرہ دنیا سے الگ تھلگ ہے اور عام تجارتی راستوں سے ہٹا ہوا ہے ۔ جانے اب کب تک مجھے وہاں اکیلا رہنا تھا، اس لئے میں سمجھتا تھا کہ جہاز سے جو بھی کام کی چیز مجھے مل جائے ، اسے جزیرے پر لے آؤں ۔ اس دوسرے پھیرے میں جو چیزیں میرے ہاتھ لگیں ان کی تفصیل یوں ہے :

سونے کے 36 پونڈ ، آٹھ جوڑے قمیض اور پتلون کے، یہ بے چارے ملاحوں کے کپڑے تھے جو سمندر میں غرق ہو چکے تھے، گندم کا ایک تھیلا ، رسی کا ایک بنڈل، دیا سلائی کا بڑا بکس ، دور بین ، چقماق پتھر ، پانی پینے کے مگ ، تھالیاں ، کیتلی اور ترپال..

یہ سب سامان میں نے شاخوں اور ٹہنیوں سے بنے ہوئے پنجرے میں رکھ دیا، جو اس درخت کے نیچے بنایا تھا، جہاں میں رات کو سوتا تھا۔

میں نے اس رات درخت پر بسیرا نہیں کیا، بلکہ نیچے درخت کے پاس ہی سویا. کیونکہ ان راتوں میں، جو گزریں تھیں، میں نے کسی درندے یا حیوان کی آواز نہیں سنی تھی ۔ یہاں جزیرے میں جو پرندے تھے، وہ بھی سارا دن دکھائی نہ دیتے ، صبح اڑ جاتے اور شام گئے آکر درختوں پر بسیرا کرتے تھے..

اس شام پھر تیز سمندری ہوا چلنے لگی ۔ جب میں سویا تو ہوا چل رہی تھی، جب صبح آنکھ کھلی اور میں نے چٹانوں میں پھنسے جہاز کی طرف دیکھا، تو جہاز کا وہ ٹوٹا ہوا حصہ، جو ان چٹانوں میں پھنسا ہوا تھا، وہ بھی ہواؤں کی یلغار نے توڑ پھوڑ کر غائب کر دیا تھا۔ جہاز کے ٹکڑے اور تختے جو پانی میں بہہ رہے تھے، میں نے جمع کر لئے ۔

جہاز اب پورے کا پورا سمندر میں غرق ہو گیا تھا۔ میرا دل بہت اداس ہوا۔ تاہم یہ اداسی دور ہوئی تو یہ اطمینان دل میں پیدا ہوا کہ میں نے جہاز کے مکمل غرق ہونے سے پہلے پہلے ضروری چیزیں اس میں سے نکال لی تھیں ۔ لیکن اب مجھے نئی سوچوں اور ضرورتوں نے گھیر لیا…

(جاری ہے)

روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) پہلی قسط

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close