ٹفن میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ کَلُّو نے امرودوں کا ٹھیلا اسکول کے گیٹ سے ذرا سا ہٹ کر کھڑا کیا کہ آنے جانے والوں کو دقت نہ ہو۔ یہ ایک مشنری اسکول تھا۔ تیسرے اسٹینڈرڈ تک لڑکے بھی لیے جاتے تھے لیکن اس کے بعد صرف لڑکیاں۔
زیادہ تر بچے امرودوں کے بڑے شوقین تھے۔ ماں باپ سیب، انگور کھلائیں تو نہ کھائیں لیکن امرودوں پر ٹوٹے پڑتے تھے۔ ادھر مال کم آ رہا تھا، دام بڑھ گئے تھے۔ ایک کلو پر دس روپے کا منافع تھا۔ کہیں زیادہ بچ گئے اور باسی تباسی ہوئے تو ایک کلو پر پانچ روپے بھی مل جاتے تو غنیمت جانتا۔ بچے تو بس ایک ایک امرود تلواتے تھے۔ ذرا بڑا لیا تو کوئی ڈیڑھ سو گرام کا پھل ہوتا۔ سیچ سے چاقو سے شگاف کر کے وہ اس میں کالے نمک والا چٹپٹا مسالہ لگا دیتا تھا۔ بچے بے حد خوش۔
اسکول کا ٹفن ختم ہوتا تو وہ یہاں سے چل دیتا۔ پاس میں چوراہا تھا، وہاں جا کر کھڑا ہو جاتا۔ بیر اور رس بھری کے موسم میں ٹھیلے پر یہ پھل بھی آ جاتے تھے۔
اسکول کے سامنے تو بِکری دراصل چورن کی گولیوں اور ایسی ہی دو چار لٹرپٹر چیزوں کی ہوا کرتی تھی، جیسے کرکرے اور بہت چمکیلے نقصان دہ رنگوں والی کُھلی بِکتی ٹافیاں۔۔ کچھ عرصہ پہلے ننز (Nuns) نے اس میں ٹانگ اڑا دی تھی۔ ان کا بکنا ممنوع ہو گیا تھا۔ اب وہ انہیں ایک چھوٹے سے جھولے میں امرود یا دوسرے جو پھل بیچتا، ان کے نیچے چھپا کر رکھا کرتا تھا۔ دام بھی بڑھا دئیے تھے۔ لڑکیاں چپکے سے پھسپھسا کر کہتیں۔ ’کلو بھیا، وہ دو نا، وہ چورن کی گولیاں۔۔‘ اور راز دارانہ انداز میں ادھر ادھر دیکھتیں۔ اصل میں گیٹ پر کھڑا دربان بڑا ہی بدمعاش تھا وہ ٹیچروں سے چغلی کر دیتا۔ پہلے تو خود ہی جھاڑ پلاتا تھا۔ کئی بار اسے بیڑی پینے کے لیے پیسے دینے پڑ جاتے۔ یا پھر دو ایک امرود مفت دینے ہوتے تھے۔ لڑکیاں اس طرح رازداری برت کر وہ ممنوع چورن لیتیں تو کَلُّو کو بڑا مزا آتا۔ اسے ایک طرح کے ایڈونچر کا احساس ہوا کرتا تھا، جیسے وہ چورن کی گولیاں نہ ہوں بلکہ نشے کی گولیاں ہوں اور وہ جرم کی دنیا میں شریک ہو گیا ہو۔
جرم کی ایک دنیا ہے، اِس کا اسے علم تھا۔ اپنی تمام تر حماقت، تمام تر کم علمی کے باوجود، لیکن وہ بےانتہا ڈرپوک تھا۔ اسے تو دربان تک سے ڈر لگتا تھا، اس لیے وہ اپنے امرودوں اور انہیں خریدنے والے بچوں کے ساتھ بہت خوش تھا۔ وہ پریوں جیسی لڑکیاں کسی دوسری دنیا کی باسی تھیں۔ کچھ بہت چھوٹی، کچی کلیوں جیسی اور کچھ شباب کی دہلیز پر قدم رکھتی ان پھولوں جیسی، جو کھلنے والے ہی ہوں۔
