”اب ہم اور آگے بڑھ رہے ہیں۔“ ، انجینئرنے اس وقت منادی کی، جب دوسری ریل گاڑی لوگوں، کوئلے، اوزار اور خوراک لے کر پٹری کے اس حصے پر پہنچی، جسے ایک روز قبل ہی بچھایا گیا تھا۔
روپہلی دھوپ میں چراہ گاہیں دھیمی دھیمی دہک رہی تھیں جبکہ دور افق پر گھنے جنگلات سے لدے پہاڑ نیلی دھند سے ڈھکے ہوئے تھے۔ جنگلی کتے اور بھینسیں انسانوں کی کارستانی اور ہنگامہ آرائی کو حیرانی سے دیکھ رہیں تھیں جو انہوں نے اس ویرانے میں برپا کر رکھی تھی؛ دھرتی کے اس کنوارے حصے میں کوئلے، راکھ، کاغذ اور ٹین کی چادروں کے ڈھیر لگتے گئے۔ اس خوفزدہ دھرتی نے پہلے ہوائی جہاز کا کان پھاڑ دینے والا شور سنا۔ اس نے بندوق کی گولی کا دھماکہ بھی سنا اور پھر پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آتی اس کی باز گشت بھی سنی۔ اس ویرانے نے سندان پر ہتھوڑے سے لوہا کوٹنے کی تیز اور تواتر سے گونجتی آواز بھی سنی۔ ٹین کی چھت والا ایک جھونپڑا کھڑا ہوا اور اگلے روز ایک لکڑی کا بنا گھر بھی اور پھر ہر آنے والے دن ان میں اضافہ ہوتا گیا۔ جلد ہی پتھروں سے بھی گھر بنائے جانے لگے۔
جوں جوں انسانی سرگرمی بڑھتی گئی جنگلی کتوں اور بھینسوں کو پیچھے اور پیچھے ہٹنا پڑا۔ چراہ گاہوں میں ہل چلایا گیا، کاشت کی گئی۔ پہلی بہار میں ہی یہ اجناس سے ہری بھری ہو گئیں؛ کھیت، اصطبل، مویشیوں کے باڑے اور اناج محفوظ کرنے کے لئے کوٹھے و گودام ڈالے گئے اور ویرانے کو گلیوں اور سڑکوں نے کاٹ پیٹ کر رکھ دیا۔
ریلوے اسٹیشن مکمل کیا گیا اور اس کا افتتاح بھی ہوا، جس کے بعد سرکاری عمارت بنی اور ایک بنک بھی۔۔ چند ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ اس طرح کی کئی اور بستیاں بھی اس کے اطراف میں ایستادہ ہو گئیں۔ ہر طرف سے محنت کش، کسان اور تاجر کھِنچے چلے آنے لگے؛ شہر میں بسنے کے لئے وکیل، مبلغ اور استاد بھی اس کا رخ کرنے لگے۔ اسکول کھلنے تک یہاں تین مذہبی اجتماع ہو چکے تھے اور دو اخبار بھی نکلنا شروع ہو گئے تھے۔ مغرب میں تیل دریافت ہوا، جس نے اس نومولود شہر میں پیسے کی ریل پیل کر دی۔ سال بھی نہ گزرا تھا کہ وہاں جیب کترے، ڈاکو، دلال بھی پیدا ہو گئے۔ ایک بڑا اسٹور بھی کھل گیا۔ پیرس سے ایک درزی بھی وہاں آ گیا، بوویریا کی جو کی شراب بھی بِکنے لگی اور ایک انجمن بھی وجود میں آ گئی، جو شراب پر پابندی چاہتی تھی۔ اطراف کے قصبوں نے آپسی مقابلے کو فروغ دیا۔ اب ایسا کچھ نہ تھا کہ باقی رہ گیا ہو؛ سنیماﺅں سے لے کر مذہب پرستوں کی انجمنوں تک سب موجود تھا۔ بندہ فرانسیسی وائن بھی خرید سکتا تھا۔ ناروے کی ہیرنگ مچھلی، اطالوی ’ساسیجز‘ ، برطانوی کپڑا اور روسی ’مچھلی کے انڈوں کا اچار‘ سب اس شہر میں دستیاب تھا۔ عام گلوکار، رقاص اور موسیقار بھی اس میں اپنے مجمعے لگانے لگے تھے۔
