اور ایک دن وہ سب کام دھندے چھوڑ کر گھر سے نکل پڑی۔۔
کوئی طے شدہ پروگرام نہیں تھا، کوئی سمبندھی بیمار نہیں تھا، کسی کا لڑکا پاس نہیں ہوا تھا، کسی عزیز کی موت نہیں ہوئی تھی، کسی کی لڑکی کی سگائی نہیں ہوئی تھی، کہیں کوئی سنت مہاتما نہیں آیا تھا، کوئی تہوار نہیں تھا۔ کوئی بہانہ نہیں تھا۔
اصل میں ہوا یہ کہ برتن مانجھتے مانجھتے اچانک جانے کہاں سے اور کیسے شیلا کے من میں ایک انجانی ترنگ سی اٹھی اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے برتن کو پٹک کر ہاتھ دھوئے بنا، وہ جیسی کی تیسی کمرے سے باہر آئی اور پُکارنے لگی۔
”رانی، او رانی!“
رانی کا کمرہ احاطے کی دوسری چھت پر تھا۔
آواز دیتے دیتے شیلا کی نظر شونیہ (صفر) کو چیر کر آکاش پر چھائے ہوئے بادلوں سے ٹکرائی اور پانی کا ایک قطرہ اس کی دائیں آنکھ میں آ گرا۔ شیلا نے ایک دم آنکھ میچ لی اور پھر زور سے آواز دینے لگی۔ ”رانی، او رانی!“
اور جب رانی نے جنگلے سے نیچے جھانکتے ہوئے پوچھا، ”کیوں ری، کیا ہوا جو منہ اندھیرے بانگیں دے رہی ہو۔“ تو شیلا جواب دینے کے بجائے کھلکھلا کر ہنسنے لگی اور رانی سوال دوہرانے کے بدلے، دھم دھم کرتی نیچے آنگن میں آ گئی اور آتے ہی شیلا کی چٹیا پکڑ کر کھینچنے لگی۔
شیلا نے ہنستے ہوئے دھمکی دی، ”چھوڑ دو، نہیں منہ کالا کر دونگی۔“
رانی نے ہنس کر جواب دیا، ”کس کا ؟ اپنا؟“
اور پھر دونوں ہنسنے لگیں اور ہنستے ہنستے ہی شیلا نے رانی کے کان میں کچھ کہا، جسے سنتے ہی رانی تالی پِیٹ کر چلانے لگی، ”ونتی او ویراں او ونتی!“
ونتی اور ویراں اسی مکان کی نچلی منزل کے دو کمروں میں رہتی تھیں اور سب شور سن چکی تھیں۔ ونتی اپنے کمرے کے ایک کونے میں نہا رہی تھی اور ویراں پچھلے پہر کے لیے تھوڑا سا آٹا گوندھ رہی تھی۔ رانی کی آواز سنتے ہی ونتی نے تُرنت ایک دو گلاس پانی کے ادھر ادھر پھینکے اور ایک میلا دوپٹہ بدن پر لپیٹ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔ ویراں نے آٹا ادھ سنا چھوڑ دیا تھا اور پہلے سے ہی شیلا اور رانی کے ساتھ کھڑی نہ جانے کس بات پر ہنس رہی تھی۔ ونتی کو دیکھتے ہی تینوں بالکل بچوں کی طرح چلانے لگیں، ”ونتی ننگی اوئے ونتی ننگی!“
ونتی کھسیا کر اپنے کمرے میں لوٹ گئی اور جلدی جلدی پیٹی کوٹ اور کرتی پہن کر کرتی کے بٹن بند کرتی کرتی پھر باہر دوڑ آئی۔ رانی نے آگے بڑھ کر کہا۔ ”اری دوڑو نہیں، تمہارے حصے کا تمہیں مل جائے گا۔“
ونتی نے ذرا حیرت سے پوچھا، ”کیا؟“ تو تنیوں نے ایک ہی لہجے میں کہا، ”پرساد۔“ اور پھر چاروں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
ان کی اس کھلکھلاہٹ سے احاطے کا گھُٹا ہوا ماحول گویا چڑ سا گیا اور چڑچڑے پن کا واضح ثبوت تھا احاطے کی مالکن کا غصیلا چہرہ جو اپنے پورشن کی سامنے والی گلی میں کھڑی ان گنوار عورتوں کے گنوار پن پر دانت پیس رہی تھی، لیکن جب ان چاروں نے آپس میں کچھ کھُسر پھُسر کرنے کے بعد اپنی چھوٹی سی کانفرنس کا انت ایک چیختے ہوئے ٹھہاکے پر کیا تو احاطے کا ماحول بدل سا گیا۔ اگرچہ اس کی مالکن کا پارہ کچھ درجے اور چڑھ گیا۔
