بادِ نو بہار (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

رخشندہ بتول

اس نے دیکھا کہ جن حویلیوں کے در دیمک کھا گئی، ان کی خستہ اینٹوں سے نئی کونپلیں جنم لے رہی تھی۔برسوں پہلے جہاں صور پھونک دیا گیا تھا، وہاں سے قلقاریوں کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں۔ بے رنگ دریچوں پر لٹکے پھٹے ہوئے پردوں کے پیچھے سے جو اداس آنکھیں جھانکتی تھیں، ان آنکھوں میں شوخی بھری تھی۔

اس ویرانی کی جگہ نئے خواب تھے۔ اس کے محلے کی وہ بیوہ جس کو اس نے برسوں دودھ رنگ چادر اوڑھے دیکھا تھا، اس کی مانگ میں بھی ستارے چمک رہے تھے۔ مسلسل کالی گھٹاؤں کے بعد سنہری دھوپ نے شہر کا نقشہ ہی بدل دیا۔

برسوں بعد اس پینتیس سالہ بوڑھے کی آج نہ تو سانس پھول رہی تھی اور نہ ہی کھانسی کا دورہ پڑ رہا تھا۔ وہ شہر کے زنگ آلود تالوں کی جگہ لٹکی خوش رنگ بیلوں کو ہاتھ لگا لگا کر بچوں کی طرح خوش ہو رہا تھا۔ وہ اپنی ترنگ میں بھاگتا زندگی کو محسوس کر رہا تھا۔

چند بڑی عمارتوں میں سے وہ مکروہ چہرے بھی جھانکتے نظر آئے، جن کے خلاف وہ قلم اٹھاتا تو اسے ہاتھ توڑ دینے کی دھمکیاں ملتیں۔ آج یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ اس کے سچ لکھنے کی وجہ سے اس کے شکر گزار ہوں کہ اس نے انہیں آئینہ دکھایا اور وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہیں۔

اس کے ساتھی لکھاری، جو ان ’بڑے‘ لوگوں کی چمچہ گیری کے سوا کچھ نہ لکھتے تھے، آج اس پر ہنس نہیں رہے تھے بلکہ اس کی تحریروں کو سراہتے ہوئے اس سے بغلگیر ہونے لگے۔

عصر کے قریب وہ قبرستان پہنچا۔ جن لاوارث قبروں پر کوئی فاتحہ پڑھنے والا نہ تھا، ان پر بھی اب کے بارش نے رنگ برنگے پھول کھلا دیے تھے۔

آج شام کو جلسہ تھا۔ بابا کی قبر پر فاتحہ پڑھ کے وہ جلدی سے گھر پہنچا۔ اس نے ماں کا ماتھا چوما، جس کی پتھرائی آنکھیں نجانے کب سے اس کی منتظر تھیں۔معلوم نہیں کتنے عرصے بعد اس نے ماں کی مسکراہٹ دیکھی۔ اس نے اس سکون کو چند لمحے محسوس کیا اور اپنے کمرے میں گھس گیا۔ اپنا اکلوتا سفید جوڑا استری کیا اور جلسے میں جا پہنچا۔ وہاں اس کے بہت سے لاپتہ ساتھی موجود تھے، سب کے چہرے پہ زندگی تھی۔

جلسہ گاہ کی رونق اور گہما گہمی کو نعروں کی گونج سے چار چاند لگے ہوئے تھے۔ نعروں کا شور تھما تو صاحب ِعالم نے تقریر شروع کی۔فرمانے لگے، ”نظامِ بدل گیا ہے۔۔ اب سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے پر کوئی پابندی نہیں۔ ہمارے شہر میں اب کسی کو زہر کا پیالہ نہیں دیا جائے گا۔ کوئی سچ بولنے والا سولی نہیں چڑھے گا۔۔۔ صرف جھوٹ کا سر قلم کیا جائے گا۔۔ آئندہ کوئی خیر خواہ باغی نہیں کہلائے گا۔۔۔۔“

وہ ابھی بول رہے تھے کہ عوام نے دوبارہ جوش میں آ کر نعرے لگانا شروع کر دئیے۔ ”صاحبِ عالم۔۔۔۔ زندہ باد! صاحبِ عالم۔۔۔۔ زندہ باد!“

اس نے بھی اپنا بازو زور سے ہوا میں لہرایا اور زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ اچانک ایک کراہ کے ساتھ اس کی آنکھ کھلی۔ اس کا بازو کال کوٹھری کی بدرنگ دیوار کے ساتھ زور سے ٹکرایا۔ معلوم نہیں رات کا کون سا پہر تھا۔ کمرے کے باسی ماحول میں موجود گھٹن سے اس کی سانس بند ہونے لگی۔ اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑا۔ داروغہ کی نیند میں خلل پڑا تو اسے موٹی سی گالی سے نوازتے ہوئے بولا: ”یہ لکھاری سالا۔۔۔پھانسی سے پہلے کھانسی سے مر جائے گا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close