فرانس میں معاشرے میں ضم ہونے کے باوجود تارکین وطن امتیازی سلوک کا نشانہ بن رہے ہیں

ویب ڈیسک

فرانسیسی معاشرے میں تارکین وطن کے انضام سے منسوب تصورات کے بارے میں دو مطالعات کے نتائج سامنے آئے ہیں، جن سے دو اہم رجحانات کی نشاندہی ہوتی ہے

فرانس میں تارکین وطن کے انضمام سے متعلق دو نئے تاریخی مطالعات کروائے گئے جن کے نتائج سے ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جو اب تک اس بارے میں پائے جانے والے تصورات کے برعکس ہیں

فرانس میں ایمیگریشن کے حوالے سے یہ مطالعات ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں، جب انتہائی دائیں بازو کا ’تارکین وطن بیزار‘ رویہ معاشرے میں سرایت کرتا دکھائی دے رہا ہے

مذکورہ مطالعات کے نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ فرانس میں تارکین وطن گھرانوں کے بچے بہت تیزی سے ضم ہو رہے ہیں، لیکن کچھ افریقی اور ایشیائی برادریوں کے خلاف فرانسیسی معاشرے میں امتیازی سلوک مسلسل بڑھتا جا رہا ہے

کریمہ سیمو بیس سالہ مراکشی نژاد خاتون ہے۔ یہ پیرس کی مشہور یونیورسٹی ’سائنس پوُ‘ سے تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ فرانس کی یہ یونیورسٹی بین الاقوامی سطح پر ایک ایسے تحقیقی ادارے کے طور پر جانی جاتی ہے، جہاں روشن خیالی اور رواداری پر مبنی معاشرتی اقدار کے فروغ کے لیے گراں قدر تحقیقی کام کیا جاتا ہے

کریمہ کا تعلق ایک مزدور طبقے کے گھرانے سے ہے اور اس فیملی کے آٹھ بچے ہیں۔ کریمہ کے والد مغربی فرانس میں ایک کان کن ہے اور والدہ ایک گھریلو خاتون، جنہوں نے بچوں کی پرورش کی ہے

کریمہ کو اپنے خاندان کی طرف سے پیرس کی اشرافیہ کی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے زور زردستی کا سامنا تھا

کریمہ سیمو نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا ”ایک تارک وطن خاندان کی حیثیت سے میرے والدین نے مجھے یہی بتایا کہ مجھے معاشرے کے دوسرے افراد سے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے‘‘

فرانس میں تارکینِ وطن کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف لڑنے والے وکلاء نے حال ہی میں شائع ہونے والی ان مطالعاتی رپورٹوں کے نتائج کا خیر مقدم کیا ہے

ریاستی ادارہ برائے شماریات اور ریاستی انسٹیٹیوٹ فار ڈیموگرافک اسٹڈیز، Ined کی طرف سے شائع کردہ سروے رپورٹ ایسا قومی ڈیٹا پیش کرتی ہے، جس میں فرانس جانے والے تارکینِ وطن کی تیسری نسل تک کی زندگی کے حال اور مستقبل کا مکمل احاطہ شامل ہے، یعنی فرانس میں آباد تارکینِ وطن کی پہلی نسل، ان کے بچے یا دوسری نسل اور اُس کے بچے یعنی تیسری نسل کے حالاتِ زندگی

یہ دراصل دس سال قبل کروائے گئے ایک ایسی ہی نوعیت کے سروے کی تازہ ترین شکل ہے۔ حالیہ سروے میں ستائیس ہزار سے زائد افراد کی نمائندگی شامل ہے۔ ان افراد کو قومی مردم شماری کے ذریعے چنا گیا تھا۔ انہوں نے وسیع پیمانے پر کیے گئے سوالات کے جوابات دیے۔ جولائی 2019ع سے نومبر 2020ع کیے گئے اس سروے میں خاندانی زندگی، آمدن اور مذہب جیسے موضوعات کے بارے میں سوالات شامل تھے