ہنستی چیختی، بل کھاتی چاروں اپنے اپنے کمرے میں دوڑ گئیں۔شیلا نے راکھ بھرے ہاتھ جلدی سے دھوئے۔ برتنوں کا ڈھیر جہاں کا تہاں پڑا رہا اور وہ اپنی پھولوں والی شلوار کو ٹھیک کرنے لگی۔
رانی نے جھاڑو اٹھا کر ایک کونے میں پھینک دی اور پانی بھری بالٹی فرش پر انڈیل کر اسے ایک طرف کھسکا دیا اور ہاتھ پیٹی کوٹ سے پونچھ کر آنکھوں میں سرمہ ڈالنے لگی۔ونتی پہلے سے ہی سب کام ختم کر چکی تھی، محض آگ بجھانی باقی تھی۔ اس نے کھڑے کھڑے ہی دو تین گلاس پانی چولہے میں پھینک دیا اور ایک پل کے لیے سوچا کہ سارا چولہا گیلا ہوگیا اور پھر نئے دوپٹے میں سلوٹیں ڈالنے لگی۔ ویراں نے آٹے کی پرات کو ایک کونے میں دھکیل دیا ، اس کے کمرے میں چپے چپے پر جھوٹے برتن پڑے ہوئے تھے، کیونکہ اس کے بچے ابھی ابھی کھا پی کر باہر نکلے تھے۔ اس نے ایک دو گلاس اٹھاکر ٹھکانے لگائے، پھر ہاتھ منہ دھونے لگی۔
کچھ ہی دیر میں چاروں سہیلیاں اپنے اپنے کمرے کو تالا لگا کر احاطے سے باہر نکل گئیں اور احاطے کی غصیلی مالکن حیرت سے انگلی دانتوں میں دبائے دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ انہوں نے جاتے ہوئے آنکھ اٹھاکر اس کی طرف دیکھا تک نہ تھا۔
”نیچ گھرانے کی۔“ احاطے کی مالکن بڑبڑائی اور اسی سمے اس کے پتی نے اندر سے آواز دی۔ ”اری کہاں چلی گئی تو نیچ گھرانے کی، یہ کیا کردیا تونے؟“ اور وہ اندر جاکر پتی سے جھگڑنے لگی۔
ادھر وہ چاروں سڑک پر ایک دوسرے کے پیچھے ایسے بھاگ رہی تھیں جیسے پرائمری اسکول کی لڑکیاں۔رانی نے تو حد ہی کر دی۔ دوپٹہ اس نے کمر پر باندھ لیا اور چوٹی کو سر پر پگڑی کی بھانتی لپیٹ کر یوں چلنے لگی جیسے رانی خاں کی چھوٹی سالی وہی ہو۔وہ اب گلی سے گزر کر سڑک پر پہنچ چکی تھی۔ شیلا کہہ رہی تھی، ”رک جاؤ رانی، ٹھہرو ادھر کہاں چل پڑی ہو، ادھر تو کچھ بھی نہیں، جنگل میں جاؤ گی۔“
وہ اتنے زور سے بول رہی تھی کہ نواب گنج روڈ پر جانے والے کچھ طلبا مڑمڑ کر دیکھ رہے تھے۔ شیلا کے کئی بار چلانے پر آخر رانی رکی اور کچھ صلاح کے بعد انہوں نے طے کیا کہ انہیں سبزی منڈی سے ٹرام پکڑنی چاہیے اور جب ونتی نے پوچھا ’جاؤ گی کہاں؟‘ تو تینوں نے ہنس کر جواب دیا ’جہاں تو لے جائے‘ اس پر ونتی بھی ہنس پڑی اور وہ سبزی منڈی کی طرف چل پڑی۔
ایک ٹرام کھڑی تھی۔ وہ دوڑ کر اس میں بیٹھ گئیں اور جب کنڈکٹر نے شیلا سے پوچھا۔ ”کہاں جاؤگی جی؟“ تو شیلا نے ہنس کر جواب دیا۔ ”اس سے پوچھو۔“
کنڈکنٹر اس بے وجہ ہنسی پر کھیج سا گیا اور اس نے تُنک کر کہا۔ ”کس سے پوچھوں۔“
شیلا نے پھر ہنس کر کہا، ”ناراض کیوں ہوتے ہو، اس سے رانی سے پوچھو۔“
”مجھے سپنا آئے گا کہ رانی کون ہے؟“ کنڈکٹر نے بگڑ کر کہا۔
”میں ہوں رانی۔“ رانی نے چلتی ٹرام میں اٹھ کر آگے بڑھتے ہوئے کہا اور دوسرے ہی پل میں لڑکھڑا کر ایک بوڑھے کی گود میں جاگری۔
شیلا، ونتی اور ویراں کھلکھلا کر ہنس پڑیں اور وہ بوڑھا بغلیں جھانکنے لگا۔رانی اٹھ کر گرتی پڑتی پھر اپنی سیٹھ پر بیٹھ چکی تھی۔
قطب روڈ کے اڈے پر جب وہ ٹرام سے اتر گئیں تو کنڈکٹر نے نہ جانے کسے مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’عجیب واہیات عورتیں تھیں۔‘
اور ٹرام میں بیٹھے ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا، ’لاج شرم تو رہی نہیں۔‘
اور وہ بوڑھا بغل میں بیٹھے ایک لڑکے سے کہہ رہا تھا، ’سالی کیا دھمم سے آکر گود میں گر پڑی۔‘
اور لڑکا یہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ بوڑھا اور اس عورت کی حرکت کی برائی کر رہا ہے یا ویسے ہی چٹخارا لے رہا ہے۔
ٹرام سے اترتے ہی انہوں نے پھر سوچنے کی ضرورت سمجھی کہ وہ کہاں جائیں۔ جب رانی نے اپنے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا، ”ہائے ، ہم کہاں آگئیں!“ تو شیلا نے بھولے پن سے جواب دیا، ”اپنی سسرال!“ اور اس پر وہ سب اس زور سے ہنسیں کہ آس پاس کھڑے سبھی لوگ ان کی طرف دیکھنے لگے۔
ہنسی کے مارے وہ دوہری تہری ہوئی جارہی تھیں اور یہ بھی بھول گئی تھیں کہ دونوں سمتوں سے ایک ایک کار صرف انہی کے کارن ہارن بجارہی تھی۔۔ اور جب ایک کار نے پیچھے سے رانی کی ٹانگوں پر ہلکا سا ٹہوکا دیا تو اس کی ہنسی چیخ میں بدل گئی اور اس نے مڑکر کار والے کو پانچ چھ گھریلو گالیوں سے وداع کیا۔
جب وہ سڑک کے کنارے لگ گئیں تو شیلا (جس کی ترنگ انہیں گھر سے نکال لائی تھی) کو جانے کیا سوجھی، کہنے لگی، ”کناٹ پلیس چلو گی؟“
نام تو سب نے سن رکھا تھا۔ ونتی کا گھر والا دفتر سے لوٹتے وقت ہر پہلی تاریخ کو کناٹ پلیس سے ہی پھولوں کا ایک ہار اس کے لیے لے آیا کرتا تھا۔ ویراں کا رام دیال بھی اپنے کام کاج کے سلسلے میں کناٹ پلیس جایا کرتا تھا، جہاں اس کے سستے بسکٹوں کے پکے گاہک تھے۔ رانی تو خود بھی دو بار کناٹ پلیس ہو آئی تھی۔ ایک بار جب اس کی درخواست پر اس کا شوہر آزادی کا جلوس دکھانے لے گیا اور ایک بار وہ اکیلی گھومتی گھامتی ادھر جانکلی تھی۔ شیلا کا سجھاؤ ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور وہ ایک تانگے میں سوار ہو گئیں۔
گھوڑا پہلے ہی کافی تیز تھا، مگر رانی نے ذرا نخرے کے ساتھ تانگے والے پر چوٹ کرتے ہوئے کہا، ”لین ، اسی طرح ٹِچکوں ٹِچکوں چلے گا کیا؟“ تو تانگے والے نے گھوڑے کی پچھلی ٹانگوں میں چھڑی کے ساتھ کچھ اس شرارت سے کھجلی کی کہ گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگا۔ تڑاخ تڑاخ کرنے لگا۔ تڑاخ تڑاخ کے پاؤں پکی سڑک پر پڑتے اور تانگے والا کبھی رانی اور کبھی شیلا کی طرف ، جو اس کے برابر اگلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں، ایسے دیکھتا جیسے انعام کی مانگ کر رہا ہو مگر رانی اور شیلا گھوڑے سے بھی زیادہ تیز دوڑ رہی تھیں۔ رانی کا دوپٹہ سر پر تو پہلے ہی نہیں تھا، اب اس کے بدن کے کسی بھی حصے پر نہیں تھا۔ نیچے گر گیا تھا اس کے پاؤں میں۔ شیلا کے بال اس کی چوٹی سے بھاگ بھاگ کر ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔ پیچھے بیٹھے ونتی اور ویراں بچوں کی طرح سیٹ پر گھٹنے ٹیک کر آگے کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
رانی کہہ رہی تھی، ”بلّے او بلّے۔“
شیلا کہہ رہی تھی، ”ہائے رام اتنا تیز۔“
تانگے والا کہہ رہا تھا، ”کہو تو اور تیز۔“
ونتی اور ویراں پیچھے بیٹھی بول اٹھیں۔ ”ہاں بھائی اور تیز اور تیز۔“
تانگے والا پائدان پر کھڑا للکار رہا تھا، ’آہاہاہا۔‘
اور سڑک پر آنے جانے والے لوگ اس فراٹے بھرتے ہوئے تانگے پر نظر تو نہ جما سکتے تھے، پر رائے زنی سب کررہے تھے۔اگر کسی طرح وہ سب ایک جگہ پر اکھٹے ہوجاتے تو اتفاق رائے سے طے ہوجاتا کہ تانگے پر ویشیائیں بیٹھی ہیں، تیز کیسے نہ دوڑیں۔
لیکن چونکہ تانگہ ویشیاؤں کو نہ بٹھائے تھا، اس لیے کناٹ پلیس پہنچ کر تانگے والے کو بھی نِراشا ہوئی۔انعام دینے کے بجائے رانی اس سے کہہ رہی تھی، ”بھائی ہمارے پاس تو ساڑھے گیارہ آنے ہیں، اب دو پیسے کے لیے کیا جان لے گا۔“
تانگے والے کو شاید رانی کا یہ جملہ سن کر ٹھیس سی لگی۔ایک دم بول اٹھا۔ ”رانی ، تو یہ بھی رکھ لے۔“
اس کا یہ کہنا تھا کہ ونتی، ویراں اور شیلا کھٹاک سے ہنس اٹھیں۔ جیسے کسی نے تین فوارے چھوڑ دیے ہوں۔ رانی پہلے ایک پل کے لیے بھونچکی سی رہ گئی، پھر جب بات سمجھ میں آئی تو اتنی ہنسی کہ کھڑی نہ رہ سکی اور وہیں بیٹھ کر ‘اوئی’ ،’ائی’ کرنے لگی۔ تانگے والے نے اپنے آپ سے کہا، ’پاگل ہونگیں!‘ اور قدم قدم گھوڑے کو چلانے لگا۔
جب ذرا دم میں دم آیا تو اپنی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے رانی نے کہا، ”موئے کو میرا نام کیسے پتہ چل گیا؟“
ونتی نے جواب دیا، ”بھئی تمہیں کون نہیں جانتا؟“ اور اس پر ہنسی کا دوسرا دور شروع ہونے ہی والا تھا کہ اسی تانگے والے کی آواز پھر آئی۔ ”کیوں جی، قطب کی سیر کروا لاؤں؟“
تانگے والا کچھ دور جاکر پھر مڑ آیا تھا۔
”قطب کی سیر کروا اپنی ماں کو، اپنی بہن کو۔“ رانی نے خالص گھریلو عورت کے لہجے میں کہا اور اپنی سہیلیوں سے بولی، ”چلو ری۔۔ یہ موا تو کتے کی طرح پیچھے ہی پڑ گیا ہے۔“ اور وہ اوڈین سنیما کی طرف چل پڑیں۔
رانی بولی، ”یہ ہے کناڈ پلیٹس۔“
ویراں بولی، ”کناڈ پلیٹس نہیں، کرناٹ پلیٹ۔“
شیلا نے کہا، ”نام کچھ بھی ہو، جگہ تو یہی ہے نا۔“
رانی بولی، ”پوچھ کیوں نہیں لیتی کسی سے؟“
”جاؤ نا اپنے اس تانگے والے سے۔۔۔“
تانگے والے کا نام سنتے ہی رانی ایک مسکان کو دباتے ہوئے بولی۔ ”موا نام تک جان گیا۔“
یہ اوڈین سنیما کے سامنے رک کر دور سے تصویریں دیکھتی رہیں اور پھر جھجھکتے جھجکتے نزدیک آئیں اور پھر دھیرے سے سنیما کے پورچ میں داخل ہوگئیں۔ پھرتی پھراتی مردوں کے پیشاب گھر پر جا رکیں۔ کچھ پل سوچتی رہیں کہ اندر کیا ہوگا اور پھر رانی نے دروازہ اندر کی طرف دھکیلا اور ‘اوئی ماں’ کہہ کر باہر کی اور بھاگنے لگی۔ سب کی سب بھاگتی پھسلتی باہر آگئیں اور رانی سے پوچھنے لگیں کہ ’کیا ہوا۔‘ پر رانی ہنستی گئی، ہنستی گئی۔
اور جب انہوں نے بہت تنگ کیا تو بولی، ”ایک آدمی ۔۔۔“ اور پھر ہنسنے لگی۔
”تانگے والا یاد آرہا ہے؟“ ویراں اور ونتی نے کہا۔
شیلا نے بات بدلنے کے لیے کہا، ”یہیں کہیں ہنومان جی کا مندر ہے، کہو تو۔۔۔“
”راکھ ڈالو ہنومان جی کے مندر پر۔۔ سیر پر نکلی ہو کہ پوجا کو؟ وہاں بھی کوئی موٹا تازہ پجاری بیٹھا گھور رہا ہوگا۔“
”آپ بیتی سنا رہی ہو؟“ شیلا نے کہا اور وہ پھر ہنسنے لگیں۔
اور اسی طرح ہنستے ہنساتے ، پھرتے پھراتے انہوں نے شام کردی۔ ہنستے ہنستے ان کے گلے بیٹھ گئے تھے اور ویسے بھی انہوں نے بہت کچھ الم غلم کھا لیا تھا۔ گول گپے، آلو کی ٹِکیا، چاٹ کے پتے، چنا زور گرم یعنی کناٹ پلیس کے بڑے ہوٹلوں کو چھوڑ کر باہر جو چیزیں ملتی تھیں، وہ سب انہوں نے تھوڑی تھوڑی چکھ لی تھیں۔ کناٹ پلیس کے برآمدے میں کتنے ہی چکر لگائے تھے، کتنی ہی دکانوں کے سامنے ہکی بکی ہوکر کھڑی ہوئی تھیں۔کتنے ہی لوگوں کو اپنی ہنسی کے کارن بھرم میں ڈال چکی تھیں اور اب ان کی ٹانگوں میں ہلکا ہلکا درد ہونے لگا تھا ساتھ ہی ان کے دماغوں کو کوئی زنجیر گھر کی طرف کھینچنے لگی تھی۔
”چلو نا وہاں، کیا ہری ہری گھاس ہے، تھوڑی دیر بیٹھ کر آرام کرلیں۔“
پر اس کے جواب میں ‘ہاں‘ یا ‘نا’ کی بجائے جب ویراں نے دھیمے لہجے میں کہا، ”گھر نہیں چلوگی؟“ تو گھر کا نام جیسے گھڑے پر روڑے کی مانند لگا۔ چاروں کے چہرے ایک دم اتر گئے۔
”گھر جاکر کیا کروگی؟“ رانی نے ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا۔لیکن اس کے اس کمزور سے اختلاف کا حقیقت کے کڑوے بادلوں پر کوئی اثر نہ پڑا، جو شاید آسمان سے چھٹ کر اب ان کے دماغوں پر چھا رہے تھے۔
”گھر میں ہے کیا؟“ رانی نے پھر کہا جیسے اپنے آپ کو سمجھا رہی ہو۔
”ہے خاک۔“ شیلا نے جواب دیا جیسے کہہ رہی ہو۔ ’جانتے بوجھتے ہوئے پوچھتی ہو۔‘
اور وہ چاروں سہیلیاں ہری ہری گھاس پر بیٹھنے کی بجائے گھر کی اور لوٹ پڑیں۔
”تانگہ کر لو!“ رانی نے کہا پر کسی کو ہنسی نہ آئی۔
”ونتی اور ویراں کو گویا سانپ سونگھ گیا ہے۔“ شیلا نے کہا۔
”سوچ رہی ہوں رات کو سبزی کیا پکاؤں گی؟“ ونتی نے جواب دیا۔
اس کا مذاق اڑانے کی بجائے رانی بولی، ”میرے سے صبح کی دال لے لینا۔“
اور وہ راستہ پوچھتی پاچھتی، گھر کی چھوٹی چھوٹی الجھنوں کو سلجھاتی، گھریلو مسائل پر بحث کرتی، پڑوسنوں کی برائیاں کرتی، ایک دوسرے سے حسد کرتی، پائیوں، آنوں کا حساب کرتی، تیز تیز گھر کی طرف چلنے لگیں۔جب وہ گلی کے پاس پہنچیں تو اندھیرا کافی گہرا ہو چکا تھا۔