آہستہ آہستہ اس شہر میں ایک کلچر بھی پروان چڑھا۔ یہ شہر جو شروع میں ایک نو آبادی تھا اب ایک مستقل وطنی شہر بن چکا تھا، جس کی اپنی اقدار تھیں۔ اب ملنے پر سر جھکا کر ایک دوسرے کی تعظیم کرنا اور دوسری شائستہ روشیں اسے دیگر آبادیوں سے مہمیز کرتی تھیں۔ جن لوگوں نے اس شہر کی بنیاد رکھی تھی، وہ مشہور ہونے کے علاوہ عزت دار بھی کہلانے لگے تھے، یوں اک چھوٹی سی اشرافیہ وجود میں آئی۔ نئی نسل بھی جوان ہونے لگی۔ ان کے لئے یہ ایک پرانا شہر تھا جو ہمیشہ سے آباد تھا۔ ہتھوڑے کی پہلی آواز، پہلا قتل، پہلا مذہبی اجتماع، پہلے اخبار کا چھپنا اب ماضی میں بہت پیچھے رہ گیا تھا۔۔۔ یہ سب اب تاریخ ہو چکا تھا۔
شہر اب اپنے اطراف کے قصبوں پر حاوی ہونے لگا اور ایک بڑے علاقے کا دارالخلافہ مانا جانے لگا۔ جہاں پہلے راکھ کے ڈھیروں اور گندے پانی کے جوہڑوں کے کنارے گودام اور جھونپڑے ہوا کرتے تھے، اب وہاں کشادہ سڑکوں پر رعب دار سرکاری عمارات، تھیٹر اور گرجا گھروں کے علاوہ بندوں کو مجبور کرنے والے بنک کھڑے تھے۔ طالبِ علم یونیورسٹی اور لائبریری میں مٹرگشت کرتے۔ ایمبولینسیں احتیاط سے ہسپتالوں کی طرف دوڑتی نظر آتیں۔ پولیس کی گاڑیاں بھی سڑکوں پر نظر آتیں، جن میں بیٹھے ڈپٹیوں کو لوگ دیکھتے تو سر جھکا کر تعظیم دیتے۔ شہر کے بیس بڑے اسکولوں، جو سب لوہے اور پتھروں سے بنے ہوئے تھے، میں اس مشہور شہر کے قیام کا دن ہر سال تقاریرکر کے اور گیت گا کر منایا جاتا۔ سابقہ چراہ گاہیں اب کھیتوں کھلیانوں، کارخانوں، مزدور بستیوں اور ایک دوسرے کو کاٹتی بیسیوں ریل کی پٹریوں تلے گم ہو چکیں تھیں؛ پہاڑ اب نزدیک آ چکے تھے۔ ریل کی پٹریاں تنگ گھاٹیوں میں سے گزرتی، ان کی آخری حدوں تک جا پہنچی تھیں۔ وہاں یا نیچے دور ساحلِ سمندر پر امراء کے ’سمر ہاﺅسز‘ تھے۔
شہر کو کھڑا ہوئے سو سال ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک بھونچال نے اس شہر کو نہ صرف زمین بوس کیا بلکہ ملیامیٹ کر دیا۔ یہ پھر سے کھڑا ہوا لیکن اس بار لکڑی کی جگہ پتھر لے چکے تھے۔ چھوٹے مکانوں کی جگہ بلند عمارتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ ہر چھوٹی شے بڑی کر دی گئی۔ تنگ گلیوں کی جگہ کشادہ سڑکیں مظہر بن گئیں۔ اس کا ریلوے اسٹیشن ملک کا سب سے بڑا اسٹیشن مانا جانے لگا۔ اس کے اسٹاک ایکسچینج نے دنیا بھر میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ معماروں، ہنرمندوں اور فنکاروں نے اس نو ایستادہ شہر کو سرکاری عمارتوں، باغات، فواروں اور یادگاروں سے مزین کر دیا۔ اس نئی صدی کے آغاز سے ہی یہ شہر ملک کا سب سے مالدار اور خوبصورت ترین شہر مانا جانے لگا، ایک ایسا شہر، جسے دیکھنا لازم قرار پایا۔ بدیسی شہروں کے سیاستدان، معمار، ہنرمند اور میئر اس مشہور شہر کے چکر لگانے لگے کہ اس کی عمارات، پانی کے نظام، انتظامی و دیگر امور کے اداروں کا جائزہ لیں سکیں۔
