1957 کے آس پاس ایک بوڑھا امریکی جوڑا ہوانا شہر میں ہمارا پڑوسی تھا۔ وہ مبالغے کی حد تک کم آمیز تھے۔ ہم دونوں کے گھروں کا ٹیرس مشترکہ تھا، بس درمیان میں کنکریٹ کی ایک چھوٹی سی دیوار تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارا تو راہ چلتے، لفٹ میں یا گھر میں داخل ہوتے وقت بھی ٹاکرا نہیں ہوا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے انہیں سردیوں میں دھوپ سینکنے کے لیے ٹیرس پر بھی نہیں دیکھا تھا۔ میں اور میری بیوی بھی لیے دیے رہتے اور ضرورتاً باہر نکلتے۔
مجھے یاد ہے کہ ان کے ٹیرس پر سبز رنگ کی ترپال نصب تھی، جسے ایک لیور سے کھولا اور بند کیا جاتا تھا۔ کھُلنے پر یہ ترپال پورے ٹیرس پر سائبان کی طرح پھیل جاتی۔ مجھے یاد ہے! یہ بالکل ایسے ہی جیسے دیموکلیس نے کہا تھا:
’’مجھے یاد ہے میرے سر پر کوئی تلوار لٹک رہی تھی!‘‘
”یاد، چھوڑیے صاحب، یاد کرنے کا مطلب ہے کہ آپ پہلے کچھ بھولیں اور میں کیسے بھول سکتا ہوں؟“
جو واقعہ میں سنانے جا رہا ہوں، اس سے بہت پہلے وہ سبز رنگ کی ترپال میری بیوی کی کم زوری بن چکی تھی۔ ’وہ اسے کبھی کھولتے ہی نہیں، ہمیشہ اسے لپیٹ کر رکھتے ہیں۔‘ یہ اس کا تکیہ کلام بن چکا تھا۔ وہ لاشعوری طور پر بڑبڑاتی: بے کار امریکی، بے کار امریکی ترپال، بے کار انگریزی زبان، پیاز، گوشت، آلو، بے کار ترپال، ترپال، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ’اس ترپال کو یہاں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا‘ ، وہ اکثر فیصلہ کن لہجے میں کہتی، ’یہ پیسے کا ضیاع ہے۔‘
ایک شام میں ٹیرس پر بیٹھا پورے انہماک سے ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ بیوی نے آ کر بتایا کہ اس ہمیشہ سے تہ شدہ ترپال کے اوپر چڑیوں کا جوڑا اپنا گھونسلہ بنا چکا ہے۔
’’وہ دیکھو! (اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا) وہ چڑیا ہمہ وقت گھونسلے میں رہتی ہے، جب کہ ایک وہاں تنکے لانے میں مصروف ہے‘‘
’’شان دار!‘‘ میں نے جملہ کسا۔
”وہ کیسے؟“
”جو آرام سے گھونسلے میں بیٹھی ہے وہ مادہ ہے۔“
”تمہیں کیسے پتا؟“
’’ساری مادائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ نر ہی کام میں لگے رہتے ہیں۔‘‘
بیوی کچھ بولی نہیں، بس دانت پیس کر رہ گئی۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ ہم یعنی وہ پڑوسیوں کو بتادے کہ ان کی ترپال پر چڑیوں نے گھونسلہ بنا لیا ہے، وہ اسے کسی صورت نہ کھولیں۔ بیوی نے مجھے مسکرا کر دیکھا۔ اس طرح دیکھنے پر مجھے حیرت بھی اور پریشانی بھی۔ میں نے وجہ پوچھی تو بولی:
