چندرو کی دنیا (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

کرشن چندر

کراچی میں بھی اس کا یہی دھندا تھا اور باندرے آ کر بھی یہی دھندا رہا۔ جہاں تک اس کی ذات کا تعلق تھا، کوئی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ وہ کراچی میں بھی سدّھو حلوائی کے گھر کی سیڑھیوں کے پیچھے ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں سوتا تھا اور باندرے میں وہی سیڑھیوں کے عقب میں اسے جگہ ملی تھی۔ کراچی میں اس کے پاس ایک میلا کچیلا بستر، زنگ آلود پترے کا ایک چھوٹا سا سیاہ ٹرنک اور ایک پیتل کا لوٹا تھا۔ یہاں پر بھی وہی سامان تھا۔ ذہنی لگاؤ نہ اسے کراچی سے تھا نہ بمبئی سے۔۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اسے معلوم ہی نہ تھا ذہنی لگاؤ کسے کہتے ہیں، کلچر کسے کہتے ہیں، حُبّ الوطنی کیا ہوتی ہے اور کس بھاؤ سے بیچی جاتی ہے۔ وہ ان سب نئے دھندوں سے واقف نہ تھا۔ بس اسے اتنا یاد تھا کہ جب اس نے آنکھ کھولی تو اپنے کو سدّھو حلوائی کے گھر میں برتن مانجتے، جھاڑو دیتے، پانی ڈھوتے، فرش صاف کرتے اور گالیاں کھاتے پایا۔ اسے ان باتوں کا کبھی ملال نہ ہوا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کام کرنے اور گالیاں کھانے کے بعد ہی روٹی ملتی ہے اور اس کی قسم کے لوگوں کو ایسے ہی ملتی ہے۔ علاوہ ازیں سدّھو حلوائی کے گھر میں اس کا جسم تیزی سے بڑھ رہا تھا اور اسے روٹی کی شدید ضرورت رہتی تھی اور ہر وقت محسوس ہوتی رہتی تھی۔ اس لیے وہ حلوائی کے جھوٹے سالن کے ساتھ ساتھ اس کی گالی کو بھی روٹی کے ٹکڑے میں لپیٹ کے نگل جاتا تھا۔

اس کے ماں باپ کون تھے، کسی کو پتہ نہ تھا۔ خود چندرو نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ البتہ سدھو حلوائی اسے گالیاں دیتا ہوا اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ چندرو کو سڑک پر سے اٹھا کے لایا ہے۔ اس پر چندرو نے کبھی حیرت کا اظہار نہیں کیا، نہ سدھو کے لیے شکریے کے نرم جذبے کا اس کے دل تک گزر ہوا، کیوں کہ چندرو کو کوئی دوسری زندگی یاد نہیں تھی۔

اسے بس اتنا معلوم تھا کہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں، جن کے ماں باپ ہوتے ہیں۔۔ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں، جن کے ماں باپ نہیں ہوتے۔۔ کچھ لوگ گھر والے ہوتے ہیں، کچھ لوگ سیڑھیوں کے پیچھے سونے والے ہوتے ہیں، کچھ لوگ گالیاں دیتے ہیں، کچھ لوگ گالیاں سہتے ہیں۔ ایک کام کرتا ہے، دوسرا کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ بس ایسی ہے یہ دنیا اور ایسی ہی رہے گی۔۔ دو خانوں میں بٹی ہوئی۔۔ یعنی، ایک وہ جو اوپر والے ہیں، دوسرے وہ جو نیچے والے ہیں۔۔ ایسا کیوں ہے اور ویسا کیوں نہیں ہے اور جو ہے، وہ کب کیوں اور کیسے بہتر ہو سکتا ہے، وہ یہ سب کچھ نہیں جانتا تھا اور نہ اس قسم کی باتوں سے کوئی دلچسپی رکھتا تھا۔

البتہ جب کبھی وہ اپنے ذہن پر بہت زور دے کر سوچنے کی کوشش کرتا تھا تو اس کی سمجھ میں یہی آتا تھا کہ جس طرح وہ سٹے کے نمبر کا داؤ لگانے کے لیے کبھی کبھی ہوا میں سکّہ اچھال کے ٹاس کر لیتا ہے، اسی طرح اس کے پیدا کرنے والے نے اس کے لیے ٹاس کر لیا ہوگا اور اسے اس خانے میں ڈال دیا ہوگا، جو اس کی قسمت تھی۔

یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ چندرو کو اپنی قسمت سے کوئی شکایت تھی، ہرگز نہیں! وہ ایک خوش باش محنت کرنے والا، بھاگ بھاگ کر جی لگا کر خوش مزاجی سے کام کرنے والا لڑکا تھا۔ وہ رات دن اپنے کام میں اس قدر مشغول رہتا تھا کہ اسے بیمار پڑنے کی بھی کبھی فرصت نہیں ملی۔

