پاکستان میں جہاں کئی بچوں نے پہلی بار انٹرنیٹ کے ذریعے موبائل، ٹیب یا لیپ ٹاپ استعمال کرتے ہوئے آن لائن کلاسز سے تعلیمی سفر جاری رکھا مگر ان بچوں کا کیا جن کے پاس یہ سہولیات ہی نہیں۔
بلوچستان کے ایران سے متصل ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والی رحیمہ جلال کے ذہن میں بھی یہی سوال تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ گذشتہ سال جب کورونا کے کیسز سامنے آئے تو بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح ان کے علاقے مند میں بھی تعلیمی ادارے بند کیے گئے۔
ملک کے بڑے شہروں میں بچوں نے آن لائن کلاسز کے ذریعے اپنی پڑھائی جاری رکھی مگر یہاں کئی علاقوں میں سہولیات کی کمی تھی.
ایسی صورتحال میں انھیں موبائل لائبریری کا آئیڈیا آیا مگر ان کے مطابق اس کے لیے سب سے بہتر اور آسان طریقہ گاڑی کا تھا لیکن ان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے۔
غور و خوض کے دوران موبائل لائبریری کو شروع کرنے کے لیے جو طریقہ ذہن میں آیا وہ خود موبائل لائبریری کے آئیڈیا کے مقابلے میں زیادہ منفرد تھا۔
رحیمہ جلال کے لیے سب سے قابل عمل آپشن کسی جانور کا استعمال تھا، چونکہ ان کا علاقہ ایک صحرائی علاقہ ہے جس میں سب سے زیادہ کارآمد جانور صحرائی جہاز یعنی اونٹ ہی ہو سکتا تھا جو کہ زیادہ کتابوں کو اٹھانے کے ساتھ مشکل راستوں پر جا سکتا ہے۔
’ہم نے موبائل لائبریری کے لیے اونٹ ہی کا انتخاب کیا اور اس لحاظ سے اس نے ایک کیمل لائبریری کی شکل اختیار کی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے علاقے میں ایک نوجوان کے پاس اونٹ تھا جو اس پر جنگل سے لکڑیاں لا کر فروخت کرتا تھا۔ ہم ان کو بہت زیادہ پیسے نہیں دے سکتے تھے اور نہ ہی وہ اس بات کا متحمل ہو سکتے تھے کہ کم پیسوں پر اپنے اونٹ کو مہینہ بھر موبائل لائبریری کے لیے مختص کرتے۔‘
’یہ طے پایا کہ ان کے اونٹ کو ہفتے میں تین دن اور اگر بہت زیادہ ضرورت پڑی تو چار دن کے لیے استعمال میں لایا جائے۔ اس کام کے لیے انھیں روزانہ ہزار روپے دینے کا فیصلہ ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اونٹ علم پھیلانے کا ذریعہ بنا، ہم نے اس کا نام روشن رکھ دیا۔‘
▪️بلوچستان میں روشن نامی اونٹ کی دھوم
رحیمہ جلال کا کہنا تھا کہ ان کے اس منصوبے کو نہ صرف دنیا بھر میں بہت زیادہ پذیرائی ملی بلکہ اونٹ بچوں کی توجہ کا مرکز بھی بن گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب یہ اونٹ کسی گاﺅں میں پہنچتا ہے تو گاﺅں سے بچے اس کے استقبال کے لیے نکلتے ہیں اور ایک شور مچ جاتا ہے کہ ’روشن آیا روشن آیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اونٹ جب تک جس گاﺅں میں اپنی منزل مقصود پر نہیں رکتا اس وقت تک بچے جلوس کی شکل میں اس کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔
’اس اونٹ کے ساتھ بچوں کی انسیت میں اس قدر اضافہ ہو گیا ہے کہ ہر بچے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اونٹ کو اس کے گھر لے جایا جائے۔‘
▪️مقبولیت کے باعث روشن اب ٹوپیوں اور بیگوں پر بھی!