دونوں رپورٹوں میں سے ایک سے یہ انکشاف ہوا کہ فرانسیسی آبادی کے ایک بڑے حصے کے آباؤ اجداد کا تعلق تارکین وطن گھرانوں سے ہے

ایک اندازے کے مطابق ساٹھ سال سے کم عمر کے 32 فیصد بچے اور بچوں کے بچے یعنی پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں فرانسیسی معاشرے میں پوری طرح ضم ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود فرانس میں امیگریشن یا انضمام ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف سطح پر ہے

ریاستی ادارہ برائے شماریات اور ریاستی انسٹیٹیوٹ فار ڈیموگرافک اسٹڈیز، Ined سے منسلک ایک محقق پیٹرک سیمون کے مطابق فرانس کی ساٹھ سال سے کم عمر کی آبادی کے 70 فیصد کا تارکین وطن کا پس منظر نہیں ہے۔ یہ اعداد و شمار پچھلی تین نسلوں پر مشتمل ہیں۔ مزید برآں یہ کہ فرانس میں نسلی تنوع کا دارومدار بہت زیادہ اس امر پر ہے کہ یہ باشندے فرانس کے کس علاقے میں آباد ہیں

مذکورہ رپورٹ دائیں بازہ کے کچھ انتہا پسندوں کے ان دعوؤں کو جھوٹا ثابت کرنے کا سبب بنی ہے کہ فرانس اور دیگر مغربی ممالک میں غیر سفید فام آبادی مقامی سفید فام آبادی پر غالب آ رہی ہے

حالیہ رپورٹ اس دعوے کا قطعی متضاد مفروضہ پیش کرتی ہے

محقق پیٹرک سیمون کہتے ہیں ”تارکین وطن کے پس منظر والی آبادی کا اُس آبادی سے بہت گہرا تعلق اور نسبت ہے جس کا تارکینِ وطن والدین سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے“

سروے کے مطابق گزشتہ کئی نسلوں سے پروان چڑھنے کے دوران تارکینِ وطن کا ورثہ کمزور ہوتا جا رہا ہے

سروے سے یہ بھی پتا چلا کہ 66 فیصد ایسے افراد، جن کے والدین میں سے کسی ایک کا تعلق ترکِ وطن کرنے والے گھرانے سے ہے، کی شادیاں ایسے افراد سے ہوئی ہیں، جن کا حالیہ تارکین وطن ورثے سے کوئی تعلق نہیں

سروے کی رپورٹ سے مزید یہ انکشاف بھی ہوا کہ فرانس میں آباد تارکین وطن کی تیسری نسل کے خاندانوں میں سے ہر دس میں سے نو باشندوں کے زیادہ سے زیادہ دو یا کم از کم ایک دادا دادی یا نانا نانی تارکِ وطن تھے

فرانسیسی امیگریشن کا نظام تارکینِ وطن کے آبائی ممالک کے ایک وسیع رینج پر محیط ہے جو اس ملک کی نوآبادیاتی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔ تارکینِ وطن کی نوجوان نسلوں والے میں سے زیادہ تر کا پس منظر شمالی افریقی یا سب صحارا خطے ہیں

جبکہ معمرافراد میں یورپی جڑوں والے باشندوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سروے کے مطابق فرانس میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کے 83 فیصد ایسے باشندوں پر مشتمل ہے جن کے والدین میں سے کم از کم ایک تارکِ وطن والدین ہیں اور ان کا آبائی وطن خصوصاً افریقی ملک ہے۔ اس کے برعکس، ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے دوسری نسل کے تارکین وطن کا 90 فیصد ان شہریوں پو مشتمل ہے، جن کے والدین اطالوی، ہسپانوی، پولش، بیلجیئین، جرمن یا دیگر یورپی ممالک سے تعلق رکھتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close