’’تم بہت مہربان دل کے مالک ہو۔ مادہ کے اس طرح بیٹھنے کا مطلب ہے کہ وہ انڈوں پر بیٹھی ہو۔ اگر ہم نے پڑوسیوں کو نہ بتایا تو ان بے چاروں کا نقصان ہوجائے گا۔‘‘
میں نے صرف سر ہلایا اور کتاب میں گم ہو گیا۔ اس نے مجھے مخاطب کیا۔
’’تم اچھی انگریزی بولتے ہو۔ تم ہی انہیں جا کر بتا دو۔‘‘
میری انگریزی اور ان کی ترپال میں کیا تعلق تھا، میرا تو منہ کھُل گیا۔ میں نے صرف اتنا کہا۔ ’’بتادوں گا۔‘‘
بیوی کا چہرہ سرخ ہو گیا، اس نے پوری سنجیدگی مگر نرم آواز میں کہا: ’’پھر تو آج ہی جا کر بتادو!‘‘
’’ابھی میں نہیں جا سکتا۔ مجھے یہ کتاب ختم کرنی ہے۔‘‘
اس کے چہرے سے نرمی غائب ہو گئی۔ وہ بڑے اداس لہجے میں بولی، ’’تو یہ کتاب ان معصوم چڑیوں اور ان کے انڈوں سے زیادہ وقعت رکھتی ہے۔‘‘
’’میں کل بتادوں گا۔‘‘
’’تم چڑیوں کا نقصان ہونے کے بعد جاؤ گے۔‘‘
’’دیکھو پیاری، مجھے ایک بڑا اہم مقالہ لکھنا ہے۔۔ اور اس لیے یہ کتاب پڑھنا بے حد اہم ہے۔‘‘
بیوی کی آنکھیں بھر آئیں۔
میں فوراً بولا، ’’اچھا پیاری! میں بس یہ صفحہ پڑھ لوں، پھر جاتا ہوں۔‘‘
میں نے اسے صفحہ بھی دکھایا۔ اس نے سر ہلایا۔ جیسے ہی میں نے صفحہ مکمل کیا، میں اٹھ کر جانے لگا،مگر بیوی نے روک دیا، ’’تم انہیں کل بتا دینا۔ اب رات ہو چکی ہے، ویسے بھی انہوں آج تک اسے نہیں کھولا۔‘‘
’’بالکل ٹھیک – جیسا تم کہو۔ کل میں اسکول سے واپسی پر ان کے ہاں رُک کر بتا دوں گا۔‘‘
’’ہاں! مگر کل یاد سے بتا دینا۔‘‘
اگلے دن کام سے واپسی پر میں ان کے فلیٹ کے سامنے رُکا۔ پانچ بج کر دس منٹ ہو رہے تھے۔ یہ عمارت (کاغذوں میں مَیں ابھی بھی اسی عمارت میں مقیم ہوں، مگر 1965 میں یہ عمارت اور اس کے آس پاس کی ساری عمارتیں غائب ہو چکی ہیں) چھوٹے مگر آرام دہ فلیٹس پر مشتمل تھی اور اس کے چاروں طرف خوب صورت درخت اگائے گئے تھے۔ پڑوسیوں کا دروازہ مہاگنی کی مضبوط لکڑی سے بنا ہوا تھا۔ دو مرتبہ گھنٹی بجانے کے بعد ایک نوجوان لڑکی نے دروازہ کھولا۔ اس کی عمر اٹھارہ، بیس برس ہوگی۔ وہ اتنی خوش شکل تو نہ تھی مگر وہ عمر کے اس حصے میں تھی، جب بدصورتی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس نے لمبی سی شرٹ پہن رکھی تھی، جس کے سارے بٹن کھُلے تھے۔ سنہرے بالوں کا جُوڑا بنا ہوا تھا اور اس نے جینز پہن رکھی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے کس امریکی اداکارہ کا خیال آیا؟ شاید ڈورس ڈے، نہیں اگر کیرل لِنلے جوان ہو جائے تو بالکل ایسی ہی لگے۔
بلا ارادہ میرے منہ سے ہسپانوی نکلی۔ وہ مسکرا کر بولی، ’’میں اسپینش زبان نہیں جانتی.‘‘
وہ ہسپانوی زبان نہیں جانتی اور میری انگریزی کافی پیدل تھی۔ ’’وہ بوڑھے انکل جو یہاں رہتے ہیں، گھر پر ہیں؟‘‘