کھلتے بند ہوتے گیٹ سے اسکول کا چمن بالکل صاف دکھائی دیتا تھا جو ہمیشہ شاداب رہا کرتا تھا۔ اس چمن کے اتنے قریب، ان لڑکیوں کے درمیان کھڑا وہ بدنما دانتوں والا کالا کلوٹا کلو خود کو کچھ ایسا محسوس کرتا تھا، جیسے پرستان میں پہرہ دینے کو ایک کالا سانپ مقرر کر دیا گیا یا کوئی بھوت۔۔ اوپر والے نے پیسہ کوڑی نہیں دیا تھا لیکن صورت تو دے دیتا۔ اکثر یہ بات سوچتے رہنے کے بعد اب اس نے اس پر توجہ دینی بند کر دی تھی۔ اپنی صورت اور ان بچوں کے تفاوت کو بھول کر وہ پیسہ کمانے پر توجہ دے رہا تھا، اس لیے کہ اس کی ماں کا کہنا تھا کہ اب وہ بڑا ہو چکا ہے اور کچھ دن بعد اس کی شادی کرنی ہوگی۔ ایسا چھڑا گھومتا رہا تو بری عادتوں میں پڑ جائے گا۔ پھر شادی تو ضروری ہے۔ سب کی ہوتی ہے۔۔ لیکن جس آڑھتی سے وہ امرود اور دوسرے پھل لے کر آتا تھا، اس کا کہنا تھا کہ عورت تو بذاتِ خود ایک بری عادت ہے۔
اس نے ٹھنڈی سانس کھینچی۔
ایک بڑی پیاری سی لڑکی اس کے بہت قریب آ کر کہہ رہی تھی، ”کلو بھیا وہ۔۔۔ وہ والا امرود دو نا، وہ جو ذرا ہرا ہرا سا ہے۔“ پھر وہ اس کی طرف پوری جھک گئی، ’’گولیاں ہیں؟‘‘ اس نے سرگوشی کی۔
’’ہیں۔‘‘ کلو کے بڑے بڑے دانت ایک کان سے دوسرے کان تک پھیلی مسکراہٹ میں مزید بدصورت ہو اٹھے، لیکن لڑکیاں اس کی بدصورتی کی اسی طرح عادی تھیں جیسے وہ ان کے حسن کا عادی ہو گیا تھا۔ ان کی بارونق شکلیں، ان کے نفاست سے گوندھے ہوئے بال، ان کی سلیقے سے استری کی ہوئی اسکول کی یونیفارم۔ ان کے چھوٹے تراشے ہوئے ناخونوں میں کبھی بال پوائنٹ پین کی روشنائی لگ جاتی تو وہ ٹفن بریک میں نلوں کی قطار پر کھڑی رگڑ رگڑ کر اسے چُھڑاتی نظر آتیں۔
وہ اتنے عرصے سے اسکول کی فضا کا حصہ بنا ہوا تھا کہ اسکول کی بلڈنگ، سڑک، بجلی کے کھمبوں، دو رویہ کھڑے پیپل اور گل مہر کے درختوں اور اکثر نکلنے والی آوارہ گایوں اور کتوں سے الگ اس کا کوئی وجود نہیں رہ گیا تھا۔ لیکن ان لمحوں میں جب کوئی پیاری سی لڑکی اس کی طرف جھک کر سرگوشی میں پوچھتی ’کلو بھیا، گولی لائے ہو؟‘ تو وہ خود کو بے حد اہم سمجھا کرتا تھا۔ بُعد المشرقین کے باوجود گاہک اور دوکاندار دونوں نے ایک دوسرے کو نہایت دریا دلی کے ساتھ قبول کر لیا تھا۔ وہ جتنی دیر اسکول کے سامنے ٹھیلا لگاتا، بڑا خوش خوش رہا کرتا تھا۔