کراچی میں تو وہ ایک چھوٹا سا لڑکا تھا مگر بمبئی آ کر تو اس کے ہاتھ پاؤں اور کھلے اور بڑھے۔ سینہ پھیلا۔ گندمی رنگ صاف ہونے لگا۔ بالوں میں لچھے سے پڑنے لگے۔ آنکھیں زیادہ روشن اور بڑی معلوم ہونے لگیں۔ اس کی آنکھیں اور ہونٹ دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ماں ضرور کسی بڑے گھر کی رہی ہوگی اور اس کے پھیلے ہوئے سینے، باہوں کی مضبوط مچھلیاں اور کھردرے سخت ہاتھ دیکھ کر لگتا تھا کہ اس کا باپ بھی ممکن ہے اُسی خاندان کا کوئی جوان اور تگڑا نوکر رہا ہوگا۔ اس قسم کے تجربے بالعموم سڑک پر پھینک دیے جاتے ہیں۔

چندرو کی دنیا میں آواز کا اس حد تک گزر تھا کہ وہ سن سکتا تھا۔ بول نہیں سکتا تھا۔ عام طور پر گونگے بہرے بھی ہوتے ہیں مگر وہ صرف گونگا تھا، بہرہ نہ تھا۔ اس لیے حلوائی ایک دفعہ اسے بچپن میں ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ ڈاکٹر نے چندرو کا معائنہ کرنے کے بعد حلوائی سے کہا تھا کہ چندرو کے حلق میں کوئی پیدائشی نقص ہے، مگر آپریشن کرنے سے یہ نقص دور ہو سکتا ہے اور چندرو کو بولنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے مگر حلوائی نے کبھی اس نقص کو آپریشن کے ذریعے دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ سدھو نے سوچا یہ تو بہت اچھا ہے کہ نوکر گالی سن سکے مگر اس کا جواب نہ دے سکے۔

چندرو کا یہی نقص سدھو کی نگاہ میں اس کی سب سے بڑی خوبی بن گیا۔ اس دنیا میں مالکوں کی آدھی زندگی اسی فکر میں گزر جاتی ہے کہ کسی طرح وہ اپنے نوکروں کو گونگا کر دیں۔ اس کے لیے قانون پاس کئے جاتے ہیں، پارلیمنٹیں سجائی جاتی ہیں، اخبار نکالے جاتے ہیں، پولیس اور فوج کے پہرے بٹھائے جاتے ہیں۔ سن لو، مگر جواب نہ دو۔۔

اور چندرو تو پیدائشی گونگا تھا۔ یقیناً سدھو ایسا احمق نہیں ہے کہ اس کا آپریشن کروائے۔

سدھو بھی دل کا برا نہیں تھا۔ اپنے مخصوص حالات میں، مخصوص حدود کے اندر رہ کر اپنا مخصوص زاویۂ نگاہ رکھے ہوئے وہ چندرو کو اپنے طریقے سے چاہتا بھی تھا۔ وہ سمجھتا تھا اور اس بات پر خوش تھا اور اکثر اس کا فخریہ اظہار بھی کیا کرتا تھا کہ اس نے چندرو کی پرورش ایک بیٹے کی طرح کی ہے۔ کون کسی یتیم بچے کی اس طرح پرورش کرتا ہے۔ اس طرح پالتا پوستا اور بڑا کرتا ہے۔ کون اس طرح اسے کام پر لگاتا ہے۔ جب تک چندرو کا لڑکپن تھا، سدھو اس سے گھر کا کام لیتا رہا۔ جب چندرو لڑکپن کی حدود پھلانگنے لگا تو سدھو نے اس کی خاطر ایک نیا دھندہ شروع کیا۔

حلوائی کی دوکان پر تو اس کے اپنے بیٹے بیٹھتے تھے۔ اس نے چندرو کے لیے چاٹ بیچنے کا دھندہ طے کیا۔ ہولے ہولے اس نے چندرو کو چاٹ بنانے کا فن سکھا دیا۔ جل جیرہ اور کانجی بنانے کا فن۔ گول گپّے اور دہی بڑے بنانے کے طریقے۔ چٹخارہ پیدا کرنے والے تیکھے مصالحے۔ کُرکری پاپڑیاں اور چنے کا لذیذ مرچیلا سالن۔ بھٹورے بنانے اور تلنے کے انداز۔ پھر سموسے اور آلو کی ٹکیاں بھرنے کا کام۔ پھر چٹنیاں۔۔۔ لہسن کی چٹنی، لال مرچ کی چٹنی، ہرے پودینے کی چٹنی، کھٹی چٹنی، میٹھی چٹنی، ادرک کی چٹنی اور پیاز اور انار دانے کی چٹنی۔

پھر انواع و اقسام کی چاٹیں پروسنے کے انداز۔ دہی بڑے کی چاٹ، کانجی کے بڑے کی چاٹ۔ میٹھی چٹنی کے پکوڑوں کی چاٹ۔ آلو کی چاٹ۔ آلو اور آلو پاپڑی کی چاٹ۔ ہری مونگ کے گول گپے۔ آلو کے گول گپے۔ کانجی کے گول گپے۔ ہرے مصالحے کے گول گپے۔