’’میرے دادا، دادی۔ وہ دونوں باہر ہیں، رات کے کھانے تک واپس آئیں گے۔‘‘
’’وہ میں انھیں چڑیوں کے بارے میں۔۔۔ ان کے جال (net) اوہ سوری گھونسلے (nest) کے بارے میں بتانے آیا تھا۔‘‘
’’ارے نہیں! مجھے تو پتا ہی نہیں چلا کہ دادا نے چڑیاں پال لی ہیں۔۔‘‘
پہلے مجھے لگا کہ وہ میرا مذاق اڑا رہی ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ کوئی لڑکی جتنی بھی تیز ہو، پہلی ملاقات میں ایسا نہیں کر سکتی۔ میں جتنی اچھی انگریزی بول سکتا تھا، بولی اور اسے گھونسلے کے بارے میں بتانے لگا۔ بات مکمل کرنے پر مجھے خیال آیا کہ میں نے کہانی میں بیوی کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ میں ساتھ والے گھر میں رہتا ہوں۔
وہ میری بات سن کر کھُل کر ہنسی۔ پھر مجھے غور سے دیکھتے ہوئے بے یقینی سےبولی، ’’آپ اندر آ کر مجھے وہ گھونسلہ دکھا دیں۔ جیسے ہی میرے دادا، دادی واپس آئیں گے، میں انہیں اس کے بارے میں ضرور بتاؤں گی۔‘‘
میں گھر میں داخل ہوا۔ میرا گمان تھا کہ یہ فلیٹ عمدگی سے سجا ہوگا، مگر مجھے مایوسی ہوئی۔ (مجھے اپنی اس عادت پر خود بھی بے حد غصہ آتا ہے کہ میں ہمیشہ دوسروں کے گھروں کی سجاوٹ کے بارے میں خوش گمانی رکھتا ہوں۔) باورچی خانہ چھوٹا مگر فرنیچر کی کمی کے باعث لائونج ہمارے والے سے کھُلا لگ رہا تھا۔ ہمارے گھر کی سجاوٹ بھی کم و بیش ایسی ہی تھی تاہم ہمارے پاس فرنیچر زیادہ تھا۔ ہاں البتہ پورے فلیٹ میں قالین بچھے تھے۔
ہم دونوں بیڈروم سے ہوتے ہوئے ٹیرس تک پہنچے۔ مجھے اس طرح کسی کے بیڈ روم میں داخل ہونا پسند نہ تھا مگر اسے گھونسلہ دکھانا بھی ضروری تھا۔ شام رات میں بدل رہی تھی۔ آسمان اندھیرے کی چادر اوڑھنے والا تھا۔ ہمارے فلیٹ کی کھڑکیوں کے پردے گرے ہوئے تھے۔مجھے یہ کچھ عجیب لگا مگر پھر یاد آیا کہ آج تو جمعہ ہے اور میری بیوی آج فرانسیسی زبان سیکھنے جاتی ہے۔ ترپال پر چڑیاں اپنے گھونسلے کو مزید مضبوط بنانے میں مصروف تھیں۔ ایک چڑیا کی چونچ میں مضبوط تنکا تھا اور وہ اسے گھونسلے میں شامل کرنے میں مصروف تھی۔
’’اوہ یہ کتنے پیارے ہیں۔۔۔‘‘ لڑکی بولی اور ساتھ ہی کہنے لگی، ’’اور بے وقوف ہیں۔ میرے خیال میں تو پیارے بھی ہیں اور بے وقوف بھی۔‘‘
پھر پہلے تو ہنسی اور پھر اچانک قہقہے لگانے لگی۔ مجھے یہ لڑکی کچھ غیر متوازن لگنے لگی۔ اس کے قہقہے کا انداز بھی عجیب سا تھا، جیسے وہ اندرونی اضطراب چھپانے کے لیے ہنس رہی تھی۔ مجھے اس کی ہنسی اور خنک ہوا پریشان کر رہی تھی۔ وہ خود ہی بولی، ’’آئیے اندر چلیں۔‘‘