اسکول کا ٹفن عموماً ساڑھے گیارہ بجے ہوتا تھا۔ سخت سردیوں میں تو مہینہ بھر کی چھٹیاں ہو جاتیں۔ جب تک ٹھنڈ رہتی، تب تک اس کی روٹین میں تبدیلی آ جاتی تھی۔ شام کو وہ بھنے چنوں اور نمکین کا ٹھیلہ لے کر سبزی مارکیٹ چلا جاتا تھا۔ وہاں کئی سبزی فروش چائے والے سے چائے لیتے اور کلو سے نمکین یا بھنے چنے لے کر شام کو کچھ ناشتہ کرتے کہ گھر جاتے جاتے انہیں بہت دیر ہو جایا کرتی تھی۔ سب ملا جلا کر کلو کو مہینے میں تین ہزار تو مل ہی جاتے تھے۔ کبھی آمدنی کچھ زیادہ بھی ہو جاتی، کبھی کچھ کم۔۔ اس کا ٹھیلا کرایے کا تھا۔ ابھی تک وہ اپنا ٹھیلا نہیں خرید پایا تھا، پھر شہر میں اس کا اپنا مکان کہاں سے ہوتا۔ وہ ایک ایسا خواب تھا، جسے وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا، اس لیے کہ جو چیزیں اس حد تک غیرحقیقی ہوں، جیسے اپنا گھر، وہ بھی شہر میں۔۔ ان کے بارے میں تو نہ سوچنا چاہیے، نہ انہیں خواب میں دیکھنا چاہیے۔ خواب سے آنکھ کھلنے کے بعد یا تو ہنسی آئے گی یا چھاتی میں درد ہوگا۔
کلو تو کرائے کے مکان میں بھی نہیں رہتا تھا، بلکہ وہ جہاں رہتا تھا، وہ مکان تھا بھی نہیں۔۔ تھا کیا؟ تھا کیا؟ اگر مٹی کی اتنی اونچی دیواریں اٹھائی جائیں کہ ان میں ایک جوان، آدمی گھس سکے اور امن پر موٹی، نیلے رنگ کی ترپال ڈال لی جائے تو وہ گھر ہوتا ہے؟ ارے بھائی گھر وہ ہوتا ہے، جہاں آدمی رہے۔ تو ٹھیک ہے کلو، اس کی ماں اور ایک چھوٹا بھائی جس میں رہتے تھے، وہ گھر تھا تو۔۔ ہر دو چار مہینے بعد پولیس والے اجاڑے جاتے تھے، وہ پھر سر اٹھا کر اسی جگہ اگ آتا تھا۔ گرمی میں دھوپ، برسات میں بارش سے پناہ دیتا تھا۔ تو وہ گھر نہیں تھا کیا!؟ اس کے سامنے اس کی ماں نے مٹی کا چولہا بنا لیا تھا اور ایک سل گاڑ رکھی تھی۔ اندر کونے میں ان تین نفوس کے ساتھ المونیم کی دو پتیلیوں دو ایک کٹوروں اور دو تین رکابیوں کے لیے جگہ تھی۔۔ اور وہاں ایک ٹین کا بکسا بھی تھا، اسی میں تینوں کے کپڑے رہا کرتے تھے۔ گرہستی تھی نا؟ گھر بھی تھا اور گرہستی بھی۔۔ اور کلو نہیں جانتا تھا کہ ایک ماہرِ معاشیات نے کہا تھا کہ اگر شہر میں کسی شخص کی آمدنی سینتیس روپے یومیہ ہے تو اسے خطِ افلاس سے نیچے نہیں رکھا جا سکتا۔ کلو سینتیس روپے یومیہ سے بہت زیادہ کما رہا تھا، اس لیے وہ خطِ افلاس سے بہت اوپر تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی جو دن بھر بڑا سا اور موٹا سا پلاسٹک کا تھیلا لے کر کوڑا چنتا گھومتا، دس روپے یومیہ کما لاتا تھا۔ بیشک وہ خطِ افلاس سے نیچے تھا۔