جتنے برسوں میں چندرو نے یہ کام سیکھا، اتنے برسوں میں ایک لڑکا ایم اے پاس کر لیتا ہے پھر بھی بے کار رہتا ہے، مگر سدھو کا گھر بے کار گریجوٹوں کو اگلنے کی یونیورسٹی نہیں تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ چندرو اپنے کام میں مشاق ہو گیا ہے اور جوان ہو گیا ہے تو اس نے چار پہیوں والی ایک ہاتھ گاڑی خریدی۔ چاٹ کے تھال سجائے اور چندرو کو چاٹ بیچنے پر لگا دیا۔ ڈیڑھ روپیہ روز پر۔۔

جہاں چندرو چاٹ بیچنے لگا وہاں اس کا کوئی مد مقابل نہ تھا۔ سدھو نے بہت سوچ سمجھ کے یہ جگہ منتخب کی تھی۔ کھار لنکنگ روڈ پر اور پالی ہل کے چوراہے کے قریب، ٹیلی فون ایکسچینج کے سامنے اس نے چاٹ کی چار پہیوں والی سائیکل گاڑی کو کھڑا کیا۔ یہ جگہ بہت بارونق تھی۔ ایک طرف یونین بینک تھا، دوسری طرف ٹیلی فون ایکسچینج، تیسری طرف ایرانی کی دکان، چوتھی طرف گھوڑ بندر روڈ کا ناکہ، بیچ میں شام کے وقت کھاتے پیتے خوش باش، خوش لباس نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ہجوم بہتا تھا۔ چندرو کی چاٹ ہمیشہ تازہ عمدہ اور کراری ہوتی تھی۔

وہ بول نہیں سکتا تھا مگر اس کی مسکراہٹ بڑی دل کش ہوتی تھی۔ اس کا سودا ہمیشہ کھرا ہوتا تھا۔ ہاتھ صاف اور تول پورا۔ گاہک کو اور کیا چاہئے؟ چندرو کی چاٹ اس نوآبادی میں چاروں طرف مقبول ہوتی گئی اور شام کے وقت ا س کے ٹھیلے کے چاروں طرف نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ہجوم رہنے لگا۔ چندرو کو سدھو نے ڈیڑھ روپیہ روز پر لگایا تھا، اب اسے تین روپے روز دیتا تھا۔ اور چندرو جو ڈیڑھ روپے روز میں خوش تھا، اب تین روپیہ یومیہ پاکر بھی خوش تھا، کیوں کہ خوش رہنا اس کی عادت تھی۔

اسے کام کرنا پسند تھا اور وہ اپنا کام جانتا تھا اور اپنے کام سے اسے لگن تھی۔ وہ اپنے گاہکوں کو خوش کرنا جانتا تھا اور انھیں خوش کرنے میں اپنی خوشی محسوس کرتا تھا۔ دن بھر وہ چاٹ تیار کرنے میں مصروف رہتا۔ شام کے چار بجے وہ چاٹ گاڑی لے کر ناکے پر آجاتا۔ چار سے آٹھ بجے تک ہاتھ روکے بغیر آرام کا سانس لیے بغیر وہ جلدی جلدی کام کرتا۔ آٹھ بجے اس کا ٹھیلہ خالی ہوجاتا اور وہ اسے لے کر اپنے مالک کے گھر واپس آجاتا۔ کھانا کھاکے سنیما چلا جاتا۔ بارہ بجے رات کو سنیما سے لوٹ کر اپنی چٹائی بچھاکر سیڑھیوں کے پیچھے سوجاتا اور صبح پھر اپنے کام پر۔

یہ اس کی زندگی تھی، یہ اس کی دنیا تھی۔ وہ بے فکر اور زندہ دل تھا۔ نہ ماں نہ باپ، نہ بھائی نہ بہن، نہ بچے نہ بیوی۔ دوسرے لوگوں کے بہت سے خانے ہوتے ہیں۔ اس کا صرف ایک ہی خانہ تھا۔ دوسرے لوگ بہت سے ٹکڑوں میں بٹے ہوتے ہیں اور ان ٹکڑوں کو جوڑ کر ہی ان کی شخصیت دیکھی جا سکتی ہے۔ مگر چندرو ایک ہی لکڑی کا تھا۔ اور لکڑی کے ایک ہی ٹکڑے سے بنا تھا۔ جیسا وہ اندر سے تھا ویسا ہی وہ باہر سے بھی نظر آتا تھا۔ وہ اپنی ذات میں بے جوڑ اور مکمل تھا۔

سانولی پارو کو اسے پریشان کرنے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ کانوں میں چاندی کے بالے جھلاتی، پاؤں میں چھوٹی سی پازیب کھنکاتی جب وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ اس کے ٹھیلے کے گرد کھڑی ہوجاتی تو چندرو سمجھ جاتا کہ اب اس کی شامت آئی ہے۔ دہی بڑے کی پتّل تقریباً چاٹ کر وہ ذرا سا دہی بڑا اس پر لگا رہنے دیتی اور پھر اسے دکھا کر کہتی، ’’ابے گونگے، تو بہرہ بھی ہے کیا؟ میں نے دہی بڑے نہیں مانگے تھے دہی پٹاکری مانگی تھی۔ اب اس کے پیسے کون دے گا۔ تیرا باپ؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ اس بڑے کی تقریباً خالی پتل کو اسے دکھا کر بڑی حقارت سے زمین پر پھینک دیتی۔