انہی دنوں اس میں ایک نیا ’سٹی ہال‘ بنایا گیا جو دنیا کی عظیم عمارتوں میں سے ایک تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا اور اس شہر کی خوش قسمتی کہ جب نئی دولت اور شہر کے تکبر نے مل کر اس شہر کے باسیوں کے رجحانات، خاص طور پر فنِ تعمیر اور مجسمہ سازی کو جِلا دی اور یہ شہر دل موہ لینے والے عجوبوں کو تخلیق کرنے میں جُٹ گیا۔ شہر کے وسطی حصے کے گردا گرد ایک وسیع و کشادہ باغ بنایا گیا۔ اس وسطی حصے کی عمارتیں دل کو بھلے لگنے والے چمکیلے سبز پتھروں سے مزین تھیں، جبکہ اس گول باغ کے دوسری طرف کشادہ دو رویہ ’ایونیوز‘ تھے، جن کے کناروں پر مکانات کی قطاریں کھلے مضافاتی ماحول میں دور تک پھیلی دکھائی دیتی تھیں۔
اب اس شہر میں ایک عجائب گھر بھی تھا، جسے نہ صرف بہت پسند کیا جاتا تھا بلکہ یہ سب سے زیادہ دیکھی جانے والی جگہ بھی تھی۔ اس کے سینکڑوں کمرے، دالان اور بڑے کمرے تھے، جو سب کے سب اس شہر کی بنیاد سے اس وقت تک کی تاریخ کے لئے مخصوص تھے۔ اس میں داخل ہوتے ہی وسیع درباری حصے میں ایسے تمام ماڈل موجود تھے، جن میں اس شہر کے ابتدائی زمانے کے خستہ حال گودام و جھونپڑے اور تنگ گلیاں جانوروں اور قدرتی ہریالی والے چراہ گاہوں کے پس منظر میں دکھائی گئی تھیں۔ ان ماڈلز کے گردا گرد نوجوان نسل کے لوگ گھوم پھر کر اپنی تاریخ پر غور کرتے دکھائی دیتے؛ تاریخ جو خیموں اور جھونپڑوں، ناہموار تنگ گلیوں اور ’ریل روڈز‘ سے شروع ہوتی، جوکھم کی داستان سناتی اس درخشاں ’میٹروپولس‘ تک پہنچی تھی۔ اپنے استادوں کی رہنمائی و ہدایات کے مطابق وہ اس سب کی جانکاری حاصل کرتے کہ ان کی شاندار ترقی کیسے ہوئی اور ان کے مثالی قوانین نے کیسے ارتقاء پایا، کیسے خام مال سے نفیس اشیاء بنیں، انسان کیسے جانوروں کے ارتقائی عمل سے وجود میں آیا۔ جنگلی انسان کیسے علم پرور انسان میں بدلا اور یہ کہ ’قدرت‘ سے ’کلچر ‘ کیسے بنتا ہے۔
اس سے اگلی صدی میں یہ شہر اپنے وقار کی بلندیوں پر پہنچا اور پھیلتا چلا گیا اور۔۔۔۔ اور زندگی عیش و عشرت کی نذر ہونے لگی۔ پھر محروم طبقات نے اس ’امتیاز‘ کو ایک خونیں انقلاب سے روک لگا دی۔ ہجوم نے شہر سے کچھ دور اُن ’آئل فلیڈز‘ کو نذرِ آتش کیا اور ساتھ ہی ملک میں پھیلے کارخانوں، کھیتوں کھلیانوں اور آبادیوں کو بھی یا تو جلا ڈالا یا پھر ویران کر دیا۔ یہ شہر خود ہر طرح کی قتل و غارت اور بربریت کا شکار ہوا لیکن یقینی بات ہے کہ اس شہر نے اپنا وجود نہ کھویا اور آہستگی کے ساتھ اگلی کچھ دہائیوں میں پھر سے بحالی کے عمل کے ذریعے خود کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا لیکن یہ پہلے طرح کی ’خوش باش زندگی‘ حاصل نہ کر پایا۔