ہو سکتا ہے کلو اپنی حمایت میں کبھی گھر کا سپنا دیکھ لیتا لیکن وہ معاشیات یا ماہرِ معاشیات کو سپنے میں نہیں دیکھ سکتا تھا، اس لیے کہ وہ ان تصورات کو اور ان لوگوں کو نہیں جانتا تھا اور جسے لوگ نہیں جانتے، ان کو خواب میں بھی نہیں دیکھتے۔ ویسے کلو کی آمدنی تینوں پر تقسیم کی جاتی تھی تو وہ ان تینوں کو خطِ افلاس سے نیچے گرنے سے روک لیتی تھی۔ یا ٹھیک کگار پر لا کر کھڑا کر دیتی تھی، اس لیے کہ اس آمدنی میں بیس روپیہ روز ٹھیلے کا کرایہ بھی شامل تھا۔ پھر اس کے بھائی کے دس روپے روز۔۔ ماہرینِ معاشیات اکثر بحث کرتے نظر آتے تھے کہ یہ کنبہ خط افلاس سے نیچے ہے یا اوپر۔ یہ ماہرین مٹی کی دیواروں پر موٹے نیلے پلاسٹک کی چھت کے تلے رہنے والوں کی بستی کے ٹھیک سامنے ایک ملٹی اسٹوری میں رہا کرتے تھے، جس کے فلیٹوں کے ہر کمرے کے ساتھ ایک اٹیچڈ باتھ روم تھا۔ اس لیے وہ سینتیس روپے یومیہ کی آمدنی میں اکثر وہ ایک روپیہ جوڑنا بھول جاتے تھے، جو دے کر کلو سلبھ شوچالیے جانے کے لیے دیا کرتا تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی کچھ عرصہ پہلے تک سڑک کے کنارے فراغت حاصل کر لیا کرتا تھا لیکن اب اسے شرم آنے لگی تھی۔ کبھی ایک روپیہ خرچ کر آتا اور کبھی سڑک سے ذرا الگ ہٹ کر کوڑے کے ڈھیر کے پاس بیٹھ جاتا۔ کوئی ایک فرلانگ چل لیا جاتا تھا تو ایک نسبتاً سنسان علاقہ آ جاتا تھا۔ وہاں پیڑوں کے جھرمٹ تھے اور کچھ گوالوں کی جھونپڑیاں جو گنجان نہیں تھیں۔ ماں علی الصبح اٹھ کر وہاں چلی جاتی تھی، اس لیے کہ وہ سڑک کے کنارے نہیں بیٹھ سکتی تھی، نہ ہی اسے اپنی ذات پر بغیر کسی وجہ کے یہ ایک روپیہ خرچ کرنا گوارا تھا، جس کو خرچ کئے بغیر گزارا ہو سکتا تھا۔ ویسے ایک روپے کی آج کل کوئی اوقات نہیں رہ گئی تھی۔ ایک روپے میں چائے تک نہیں آتی تھی۔ لیکن روز ایک روپیہ گولک میں ڈال دیا جائے تو مہینے کے آخرمیں تیس روپے نکل آئیں گے، جن سے ایک وقت کی سبزی آ سکے گی اور اگر صرف آلو کھائے جائیں تو دو وقت کا جگاڑ ہو جائے گا۔۔ لیکن چھوٹا بیٹا علی الصبح اٹھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا تھا اور بڑے بیٹے کی عادت بگڑی ہوئی تھی۔ اس کا کوئی وقت کبھی مقرر نہیں ہو سکا۔ اگر دو روپے روز بچ جاتے تو ان سے کتنے کام نکل سکتے تھے۔
ہم کبھی اس ٹھیلے سے اوپر اٹھ سکیں گے؟ کَلُّو کئی بار سوچتا تھا۔ کبھی کوئی ایسا جگاڑ ہوتا کہ کچھ فاضل آمدنی ہو جاتی۔ آخر بیوی آئے گئی تو اس کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے رشتے آنے لگے تھے لیکن اس کے گھر کی پھٹیچر حالت اور سڑک کے کنارے ترپال والی جُھگی کو دیکھ کر ایسا کوئی رشتہ نہیں آیا، جس سے ماں تلک میں ایک نیا ٹھیلا مانگ سکتی یا اتنے روپے نقد، جن سے ٹھیلا خریدا جا سکے۔ اس کا مطالبہ بس اتنا ہی تھا: ایک چاندی کی انگوٹھی، ایک نیا ٹھیلا، دولہا کے لیے دو جوڑے پینٹ شرٹ مع جوتے اور دولہا کی ماں کے لیے ایک ساڑی مع بلائوز پیٹی کوٹ۔۔ اب ایک جوڑا پلاسٹک کی چپل بھی شاید رکھ دیا جائے۔ چونکہ وہ بیوہ ہے، اس لیے چوڑی ٹکلی تو رکھی نہیں جائے گی اور کیا دولہا کے چھوٹے بھائی کو کچھ نہیں ملتا؟ جب بھی کَلُّو اور اس کی ماں بیٹھ کر جہیز کا سامان اور تلک کی نقدی جوڑتے، چھوٹا بھائی سوال ضرور کرتا۔ ایک بار اس نے کہا ’ایسی بھابی لے کر ہم کیا کریں گے، جس کے یہاں سے ہمیں ایک سائیکل بھی نہ ملے۔‘ تب اس کا مطالبہ ایک سائیکل بھی جہیز میں جوڑ دی گئی۔۔ لیکن ابھی تک کوئی لڑکی والا ایسا نہیں آیا تھا، جو اتنا دینے پر راضی ہو۔ آج کل لڑکی والوں کے دماغ بھی تو خراب ہو گئے ہیں۔ اماں کے چونکہ دونوں بیٹے ہی تھے، اس لیے اس نے اپنے آپ کو لڑکے والوں کی صف میں رکھ کر سارے لڑکی والوں کے خلاف ایک محاذ بنا لیا تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے بعض فیمنسسٹ کہلائی جانے والی خواتین نے ساری خواتین کو ایک صف میں کھڑا کر کے، سارے مردوں کو دوسری صف میں محاذ آرا تصور کر لیا تھا اور رسہ کشی کرتی رہتی تھیں۔
کیسے چار پیسے اور کمائے جائیں؟ جب سے شادی کا خیال دل میں گدگدی کرنے لگا تھا، تب سے کَلُّو اس فکر میں غلطاں رہنے لگے تھے۔ کبھی ان کے ذہن میں ایک چہرہ کوندتا تھا، انہی کی طرح گہرے سانولے رنگ کا لیکن عنفوانِ شباب سے پیدا ہونے والی کشش سے بھرپور، بڑی آنکھوں، چھوٹی سی ناک اور بوٹے سے قد والا۔۔ اور کبھی ایک دوکان کا تصور ابھرتا، جس میں وافر سرمایہ لگا کر سامان بھرا ہوا ہو یا پھر ٹھیلے پر ہی کچھ اور ایسی چیزیں، جن سے آمدنی زیادہ ہو اور ہاں ٹھیلا اپنا ہو کہ مالک کو روز کرایہ نہ دینا پڑے۔
کچھ عرصے سے شہر میں بڑی ہلچل دکھائی دیتی تھی۔ باہر کے نیتا آ رہے تھے اور جا رہے تھے۔ جلوس بھی بہت نکلتے تھے۔ کبھی کبھی سڑکوں پر ہنگامہ ہو جاتا تھا۔ پھر وہ ٹی وی اور اخبار والے اپنے اپنے کیمرے لے کر دوڑتے بھاگتے دکھائی دیتے۔ کیا فائدہ ہوتا ہے انہیں؟ کَلُّو سوچتا۔ فائدہ کچھ تو ضرور ہوتا ہے۔ اچھا کماتے ہوں گے تبھی تو صاف، اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ بڑے لوگوں کے درمیان دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کون سی دنیا ہے ہماری دنیا میں ہوتے ہوئے، ہماری دنیا سے الگ۔۔ ان میں سے کچھ تو اب خوفناک لگا کرتے تھے۔ ان کے سائز سے ہی وہ ڈر جاتا تھا۔ لیکن آج کل ہر شخص نیتا گیری کرنے لگا تھا۔ (سیاست پر گفتگو ہو رہی ہو تو کَلُّو اسے نیتا گیری قرار دیتا تھا) ایک شخص بتا رہا تھا کہ اسے ایک جلوس میں شامل ہونے کے لیے سو روپے ملے تھے۔ گڑچنا اور ایک چھوٹی بوتل کسی ٹھنڈے شربت کی بھی۔ ’ہمیں کیوں نہیں بتایا۔‘ کَلُّو دل ہی دل میں بہت ناراض ہوئے۔ جلوس تو روز نکل رہے ہیں، شاید انہیں بھی کبھی ایسا موقع مل جائے۔ اس مہنگائی میں بھی سو روپے ان کے لیے اہم تھے اور اگر ان ماہرینِ معاشیات کی مانیں تو ان سے لگ بھگ تین دن کا خرچ نکل جاتا تھا۔
چنائو جیسے جیسے نزدیک آیا، لوگوں میں ہلچل بڑھتی گئی۔ کَلُّو کے ایک دوست نے جو شیشے کے سستے موٹے برتنوں جیسے گلاس اور مرتبان وغیرہ کا ٹھیلا لگاتا تھا، اچانک گیندے کے ہار بیچنا شروع کر دئیے تھے۔ یہ ہار لے کر وہ سیاسی پارٹیوں کے دفتروں کے آس پاس گھومتا رہتا تھا۔ یوں تو بڑے پیمانے پر الگ پھول آتے تھے، پھر بھی جھٹ پٹ خریدنے والوں کی تعداد بھی کافی تھی اور محمود عرف ممدو کو شیشے کے برتنوں سے زیادہ آمدنی ہو رہی تھی، لیکن وہ جانتا تھا یہ آمدنی موسمی ہے۔ کچھ زائد پیسے آ جائیں گے۔ کَلُّو کو اپنی شادی کرنی تھی اور ممود کو بہن کی۔ کون سی پارٹی جیتے گی، اس بات کو لے کر لوگوں میں دھواں دھار بحثیں ہونے لگی تھیں، بلکہ سنتے تھے سٹہ بازار بھی گرم ہو گیا تھا۔ کوئی جیتے ہمیں کیا۔ کَلُّو حیرت سے سوچتا تھا۔ لوگ اتنے پریشان کیوں ہیں۔ آخر کیا فرق پڑتا ہے کسی کے ہارنے جیتنے سے۔
تبھی ممدو نے اس سے کہا کہ وہ آتش بازی کا ٹھیلا لگائے۔
دیوالی اور دیوالی کے بعد چھٹھ۔ دیوالی کے بچے پٹاخے چھٹھ میں چھڑائے جاتے ہیں۔
’’چھٹھ کے بعد ایک اور تہوار آ رہا ہے‘‘ ممدو نے کہا۔ ”سارے تہواروں سے بڑا تہوار۔ یہ چنائو جو ہو رہے ہیں۔ جیتنے والی پارٹی کے لوگ بم پھوڑیں گے۔ بڑے بڑے بم، لگاتار کانوں پر حملہ کرنے والے چٹائی بم، چنائو پری نام آنے لگیں تو پارٹی کا ریالئہ کے پاس کھڑے ہو جانا۔‘‘
ممدو عمر میں بڑا تھا۔ شادی شدہ تھا اور سیاسی بصیرت رکھتا تھا، اس لیے کہ کَلُّو اکثر اسے بحثوں میں حصہ لیتے دیکھتا تھا۔ ایک دن وہ سرکاری اسکول میں جھاڑو لگانے والی بھینگی منجو کو چھیڑ رہا تھا، ’کسے بھوٹ دےگی ری منجو‘ اور وہ بے وقوف سی لگنے والی عورت آنکھیں گھما کر بولی تھی: ’تمہیں کیوں بتائیں؟ جسے پورا ٹولہ دےگا، ہم بھی دے دیں گے۔۔‘ ممدو ہنسنے لگا۔ ’ارے کیا ہم تم سے فوجداری کرنے والے تھے۔‘ منجو چھما چھم پائل بجاتی، بھینگی آنکھیں مٹکاتی غائب ہو گئی۔
کلو نے ان دنوں شام کے وقت آتشبازی بیچنی شروع کی۔ آخر بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو مخصوص موسم میں کچھ زائد آمدنی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ جیسے تیج تہواروں کے موقع پر اس کی موسمی رنگین ٹوکریاں اور سوپ بیچ کر سال بھر میں ایک مرتبہ اچھی رقم کما لیا کرتی تھی اور اس رقم سے کئی کام نکل جاتے، قرض کا سود ادا ہو جاتا۔ پھر جس دن صوبائی اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے شروع ہوئے، وہ اس مخصوص شاہراہ پر جا کھڑا ہوا، جہاں زیادہ تر پارٹیوں کے آفس تھے۔ خاص طور پر دو بڑی حریف پارٹیوں کے، جن میں کانٹے کی ٹکر تھی اور پورا صوبہ سانس روکے منتظر تھا کہ دیکھیں حکومت کس پارٹی کے ہاتھ میں جائےگی۔
اولین رپورٹیں آئیں تو ایک پارٹی غالب آتی دکھائی دی۔ لوگوں نے کچھ گولے پہلے سے اسٹور کر رکھے تھے۔ کچھ نے جلدی جلدی کَلُّو سے خریدے۔ آناً فاناً بہت سی آتشبازی بک گئی۔ ٹی وی کیمرے حرکت میں تھے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے اسکرین لگے ہوئے تھے۔ حریف پارٹی کے کیمپ میں پریشانی واضح ہو اٹھی۔ تبھی اچانک پانسہ پلٹا۔ لوگوں کو کچھ دیر تک یقین نہیں آیا۔ پھر اس پارٹی کے امیدوار، جس کی کامیابی مشکوک تھی۔ لگا تار جیتنے لگے۔ کچھ نتائج میں واضح کامیابی تھی۔ کچھ ان کی بڑھت کا اعلان کر رہے تھے۔ سیاسی دفتروں والی شاہراہ پر میلے کا گمان تھا۔ لوگوں کا ہجوم، درمیان میں میڈیا والے۔۔ سب ایک ہسٹریائی کیفیت میں مبتلا۔ کم عقل کَلُّو نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں، حقیقت فضا میں چکراتی، دھیرے دھیرے اپنے پر پھیلاتی اس کے ذہن میں اترنے لگی۔ اس نے خاموشی سے ٹھیلا سرکایا اور ہولے ہولے اس پارٹی کے دفتر کی طرف بڑھنے لگا، جو اب واضح اکثریت کی طرف گامزن نظر آ رہی تھی۔ لوگوں کے ایک بڑے گروہ میں کھڑے ایک شخص نے بڑی کینہ توز نظروں سے کَلُّو کو گھورا، پھر زور سے تھوکتے ہوئے زمین پر پڑا ایک پتھر کا ٹکڑا اٹھا کر بلاوجہ ہی ایک معصومیت سے دم ہلاتے کتے کو پھینک مارا۔ کتا کوں کوں کرتا ہوا بھاگا۔ ’’جاؤ جاؤ تم بھی ادھر ہی جاؤ۔ دل بدبو۔‘‘ کَلُّو کو یکا یک بڑی زور کا غصہ آ گیا۔ وہ کدھر جائے، کچھ کرے، اس آدمی سے مطلب یا کسی سے بھی مطلب!
’’ہم بجنس کرتے ہیں۔ کسی کی طرپھداری نہیں۔‘‘ اس نے جل کر مونہہ مارا اور ایک گاہک کی طرف مخاطب ہو گیا جو دوڑا دوڑا، ادھر، سے اسی کی طرف آ رہا تھا۔
’’بجنس‘‘ نے رفتار پکڑ لی تھی۔