’روشن‘ کی مقبولیت میں اضافے کی وجہ سے اب اس علاقے کے بچوں اور بچیوں کے لیے ایک خاتون نے ٹوپیاں اور بیگز بنا کر بھیجے ہیں۔ ان بیگوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان پر اونٹ کی تصاویر ہیں۔
رحیمہ جلال نے بتایا کہ اس لائبریری سے مستفید ہونے والے بچوں کے لیے بیگز اور ٹوپیاں کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے دی ہیں تاہم انھوں نے یہ شرط عائد کی کہ ان کا نام ظاہر نہیں کیا جائے۔
انھوں نے بتایا کہ بیگز اور ٹوپیوں نے بچوں کی خوشی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
▪️بچوں کی طرح روشن کا مالک بھی خوش
روشن کے مالک مراد بلوچ ہیں جن کا تعلق مند سے ہی ہے جو غربت کی وجہ سے خود تعلیم حاصل نہیں کر سکے لیکن اب وہ بہت خوش ہیں کہ وہ علم کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں مہینے کے 12 سے 16 ہزار روپے بھی ملتے ہیں۔
رحیمہ بلوچ کا کہنا تھا کہ کیمل لائبریری میں مراد کا کردار بھی اہم ہے کیونکہ مراد کو اونٹ کے ساتھ کئی کلومیٹر پیدل چلنے کی مشقت کرنا پڑتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ علم کے فروغ کے لیے کاوشوں کے دوران نہ صرف مراد خود کورونا سے متاثر ہوئے بلکہ ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی متاثر ہوئے جبکہ ان کی والدہ کورونا کے باعث وفات پا گئی۔
رحیمہ کا کہنا تھا کہ اس وقت ضلع کیچ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ کورونا کی لپیٹ میں ہے، جس کی وجہ سے بچوں اور کیمل لائبریری کی ٹیم کی صحت کے پیش نظر اس منصوبے کو 15 اگست تک معطل کیا گیا ہے۔
▪️کیمل لائبریری سے استفادے کا طریقہ کیا؟
رحیمہ جلال نے بتایا کہ ’ہم نے ہر گاﺅں میں ایک مقام مخصوص کیا ہے، روشن ہمارے سکول سے کتابیں اٹھا کر ہر گاﺅں میں اس مقام تک جاتا ہے جہاں بچے شام کو آ کر کتابیں پڑھتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ روشن کے ساتھ سکول کی ایک ٹیچر بھی جاتی ہیں جو کتاب لینے والے بچوں کے ناموں کا اندراج کرتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’اس مقام پر بچے نہ صرف کتابیں لیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ ایکسچینج بھی کرتے ہیں۔ جس گاﺅں میں نئی کتابیں لے جائی جاتی ہیں وہ کتابیں ایک ہفتے کے لیے اسی مقام پر ہوتی ہیں۔‘
رحیمہ جلال نے کہا کہ کیمل لائیبریری کے لیے الف لیلیٰ بک، جوڈتھ ریڈنگ روم نے کتابیں عطیہ کی ہیں جبکہ ان میں ہماری اپنی لائبریری کی کتابیں بھی شامل ہیں۔
رحیمہ جلال کا کہنا تھا کہ بچوں کو مطالعے کے لیے ان کی عمر کے لحاظ سے کتابیں دی جاتی ہیں۔
’چھوٹے بچوں کے لیے کتابیں زیادہ تر کہانیوں پر مشتمل ہیں۔ بڑی عمر کی بچوں کے لیے کہانیوں کے علاوہ تاریخ اور جنرل نالج سے متعلق کتابیں ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ چھوٹے بچوں کی زیادہ تر دلچسپی ان کتابوں میں ہے جن میں تصاویر زیادہ ہوتی ہیں اس لیے ہماری کوشش ہے کہ تصاویر والی کتابیں زیادہ سے زیادہ ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ اس کاوش کی وجہ سے مطالعے کے شوق میں اضافہ صرف بچوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بچوں کے ساتھ والدین کی بھی کتابوں میں دلچسپی بڑھی ہے۔
’ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ ماﺅں کی دلچسپی ان کتابوں میں بہت زیادہ ہے۔ ایک بچہ فیض احمد فیض کی کتاب لے گیا تھا جسے اس کی والدہ نے بھی پڑھا تھا۔‘