دونوں بیڈ روم میں آ گئے۔ اس نے بیٹھنے کی دعوت دے دی اور میں بجائے باہر لائونج میں جا کر بیٹھتا، وہیں بیڈروم میں ایک اسٹول پر بیٹھ گیا۔ وہ لائونج میں داخل ہو چکی تھی، مگر مجھے وہیں بیڈ روم میں بیٹھا دیکھ کر وہ واپس آئی اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔ مجھے اپنی غلطی بلکہ بے وقوفی کا احساس ہوا مگر میں اب تو یہ بے وقوفی سر زد ہو چکی تھی (مجھے اسے بیڈ پر بیٹھے دیکھ کر وہ کہاوت یاد آئی کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک مہمان آیا اور کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے لیے اسے لیموں ملا پانی ایک پیالے میں دیا گیا اور اس نے اسے پی لیا۔ بادشاہ نے مہمان کو شرمندگی سے بچانے کے لیے اس میں ایک چٹکی شکر ڈالی اور خود بھی پی لیا۔ یہ پانی اتنا خوش ذائقہ لگا کہ بادشاہ نے اسے کھانوں کا جزو بنا لیا)۔ میری دوسری بے وقوفی بھی ملاحظہ فرمائیں۔ میں نے گنواروں کی سی عجلت سے اس کا نام پوچھ لیا (اسے بھی میرے اتاؤلے پن پر حیرت ہو رہی ہوگی) ”تمہارا نام کیا ہے ؟“
وہ پھر مسکرائی ۔ ایک لحظہ مجھے ایسا محسوس ہوا، جیسے وہ نام کی بجائے کچھ اور سوچ رہی ہے، ’’جِل اور تمہارا؟‘‘
’’سلویسٹر۔‘‘
’’اچھا نام ہے۔‘‘
میں نے انکار میں سر ہلایا۔ مجھے اپنے نام سے نفرت تھی۔
’’میرا مطلب ہے، مجھے یہ نام پسند آیا مگر میں یہ نام کبھی بول نہیں پاؤں گی۔‘‘
’’کیوں نہیں؟ تم یقیناً یہ نام بول سکتی ہو۔‘‘
’’میں نہیں بول سکتی۔‘‘
’’ایک دفعہ بولو تو!‘‘
’’میں یہ کبھی نہیں بول سکتی۔‘‘
’’کوشش تو کرو۔‘‘
اس نے میرانام پکارا اور مجھے افسوس ہوا کہ میں نے اسے کہا ہی کیوں۔۔ وہ بولی:
’’سلور ٹرے (Silver Tray)‘‘
’’ارے نہیں، میں ٹرے نہیں اور نہ چاندی سے بنا ہوں۔ سیدھا سادا نام ہے سِل ویس ٹر۔‘‘
وہ بری طرح ہنسنے لگی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے ہنسنے کا انداز اب پہلے سے بہتر ہو چکا تھا۔ اب وہ دل سے ہنس رہی تھی۔ وہ کافی دیر ہنستی رہی ۔ جب وہ آخر کار چپ ہوئی تو میں نے صرف اتنا کہا، ’’تمہارا نام بھی بہت اچھا ہے۔‘‘
وہ اچانک رنجیدہ ہوگئی۔ ’’میرا کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔۔۔ میرانام بھی اچھا نہیں ہے۔‘‘ اس نے اپنے ہونٹ بھینچے، ’’خاص طور پر میرا نام تو بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔ میں ہوں ہی عجیب، میری ہر چیز عجیب ہے۔۔ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
اس کی آواز چھلک گئی اور وہ سسکیاں لینے لگی۔ میں اسٹول پر دم بخود بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا ۔ وہ مسلسل سسکیاں لے رہی تھی۔ مجھے اور کچھ نہ سوجھا تو میں اس کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ میری حالت کچھ عجیب سی ہو رہی تھی، میرے دل میں شدت سے خواہش جاگی کہ میں اسے گلے لگا کر اسے چپ کرواؤں مگر ڈر تھاکہ یہ لڑکی اسے میری پیش قدمی نہ سمجھ لے۔ میں وہیں کھڑا تھا کہ وہ اچانک اٹھی اور مجھ سے لپٹ گئی۔ اس نے اب باقاعدہ رونا شروع کر دیا تھا۔ میں ششدر رہ گیا۔ میرے دونوں ہاتھ اٹھے کہ اس کے گرد لپیٹ لوں مگر میرے ہاتھ ہوا میں اٹھے رہ گئے۔
ادھر اس نے روتے روتے بڑبڑانا شروع کر دیا، ’’میں ہر چیز میں ناکام ہوں۔ پڑھائی ہو، تعلقات ہوں۔۔ میرا بوائے فرینڈ مجھ سے لمبی رقم کا فراڈ کر گیا ہے اور دادا میری مدد کرنے کے بجائے مجھے واپس بھیج رہے ہیں۔ کل میری فلائٹ ہے اور میں امریکاجانا نہیں چاہتی۔ میں یہاں خوش ہوں ، مگر۔۔۔۔‘‘
میں نے ہمت کی اور دونوں ہاتھ اس کے گرد حمائل کر دیے۔ اسے ایک کرنٹ لگا۔ وہ فوراً مجھ سے الگ ہو گئی۔ ’’تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’میں۔۔۔ وہ۔۔۔ تم اچانک ہی میرے ساتھ لپٹ گئیں اور میں تو بس۔۔۔۔‘‘
’’میرا فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہو؟‘‘ وہ تیکھی آواز اور نظروں کے ساتھ بولی۔
’’نن، نہیں۔۔۔۔ میں تو بس۔۔۔‘‘
’’اب تم یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھی۔
میں ہونقوں کی طرح منہ کھولے اس کے پیچھے گیا۔ میں تقریباً گھگھیا رہا تھا، ’’دیکھو! مجھے غلط نہ سمجھو، آؤ بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ تم اپنے بوائے فرینڈ کا ذکر کر رہی تھیں۔۔۔‘‘
اس نے خاموشی سے دروازہ کھولا اور باہر جانے کا اشارہ کیا، ’’تم سے دوبارہ ملاقات ہوگی؟‘‘
میری ایک اور بے وقوفی ملاحظہ فرمائیں۔
’’میں کل واپس جارہی ہوں!‘‘
’’اوکے!‘‘
اس نے دروازہ پورا کھول دیا۔
میں نے اسے آخری بار دیکھتے ہوئے کہا، ’’خدا حافظ، جِل۔‘‘
’’گڈ بائے سلور ٹرے!‘‘
اور دروازہ بند ہو گیا۔ دو تین دن بعد میں ایک اور کتاب کے مطالعے میں گُم تھا مگر دماغ میں جِل سے ملاقات کا واقعہ گردش کر رہا تھا۔ جب وہ دروازہ بند ہوا تو میں احمقوں کی طرح اسے دیکھتا رہا۔ مہاگنی کے سیاہ اور مضبوط دروازے کو بے مقصد تکتا رہا۔ میں خود کو ہمیشہ سے بے وقوف سمجھتا رہا، اس دن اپنی ہی بات ثابت کر چکا تھا۔
اگلے دن کام پر جاتے ہوئے میں پھر اس دروازے کے سامنے رُک گیا۔ جی میں آئی کہ میں اس سے ایک بار اور مل کر وضاحت کروں کہ میرا وہ عمل بے اختیاری تھا اور میں ایک شریف آدمی ہوں مگر ہمت نہ جٹا پایا۔ بس اس بار دروازے کے ساتھ ایک کارڈ پر میری نظر پڑی۔ وہاں ’مسٹر اور مسز کلیمنٹ‘ لکھا ہوا تھا۔ تبھی مجھے احساس ہوا کہ یہ فلیٹ تو خالی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ آج تو جِل کی فلائٹ تھی۔
اچانک مجھے ایک خالی پن کا احساس ہونے لگا۔ یہ فلیٹ خالی تھا، مجھے لگا کہ یہ عمارت، ہوانا، کیوبا یہاں تک کہ پوری دنیا خالی ہے۔ میرے چاروں اور سناٹا ہے اور اس سناٹے میں ایک سرگوشی سنائی دے رہی ہے کہ جِل نام کی کوئی لڑکی کبھی مجھے ملی ہی نہیں۔۔ وہ صرف میرے دماغ کی اختراع ہے اور کچھ نہیں۔ میں ہڑبڑا کر اٹھا۔ کسی نے میرا نام زور سے پکارا تھا۔ میں کتاب سے نظریں اٹھائیں۔ میری بیوی مجھے زور سے پکار رہی تھی۔
’’سلوسٹر!‘‘ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا ’’یہ کتنے ظالم اور سنگ دل ہیں!‘‘
’’کون!؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کے ہاتھ کی سمت دیکھا۔
’’ہمارے پڑوسی اور کون۔۔ بہت بے رحم بلکہ پاگل ہیں۔‘‘
میں کرسی پر کھڑا ہو گیا اور وہ منظر دیکھا، جس کی وجہ سے میری بیوی سخت طیش کے عالم میں تھی۔ ایک بوڑھا (بعد میں غور سے دیکھنے پر پتا چلا کہ وہ بڑھیا تھی) اس ترپال کو، جو ہمیشہ بند رہتی تھی، کھول رہا ہے۔
’’وہ بوڑھا جوڑا! آج وہ اپنی ترپال کھول رہے ہیں۔‘‘
’’میں بھی دیکھ رہا ہوں، بیگم!‘‘
دو انڈے تو زمین پر پڑے تھے مگر ایک ٹوٹ چکا تھا۔ بڑھیا بھی اتنی حیران تھی جتنا چڑیاں ۔ دونوں انڈوں کے ارد گرد چکر لگا رہی تھیں۔ بڑھیا ’والٹر، والٹر‘ پکارتی اندر کی جانب بڑھی۔ چڑیاں بے بسی سے تیز آوازیں نکال رہی تھیں۔ مادہ چڑیا گھونسلے کی طرف بڑھی مگر وہ بھی بکھر چکا تھا اور وہاں چند تنکے ٹکے ہوئے تھے۔ وہ پھر ٹوٹے انڈے کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ نر چڑیا دوبارہ تنکے اٹھا کر گھونسلے میں رکھنے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ جیسے ہی تنکا گھونسلے پر رکھتا، وہ نیچے گر جاتا۔ اتنے میں بڑھیا، بوڑھے کو لے کر باہر نکل آئی۔ میری بیوی بالکنی کی مشترکہ دیوار کے پاس جا کر انھیں غصے سے دیکھنے لگی مگر دونوں چڑیوں اور گھونسلے کو دیکھ رہے تھے۔
پھر وہ میری طرف مڑ ی اور لفظ چبا چبا کر بولی: ’’تو تم نے انہیں گھونسلے کے بارے میں نہیں بتایا؟‘‘
میں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔ آج اس واقعے کے برسوں بعد بس ایک خیال آتا ہے کہ جِل نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے اپنے دادا کو اس گھونسلے، ان چڑیوں، ان کے انڈوں کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟ پھر ایک اور خیال آتا ہے کہ کیا جِل کا کوئی وجود بھی ہے؟ یا وہ صرف میرا واہمہ تھا، میرا خواب تھا۔۔۔