وہ جلدی جلدی اس کے لیے دہی پٹاکری بنانے لگتا۔ پارو اس پٹاکری کی پتل صاف کر کے اس میں آدھی پٹاکری چھوڑ دیتی اور غصے سے کہتی، ’’اتنی مرچ ڈال دی؟ اتنی مرچی؟ چاٹ بنانا نہیں آتا ہے تو ٹھیلہ لے کر ادھر کیوں آتا ہے؟ لے اپنی پٹاکری واپس لے لے۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ دہی اور چٹنی کی پٹاکری اپنے ناخن کی کور میں پھنسا کر اس کے ٹھیلے پر گھماتی۔ کبھی اسے چھوٹی پٹاکریوں کے تھال میں واپس ڈال دینے کی دھمکی دیتی۔ اس کی سہیلیاں ہنستیں، تالیاں بجاتیں، چندرو دونوں ہاتھوں سے ناں ناں کے اشارے کرتا ہوا پارو سے اپنی جھوٹی پٹاکری زمین پر پھینک دینے کا اشارہ کرتا۔

’’اچھا سمجھ گئی تیرے چنوں کے تھال میں ڈال دوں؟‘‘ وہ جان بوجھ کر اس کا اشارہ غلط سمجھتی۔ جلدی جلدی گھبرائے ہوئے انداز میں چندرو زور زور سے سر ہلاتا پھر زمین کی طرف اشارہ کرتا۔ پارو کھلکھلا کر کہتی۔ ’’اچھا زمین سے مٹی اٹھا کر تیرے دہی کے برتن میں ڈال دوں؟‘‘ پارو نیچے زمین سے تھوڑی سی مٹی اٹھا لیتی۔ اس پر چندرو اور بھی گھبرا جاتا۔ دونوں ہاتھ زور زور سے ہلا کر منع کرتا۔

بالآخر پارو اسے دھمکاتی، ’’تو چل جلدی سے آلو کی چھ ٹکیاں تل دے اور خوب گرم گرم مصالحے والے چنے دینا اور ادرک بھی۔ نہیں تو یہ پٹاکری ابھی جائے گی تیرے کالے گلاب جامنوں کے برتن میں۔۔۔‘‘

چندرو خوش ہوکر پوری بتیسی نکال دیتا۔ ماتھے پر آئی ہوئی ایک گھنگریالی لٹ پیچھے کو ہٹاکے تولیے سے ہاتھ پونچھ کے جلدی سے پارو اور اس کی سہیلیوں کے لیے آلو کی ٹکیاں تلنے میں مصروف ہوجاتا۔

پھر کبھی کبھی پارو حساب میں بھی گھپلا کیا کرتی۔

’’ساٹھ پیسے کی ٹکیاں۔ تیس پیسے کی پٹاکری۔ دہی بڑے تو میں نے مانگے ہی نہیں تھے۔ اس کے پیسے کیوں ملیں گے تجھے۔۔۔ ؟ ہوگئے نوے پیسے۔ دس پیسے کل کے باقی ہیں۔۔۔ لے ایک روپیہ۔‘‘

گونگا چندرو پیسے لینے سے انکار کرتا۔ وہ کبھی پارو کی شوخ چمکتی ہوئی شریر آنکھوں کو دیکھتا۔ کبھی اس کی لمبی لمبی انگلیوں میں کپکپاتے ایک روپے کے نوٹ کو دیکھتا اور سرہلاکر انکار کردیتا اور حساب سمجھانے بیٹھتا۔ وہ وقت قیامت کا ہوتا تھا جب وہ پارو کو حساب سمجھاتا تھا۔ دہی بڑے کے تھال کی طرف اشارہ کر کے اپنی انگلی کو اپنے منہ پر رکھ کر چپ چپ کی آواز پیدا کرتے ہوئے گویا اس سے کہتا، ’’دہی بڑے کھا تو گئی ہو۔ اس کے پیسے کیوں نہیں دوگی۔۔۔ ؟‘‘

’’تیس پیسے دہی بڑے کے بھی لاؤ۔‘‘ وہ اپنے گلے میں سے تیس پیسے نکال کے پارو کو دکھاتا۔ اس پر فوراً چمک کر کہتی، ’’اچھا تیس پیسے مجھے واپس دے رہے ہو؟ لاؤ۔۔۔‘‘

اس پر چندرو فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیتا، ’’نہیں۔۔۔‘‘

انکار میں سر ہلا کے پارو کو سمجھاتا، ’’مجھے نہیں، تمھیں دیناہوں گے یہ تیس پیسے۔‘‘ وہ اپنی تہدیدی انگلی پارو کی طرف بڑھا کے اشارہ کر کے کہتا۔ اس پر پارو فوراً اسے ٹوک دیتی، ’’ابے اپنا ہاتھ پیچھے رکھ۔۔۔‘‘

پارو کی ڈانٹ سے لاجواب ہوکر بالکل بے بس ہوکر مجبور اور خاموش نگاہوں سے پارو کی طرف دیکھنے لگتا کہ پارو کو اس پر رحم آجاتا۔ جیب سے پورے پیسے نکال کے اسے دے دیتی اور بولتی، ’’تو بہت گھپلا کرتا ہے حساب میں۔ کل سے تیرے ٹھیلے پر نہیں آؤں گی۔‘‘

مگر وہ دوسرے دن وہ پھر آجاتی تھی۔ اسے چندرو کو چھیڑنے میں مزہ آتا تھا۔ اور اب چندرو کو بھی مزہ آنے لگا تھا۔ جس دن وہ نہیں آتی تھی، حالانکہ اس دن بھی اس کی گاہکی اور کمائی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا مگر جانے کیا بات تھی، چندرو کو وہ دن سونا سونا سا لگتا تھا۔

جہاں پر اس ٹھیلہ رکھا تھا، وہ اس کے سامنے کی ایک گلی سے آتی تھی۔ پہلے پہل چندرو کا ٹھیلہ بالکل یونین بینک کے سامنے ناکے پر تھا۔ ہولے ہولے چندرو اپنے ٹھیلے کو کھسکاتے کھسکاتے پارو کی گلی کے بالکل سامنے لے آیا۔ اب وہ دور سے پارو کو اپنے گھر سے نکلتے دیکھ سکتا تھا۔ پہلے دن جب اس نے ٹھیلہ یہاں لگایا تو پارو ٹھیلے کی بدلی ہوئی جگہ دیکھ کر کچھ چونکی تھی۔ کچھ غصے سے بھڑک گئی تھی۔

’’ارے تو ناکے سے ادھر کیوں آگیا رے گونگے؟‘‘

گونگے چندرو نے ٹیلی فون ایکسچینج کی عمارت کی طرف اشارہ کیا، جہاں وہ اب تک ٹھیلا لگاتا آرہا تھا۔ ادھر کیبل بچھانے کے لیے زمین کھودی جارہی تھی اور بہت سے کالے کالے پائپ رکھے ہوئے تھے۔

وجہ معقول تھی۔ پارو لاجواب ہوگئی۔ پھر کچھ نہیں بولی۔ لیکن جب کیبل بچھ گئے اور زمین کی مٹی ہموار کردی گئی تو بھی چندرو نے اپنا ٹھیلہ نہیں ہٹایا، تو بھی وہ کچھ نہیں بولی۔ ہاں اس کے چنچل سبھاؤ میں ایک عجیب تیزی سی آگئی۔ وہ اسے پہلے سے زیادہ ستانے لگی۔

پارو کی دیکھا دیکھی اس کی دوسری سہیلیاں بھی چندرو کو ستانے لگیں اور کئی چھوٹے چھوٹے لڑکے بھی۔ مگر لڑکوں کو تو چندرو ڈانٹ دیتا اور وہ جلدی سے بھاگ جاتے۔ ایک بار ا س نے پارو کی سہیلیوں سے عاجز آکر انھیں بھی ڈانٹ بتائی، تو اس پر پارو اس قدر ناراض ہوئی کہ اس نے اگلے تین چار روز تک چندرو کو ستانا بند کردیا۔ اس پر چندرو کو ایسا لگا کہ آسمان اس پرڈھے پڑا ہو۔ اس کے پیروں تلے زمین پھٹ گئی ہو۔ یہ پارو مجھے ستاتی کیوں نہیں ہے؟ طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے اس نے چاہا کہ پارو اسے ڈانٹ پلائے، لیکن جب اس پر بھی پارو کے انداز نہیں بدلے اور وہ ایک مہذب متمدن لیکن چاٹ بیچنے والے چندرو ایسے چھوکروں کو فاصلے پر رکھنے والی لڑکی کی طرح اس سے چاٹ کھاتی رہی، تو چندرو اپنی گونگی حماقتوں پر بہت نادم ہوا۔

ایک دفعہ اس نے بجائے پارو کے خود سے حساب میں گھپلا کردیا۔ سوا روپیہ بنتا تھا۔ اس نے پارو سے پونے دو روپے طلب کیے جان بوجھ کر۔ خوب لڑائی ہوئی۔ جم کے لڑائی ہوئی۔ بالآخر سر جھکاکر چندرو نے اپنی غلطی تسلیم کرلی اور یہ گویا ایک طرح پچھلی تمام غلطیوں کی بھی تلافی تھی۔

چندرو بہت خوش ہوا کیونکہ پارو اور اس کی سہیلیاں اب پھر اسے ستانے لگی تھیں۔

بس اسے اتنا کچھ ہی چاہئے۔ ایک پازیب کی کھنک اور ایک شریر ہنسی جو پھلجھڑی کی طرح اس کی گونگی سنسان دنیا کے ویرانے کو ایک لمحہ کے لیے روشن کردے۔ پھر جب پارو کے قدم سہیلیوں کے قدموں میں گڈمڈ ہوکے چلے جاتے، وہ اس کے پازیب کی کھنک کو دوسری پازیبوں کی کھنک سے الگ کر کے سن سکتا تھا۔ کیونکہ دوسری لڑکیاں بھی چاندی کی پازیبیں پہنتی تھیں مگر پارو کی پازیب کی موسیقی ہی کچھ اور تھی۔ یہ موسیقی جو اس کے کانوں میں نہیں، اس کے دل کے کسی تنہا، تاریک اور شرمیلے گوشے میں سنائی دیتی تھی۔ بس اتنا ہی کافی تھا اور وہ اسی میں خوش تھا۔

اچانک مصیبت نازل ہوئی۔۔۔ ایک دوسرے ٹھیلے کی صورت میں۔ کیا ٹھیلہ تھا یہ! بالکل نیا اور جدید ڈیزائن کا۔ چاروں طرف چمکتا ہوا کانچ لگا تھا اور نیچے دائیں بائیں چاروں طرف لال، پیلے، اودے اور نیلے رنگ کے کانچ تھے۔ گیس کے دو ہنڈے تھے، جن سے یہ ٹھیلہ بقعۂ نور بن گیا تھا۔ پتل کی جگہ چمکتی ہوئی چینی کی پلیٹیں تھیں۔ ٹھیلے والے کے ساتھ ایک چھوٹا سا چھوکرا بھی تھا، جو گاہک کو بڑی مستعدی سے ایک پلیٹ اور ایک صاف ستھری نیپکن بھی پیش کرتا تھا اور پانی بھی پلاتا تھا۔ چاٹ والے کے گھڑے کے گرد موگرے کے پھولوں کا ہار بھی لپٹا ہوا تھا اور ایک چھوٹا ہار چاٹ والے نے اپنی کلائی پر بھی باندھ رکھا تھا، اور جب وہ مسالہ دار پانی میں گول گپے ڈبو کر پلیٹ میں رکھ کر گاہک کے ہاتھوں کی طرف سرکاتا تو چاٹ کی کماری خوشبو کے ساتھ گاہک کے نتھنوں میں موگرے کی مہک بھی شامل ہوجاتی اور گاہک مسکراکر نئے چاٹ والے سے گویا کسی تمغے کی طرح اُس پلیٹ کو حاصل کرلیتا۔

اور نیا چاٹ والا گونگے چاٹ والے کی طرف تحقیر سے دیکھ کر پرنخوت آواز میں زور سے کہتا، ’’چکھیے!‘‘

ایک ایک دو دو کر کے چندرو کے بہت سے گاہک ٹوٹ کر نئے ٹھیلے والے کے گرد جمع ہونے لگے تو بھی چندرو کو زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ پھرآجائیں گے، یہ اونچی دکان پھیکے پکوان والے کب تک چندرو کی سچی اصلی اور صحیح مسالوں میں رچی ہوئی چاٹ کا مقابلہ کریں گے۔ ہم بھی دیکھ لیں گے۔ اس نے دو ایک گاہکوں کو نئے چاٹ والے کی طرف جاتے ہوئے کنکھیوں سے دیکھ بھی لیا تھا اور اسے یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ چکنی چمکتی پلیٹوں اور ہوٹل نما سروس کے باوجود انھیں نئے چاٹ والے کی چاٹ زیادہ پسند نہیں آرہی ہے۔

وہ پہلے سے بھی زیادہ مستعد ہوکر اپنے کا م میں جٹ گیا۔ یکایک اس کے کانوں میں پازیب کی ایک کھنک سنائی دی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک گیا۔ اس نے نگاہ اٹھا کے دیکھا۔

گلی سے پارو پازیب کھنکاتی اپنی سہیلیوں کے سنگ برآمد ہورہی تھی۔ جیسے چڑیاں چہکیں ایسے وہ لڑکیاں بول رہی تھیں۔ کتنی ہی بڑی بڑی اور شوخ نگاہیں تھیں۔ فضا میں ابابیلوں کی طرح تیرتی ہوئیں وہ سڑک پار کر کے اس کے ٹھیلے کی طرف بڑھنے لگیں۔

اچانک پارو کی نگاہیں نئے ٹھیلے والے کی طرف اٹھیں۔

وہ رک گئی۔

اس کی سہیلیاں بھی رک گئیں۔

وہ سانس لیے بغیرپارو کی طرف دیکھنے لگا۔

پارو نے ایک اچٹتی سی نگاہ چندرو کے ٹھیلے پر ڈالی، پھر نخوت سے اس نے منھ پھیر لیا اور اک ادائے خاص سے مڑ کر اپنی سہیلیوں کو لے کر نئے ٹھیلے والے کے پاس پہنچ گئی۔

’’تم بھی۔۔۔؟ تم بھی۔۔۔؟ پارو تم بھی۔۔۔؟‘‘

چندرو کا چہرہ غصے اور شرم سے لال ہوگیا۔ رگوں اور نسوں میں خون گونجنے لگا، جیسے اس کا حلق خون سے بھر گیا ہو۔ وہ کچھ بول نہیں سکا۔ مگر اسے دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ بولنے کی کوشش کر رہا ہو۔ وہ اس موٹی دیوار کو توڑ دے گا جو اس کی روح کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ اس کے چہرے کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ ابھی چیخ کر کہے گا، ‘‘ تم بھی!؟ تم بھی؟ پارو۔۔۔ تم بھی؟‘‘ مگر خون اس کے حلق میں بھر گیا تھا۔ اس کے کان کسی بڑھتے ہوئے طوفان کی آوازیں سن رہے تھے اور اس کا سارا بدن تھر تھر کانپ رہا تھا۔ گویائی کی آخری کوشش گویا کسی لوہے کی دیوار سے ٹکرا کر ٹوٹ گئی تھی۔ اور وہ سرجھکا کر اپنے گاہکوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔

مگر اس بے چین پازیب کی کھنک ابھی تک اس کے دل میں تھی۔ پارو اور اس کی سہیلیاں نئے ٹھیلے والے کے گرد جمع انواع و اقسام کی چاٹیں کھائے چلی رہی تھیں اور بیچ بیچ میں تعریفیں کرتی جارہی تھیں۔ ان سب میں پارو کی آواز سب سے اونچی تھی۔

’’ہائے کیسی لذیذ چاٹ ہے۔ کیسے برابر کے مسالے ہیں۔ اس موئے (نام نہ لے کر محض اشارہ کر کے) پرانے ٹھیلے والے کو تو چاٹ بنانے کی تمیز ہی نہیں ہے۔‘‘

اب تک جھوٹی پتلوں میں چاٹ کھلاتا رہا ہے۔‘‘

’’اری اس کے ہاتھ تو دیکھو۔۔۔‘‘ پارو نے چمک کر چندرو کی طرف اشارہ کیا۔

’’کیسے گندے اور غلیظ۔۔۔ معلوم ہوتا ہے سات دن سے نہایا نہیں۔۔۔‘‘

’’ایک نیپکن تو ہے نہیں اس کے پاس۔۔۔ جب ہاتھ پونچھنے کے لیے مانگو، وہی اپنا گندا میلا تولیہ آگے کردیتا ہے۔‘‘

’’اونہہ۔۔۔‘‘ پارو کے پتلے پتلے ہونٹ نفرت سے خم ہوگئے، ’’میں تو کبھی اس چاٹ والے کے ٹھیلے پر تھوکوں بھی نا۔‘‘

اس کے آگے چندرو کچھ سن نہ سکا۔ ایک لال آندھی اس کی آنکھوں میں چھا گئی۔ وہ گونگوں کی سی ایک وحشت زدہ چیخ کے ساتھ اپنا ٹھیلہ چھوڑ کر آگے بڑھا اور اس نے نئے ٹھیلے والے کو جالیا اور اس سے گتھم گتھا ہوگیا۔ لڑکیاں چیخ مار کر پیچھے ہٹ گئیں۔

چندرو نئے ٹھیلے والے اور اس کے چھوکرے دونوں پر بھاری ثابت ہوا۔ چندرو ایک وحشی جانور کی طرح لڑ رہا تھا۔ اس نے نئے ٹھیلے والے کو مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔ اس کے ٹھیلے کے سارے کانچ توڑ ڈالے۔ چھوکرے کی پٹائی کی۔ نیا ٹھیلہ مع اپنے ساز و سامان کے سڑک پر اوندھا دیا۔ پھر سڑک کے بیچ کھڑا ہوکر زور زور سے ہانپنے لگا۔

پولیس آئی اور اسے گرفتار کر کے لے گئی۔

عدالت میں اس نے اپنے جرم کا اقبال کرلیا۔ عدالت نے اسے دو ماہ قید کی سزا دی اور پان سو روپیہ جرمانہ۔ اور جرمانہ نہ دینے پر چار ماہ قید بامشقت۔

سدھو حلوائی نے جرمانہ نہیں بھرا۔

اور دوسرا کون تھا جو جرمانہ ادا کرتا؟

چندرو نے پورے چھ ماہ کی جیل کاٹی۔

جیل کاٹ کر چندرو پھر سدھو حلوائی کے گھر پہنچ گیا۔ کوئی دوسرا اس کا ٹھکانہ بھی نہیں تھا۔ سدھو حلوائی پہلے تو اسے دیر تک گالیاں دیتا رہا اور اس کی حماقت پر اسے بے نقط سناتا رہا اور دیر تک چندرو سر جھکائے خاموشی سے سب کچھ سنتا رہا۔ اگر وہ گونگا نہ بھی ہوتا تو کس سے کیا کہتا۔ اس کا جرم یہ نہیں تھا کہ اس نے ایک ٹھیلے والے کو مارا تھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے ایک پازیب کی کھنک سنی تھی۔

جب سدھو حلوائی نے خوب اچھی طرح گالیاں دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تو اس نے اسے پھر کام پر لگا لیا۔ آخر کیا کرتا۔ چندرو بے حد ایمان دار، محنتی اور اپنے کام میں مشتاق تھا۔ جب جیل کاٹ کر آیا ہے تو تھوڑی سی عقل بھی آگئی ہوگی کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس نے خوب اچھی طرح سمجھا بجھا کے دو تین دن کے بعد پھر سے چندرو کو اسی اڈے پر ٹھیلہ دے کر روانہ کردیا۔

چندرو کی غیر حاضری میں سدھو نے ایک اچھا کام کیا تھا۔ اس نے چندرو کے ٹھیلے پر نیا رنگ روغن کرادیا تھا۔ کانچ بھی لگا دیا تھا۔ پتلوں کی جگہ کچھ سستی قسم کی چینی کی پلیٹیں اور چمچے بھی رکھ دیے تھے۔

چندروچھ ماہ بعدپھر سے ٹھیلہ لے کر روانہ ہوا۔ آٹھویں، دسویں اور گیارہویں سٹرک پار کر کے لنکنگ روڈ کے ناکے پر آیا۔ یونین بینک سے گھوم کر ٹیلی فون ایکسچینج کے پاس پہنچا۔ اس نے دیکھا۔ جہاں پر پہلے اس کا ٹھیلہ تھا، اب اس جگہ اس نئے ٹھیلے والے نے قبضہ کرلیا تھا۔ وہی چھوکرا ہے، وہی ٹھیلہ والا ہے۔ اس ٹھیلے والے نے گھور کر چندرو کو دیکھا۔ چندرو نے اپنی نظریں چرالیں۔ اس نے نئے ٹھیلے والے سے کچھ فاصلے پر ایکسچینج کے ایک طرف اپنا ٹھیلہ روک دیا اور گاہکوں کا انتظار کرنے لگا۔

چار بج گئے، پانچ بج گئے، چھ بج گئے۔ کوئی گاہک اس کے پاس نہیں پھٹکا۔ دو ایک گاہک آئے مگر وہ نئے تھے اور اسے جانتے نہیں تھے۔ چار چھ آنے کی چاٹ کھاکر چل دیے۔ افسردہ دل چندرو سرجھکائے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کبھی تولیہ لے کر کانچ چمکاتا۔ ڈوئی ڈال کر گھڑے میں مسالے دار پانی کو ہلاتا۔ انگیٹھی میں آنچ ٹھیک کرتا۔ ہولے ہولے آلو کے بھرتے میں مٹرکے دانے اور مسالے ڈال کر ٹکیاں بناتا رہا۔

پھر یکایک اس کے کانوں میں پازیب کی کھنک سنائی دی۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ خون رخساروں کی طرف دوڑنے لگا۔ وہ اپنے جھکتے ہوئے سر کو اوپر اٹھانا چاہتا تھا، مگر اس کا سر اوپر نہیں اٹھتا تھا۔۔۔ پازیب کی کھنک اب سڑک پر آگئی تھی۔

پھر جسم و جان کا زور لگاکر اس نے اپنی گری ہوئی گردن کو اوپر اٹھایا اور جب دیکھا تو اس کی آنکھیں پارو پر جمی کی جمی رہ گئیں۔ اس کے ہاتھ سے ڈوئی گر گئی اور تولیہ اس کے کاندھے سے اترکر نیچے بالٹی میں بھیگ گیا اور ایک گاہک نے قریب آکر کہا، ’’مجھے دو سموسے دو۔‘‘

مگر اس نے کچھ نہیں سنا۔ اس کے بدن میں جتنے حواس تھے، جتنے احساس تھے، جتنے جذبات تھے، سب کھنچ کر اس کی آنکھوں میں آگئے تھے۔ اب اس کے پاس کوئی جسم نہ تھا، صرف آنکھیں ہی آنکھیں تھیں۔

یہ اس کا ٹھیلہ تھا۔ وہ چند قدم پر دوسرا ٹھیلہ تھا۔۔۔ اور وہ تکے جارہا تھا۔ پارو کدھر جائے گی؟

ہولے ہولے سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہوئے گاہے گاہے اس کی طرف دیکھتے ہوئے لڑکیاں سڑک پر چلتے ہوئے ان دونوں ٹھیلوں کے قریب آرہی تھیں۔ زیر لب بحث دھیرے دھیرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

یکایک جیسے اس بحث کا خاتمہ ہوگیا۔ لڑکیوں نے سڑک پار کر کے نئے ٹھیلے والے کے ٹھیلے کو گھیر لیا۔

مگر چندرو کی نگاہیں نئے ٹھیلے والے کی طرف نہیں پھریں۔ وہ اس خلا میں دیکھ رہا تھا، گلی اور سڑک کے سنگم پر جہاں آج چھ ماہ کے بعد اس نے پارو کو دیکھا تھا۔ وہ سر اٹھائے دنیا و مافیہا، گردو پیش سے بے خبر ادھر ہی دیکھتا رہا۔

وہ پتھر کی طرح کھڑا صرف خلامیں دیکھ رہا تھا۔

یکایک بڑی تیزی سے اکیلی پارو اپنی سہیلیوں سے کٹ کر اس کے ٹھیلے پر آگئی اور چپ چاپ اس کے سامنے ایک مجرم کی طرح کھڑی ہوگئی۔

اسی لمحہ گونگا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

وہ آنسو نہیں تھے۔ الفاظ تھے۔۔۔ شکرانے کے۔ دفتر تھے شکایتوں کے۔۔۔ ابلتے ہوئے آنسو۔۔۔ فصیح اور بلیغ جملوں کی طرح اس کے گالوں پر بہتے آرہے تھے اور پارو سر جھکائے سن رہی تھی۔

آج پارو گونگی تھی اور چندرو بول رہا تھا۔ ارے وہ کیسے کہے اس پگلے سے کہ پارو نے بھی تو چھ ماہ انھیں آنسوؤں کا انتظار کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close