رحیمہ کا کہنا تھا کہ ان کی جب اس خاتون سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ وہ فیض احمد فیض کی شاعری سے بہت متاثر ہوئی ہیں۔
’اس خاتون نے بتایا کہ بچوں کی ان کتابوں کو پڑھنے سے انھوں نے خود بھی چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنا شروع کی ہے۔‘
رحیمہ جلال نے کہا کہ کورونا کی وبا میں جہاں بچوں اور والدین کے کتابوں کے مطالعے کے ذوق میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں بچوں اور ان کی توسط سے ان کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد کو کورونا سے بچاﺅ کی احتیاطی تدابیر سے بھی آگاہ کیا جا رہا ہے۔
کیمل لائبریری پروجیکٹ پر عمل درآمد کا آغاز اکتوبر 2020 میں شروع ہوا۔
رحیمہ جلال نے بتایا کہ مند کے قرب و جوار میں 22 کے قریب گاﺅں ہیں اور اس پروجیکٹ کے آغاز سے لے کر رواں سال اس کی عارضی معطلی تک اب تک 16 دیہات میں بچے اس سے مستفید ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر دیہات میں جو بچے اس سے مستفید ہو رہے ہیں ان کی تعداد 30 سے 35 تک ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس کی مقبولیت میں اضافے کی وجہ سے کیمل لائبریری کی ڈیمانڈ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ہر گاﺅں سے یہ مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ کیمل لائبریری کو ان کے گاﺅں تک وسعت دی جائے۔
انھوں نے کہا کہ جہاں کیمل لائبریری کی مقبولیت میں اضافہ ہوا وہاں اس کے لیے مزید عطیات بھی ملے ہیں جس کے باعث کیمل لائبریری پراجیکٹ کو جاری رکھا جائے گا۔
▪️کیمل لائبریری شروع کرنے والی رحیمہ جلال کون ہیں؟
رحیمہ جلال کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل مند سے ہے۔ یہ علاقہ ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے۔ وہ وفاقی وزیر دفاعی پیداوار زبیدہ جلال کی چھوٹی بہن ہیں۔ ان کے والد میر جلال خان رند علاقے کی ایک معروف شخصیت تھے۔
کویت میں والد کی ملازمت کے باعث رحیمہ جلال کی پیدائش کویت میں ہوئی تھی اور انھوں نے تعلیم بھی کویت سے حاصل کی۔
والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب جلال خان رند واپس مند آئے تو رحیمہ جلال نے مند میں اپنی ہمشیرہ کے ساتھ مل کرخواتین میں تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
زبیدہ جلال نے خواتین کی تعلیم کے لیے فی میل ایجوکیشن کے نام سے ٹرسٹ قائم کی تو رحیمہ جلال نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس ٹرسٹ کے تحت زبیدہ جلال گرلز ہائی سکول اور میر جلال خان رند ہائر سیکنڈری سکول 38 سال سے قائم ہیں۔
رحیمہ جلال نے بتایا کہ ان سکولوں سے ابھی تک 27 بیچز نے میٹرک اور17 نے انٹرمیڈییٹ پاس کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کے علاقے میں پرائمری، مڈل اور ہائی سمیت جو 22 سرکاری گرلز سکول ہیں ان تمام میں ان کے سکولوں سے فارغ ہونے والی ٹیچرز پڑھا رہی ہیں۔
رحیمہ کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ کے تحت ان سکول میں غریبوں ،مزدوروں اور منشیات کے عادی افراد کے بچے مفت پڑھ رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ باقی سٹوڈنٹس کے لیے پرائمری تک فیس دو سو، مڈل سے سیکنڈری تک تین سو جبکہ ہائیر سیکنڈری کی فیس پانچ سو روپے ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام