چلتن اور گردشِ دوراں (بلوچی ادب سے منتخب افسانہ)

آزات جمالدینی

کیا یہ ممکن ہے کہ گزری ہوئی مسرتوں اور شادمانیوں کا دور پھر ایک مرتبہ واپس آ جائے؟

چلتن کا بلند و بالا سلسلہ  کوہ کوئٹہ سے تقریباً سولہ میل کے فاصلے پر مغرب کی جانب واقع ہے۔ کوہِ چلتن کے دامن میں ہزارگنجی کی سرسبز و شاداب چراگاہ ہے۔ اس کے دائیں جانب گوند کے پہاڑی درختوں کا سلسلہ ایک دل فریب اور جاذبِ نظر نظارہ پیش کرتا ہے۔

کوہِ چلتن کی بلند چٹانوں کے درمیان مسلسل پانچ سال کے قحط کی ماری دبلی پتلی بکریوں کا ایک ریوڑ چر رہا ہے۔ اس ریوڑ کے بیچ میں ایک چودہ سالہ معصوم لڑکی پھٹی پرانی قمیض پہنے اور سر پر پھٹا دوپٹہ ڈالے مغرب کی جانب چٹانوں کے درمیان شفق کی سرخی پر نظریں جمائے بیٹھی ہے اور یوں دیکھ رہی ہے جیسے وہ اپنے گم شدہ ماضی کا مطالعہ کر رہی ہے۔ غم انگیز یادوں کے اثر سے اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسوؤں کے موٹے موٹے قطرے موتی کے دانوں کی مانند نمودار ہو رہے ہیں۔ افکار و آلام کی وجہ سے اس کے منہ پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں۔ اس کے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے نرم و نازک ہونٹوں پر خشکی سے پپڑیاں جمی ہوئی ہیں۔ وہ اس کوشش میں ہے کہ سرد آہوں کے ذریعے اپنے دل کی بھڑاس نکال لے۔

سورج تیزی سے ڈھلتا چلا گیا۔ سائے پھیلتے چلے گئے اور تاریکی قریب سے قریب تر ہوتی چلی گئی۔ اچانک ایک بوڑھا کاشتکار نمودار ہوا اور آسیب کی طرح آ کر لڑکی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس کی کپاس کی طرح سپید اور گھنی داڑھی بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی لیکن اس کا چوڑا چہرہ موسمِ گرما کی لو اور سردیوں کی یخ بستہ ہواؤں سے جل کر خشک ہو چکا تھا۔ اس کے چہرے کی جھریاں ایک ایک کر کے دور سے گنی جا سکتی تھیں۔ اس کی ناک لمبی تھی اور بھنویں گھنی اور کمان کی مانند خمیدہ کالی اور موٹی آنکھیں دیے کی طرح روشن۔ اس کے سر کے بال کاندھوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ دائیں ہاتھہ میں ایک درانتی تھی۔ آہستہ آہستہ وہ لڑکی سے قریب تر ہوتا گیا۔ بالکل سامنے آ کر اس نے بلند آواز میں کہا۔ ”چلتن! شاد رہو۔“

لڑکی کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ کانپتی ہوئی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ بھرائی ہوئی آواز میں اس نے بوڑھے سے کہا، ”پرے ہٹ۔ مجھ سے تو کیا چاہتا ہے؟“

پھر اس نے اپنے ریوڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”اس ریوڑ سے یہ ساری وادی بھری ہوئی تھی، لیکن اب تو یہی چند بکریاں بچ گئی ہیں۔ شاید تُو ان کو بھی لے جانے کے لئے آ گیا ہے۔۔ یہ وہی چراگاہ ہے، جو اب تیرے منحوس سائے کی وجہ سے ویران ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سر سبز و شاداب پہاڑی اور یہ وسیع و عریض وادی ہمارے گزارے کا ذریعہ تھی۔ میری بھیڑ بکریاں یہاں ہر وقت چرا کرتی تھیں اور ہمیں ان سے میٹھا میٹھا دودھ ملتا تھا۔۔ مگر اب یہ حال ہے کہ بھوک سے نڈھال ہو کر بکریاں چلنے پھرنے سے معذور ہوتی جا رہی ہیں۔۔ وہ دیکھ، بھوک مٹانے کے لئے بکریاں خشک کانٹے اور جھاڑ تک چن چن کر کھا رہی ہیں تاکہ موت سے بچ سکیں اور زندگی کے دن پورے کر سکیں۔ اے گردش دوراں! خدا کے واسطے میرے راستے سے ہٹ جا۔ تیرے ظلم و ستم نے مجھے اپنی زندگی سے بیزار کر دیا ہے۔ بس جا۔ اب تو مجھے اکیلی ہی رہنے دے۔ مجھ سے دور ہٹ جا اور اپنا رخ پھیر کر وہاں چلا جا، جہاں لوگ مسرت کی بہاروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مجھے تُو اپنے حال پر چھوڑ دے تاکہ میں اپنی بد نصیبی کا ماتم کر سکوں۔“

بوڑھے نے اپنی درانتی کو بغل میں چھپاتے ہوئے روشنی کی طرف رخ کر لیا اور ایک شفیق باپ کی طرح لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ”اے چلتن کی پھولوں سے لدی ہوئی سرزمین! میں نے تجھ سے قدرت کے دیئے ہوئے خزانوں میں سے صرف ایک حصہ لیا ہے۔ لڑکی! یقین کر اور خدا پر بھروسہ کر کہ میں کسی اور کا حصہ نہیں چھینتا۔ میں تو کسی اور کے ساتھ بدسلوکی پر بھی راضی نہیں۔ میں اور انصاف ایک ہی شے کے دو پہلو ہیں۔ میری مجلس میں چاہت، محبت، انصاف اور برابری سے تقسیم ہوتی ہے۔ چلتن کی پیاری سرزمین، تو اپنے ہم سایہ علاقے کی طرف ایک نظر ڈال کر دیکھ۔ ان کی زمینیں اور ان کی چراگاہیں تیری ہی طرح خشک، ویران اور بے آب و گیاہ پڑی ہوئی تھیں لیکن وہاں کے لوگوں نے اپنی جدوجہد سے اپنے یہاں کی ویرانی اور بے رونقی کو دور کر لیا۔ مٹی میں پانی ڈال کر پاؤں سے ملنے اور آگ اور پانی سے گزرنے کے بعد ایک خوبصورت محل تیار ہوسکتا ہے۔ اسی طرح زندگی مشکلات و مصائب جھیلنے کے بعد ایک پُر مسرت زندگی بن سکتی ہے ۔“

بوڑھا اپنے آپ کو لڑکی سے نزدیک تر کرتا چلا گیا، اس نے اپنے ہاتھ کو اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ”اے گڑیا اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے کہ میں تیرے ہاتھ کو چوم لوں اور اسے اپنی آنکھوں سے لگا لوں۔“

لڑکی نے بوڑھے کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر آنسو بہاتی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھا اور کہا، ”مرحبا اے گردش دوراں!“

بوڑھے نے یہ الفاظ سن کر کہا، ”اے چلتن کے کوہ و داماں! انشاء اللہ ہم ایک دوسرے کو جلد پا لیں گے۔“

اسی لمحے بوڑھا بجلی کی طرح چمک کر غائب ہو گیا۔ لڑکی نے اپنے ریوڑ کو اکٹھا کرتے ہوئے کہا، کیا یہ ممکن ہے کہ گذشتہ مسرتوں اور شادمانیوں کا دور ایک مرتبہ پھر واپس آ جائے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close