اس دور میں جب یہ شہر خود کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہا تھا، سات سمندر پار ایک دور پار کے ملک نے ترقی پانا شروع کی۔ اس ملک کی مٹی اتنی زرخیز اور قدرتی وسائل سے مالا مال تھی کہ یہ وافر مقدار میں گندم، لوہا، چاندی اور دیگر معدنی خزانے برآمد کرنے لگا۔ پرانی دنیا کے ان لوگوں کے لئے اس نئے ملک میں بہت کشش تھی، جنہیں اپنے ملکوں میں پذیرائی نہیں مل رہی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ان کی خواہشات اور مقاصد ان کے اپنے ملکوں میں پورے نہیں ہو رہے۔ اس نئے ملک میں راتوں رات نئے شہر آباد ہونا شروع ہو گئے اور۔۔۔ اور وہاں سے جنگل ختم ہونا شروع ہو گئے اوراس کی آبشاروں پر قابو پا لیا گیا۔
خوبصورت شہر کا حسن ماند پڑتا گیا۔ اب یہ دنیا کا دل و دماغ نہ رہا تھا اور نہ ہی پہلے کی طرح کئی ملکوں کےلئے کاروباری مرکز اور ’اسٹاک مارکیٹ‘ رہا تھا۔ اسے بس یہ اطمینان تھا کہ اس نئے زمانے میں مٹ نہیں گیا تھا اور خود کو زندہ رکھے ہوئے تھا۔ صنعت و تجارت کی تخلیقی طاقتیں جو اس دور کی نئی دنیا میں جا کر نہ بسی تھیں اور اس شہر میں بھی ان کے لئے کچھ نیا بنانے اور فتح کرنے کو نہ بچا تھا، سو ایک قناعت پسندی نے رواج پایا۔ ایسے میں اس پرانی تہذیبی دھرتی پر ایک ’دانشور زندگی‘ نے جنم لیا۔ اس شہر نے بہت سے اسکالر ، فنکار اور مصور پیدا کئے۔ یہ سنجیدہ اور پرخلوص لوگ تھے۔ یہ افراد انہی لوگوں کی اولاد تھے، جنہوں نے کبھی اس کنواری دھرتی پر پہلے گھر بنائے تھے۔ یہ لوگ خاموشی سے اپنے روز و شب تخلیقی مقاصد کے حصول کے لئے صرف کرتے اور ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے۔ یہ پرانے دالانوں اور باغوں کی مِٹی شان وشوکت اور موسمی اثرات کے مارے مجسموں کو سبز پانیوں کے پسِ منظرمیں مصور کرکے ان کے المیے بیان کرتے، پرانے وقتوں کی بے باک ہنگامہ انگیزیوں اور پرانے محلوں میں رہنے والے تھکے ہارے لوگوں کی زندگیوں پر نظمیں لکھتے۔ ان کی اس کاوش نے ایک بار پھر اس شہر کا نام دنیا میں روشن کر دیا۔ شہر کے باہر اگر لوگ جنگوں سے متاثر یا بڑے بڑے منصوبوں پر کام کرنے میں مصروف ہوتے تو بھی انہیں یہ پتہ تھا کہ اس الگ تھلگ شہر، جس کی موسمی اثرات سے بے رنگ ہوئی عالیشان عمارتوں کے ماتھوں پر بیلیں بے ترتیبی سے پھیلی ہوئی ہیں، جس کے چوراہے اب خاموش ہیں، جس کے فواروں کا پانی نیچے جمی کائی پر گر کر ترنم پیدا کرتا ہے، میں امن ہے۔ وہاں غرق شدہ وقتوں کا وقار اب بھی شام کے دھندلکے میں مدہم سہی لیکن چمک ضرور دیتا ہے۔
کئی صدیوں تک یہ ’سُفنے‘ جیسا شہر نئی دنیا کے لئے قابل احترام رہا ۔ شاعر اس کے بارے میں گیت لکھتے اور محبت کرنے والے جوڑے اس کی سیر کو آتے لیکن لوگوں میں یہ خواہش شدت اختیار کرتی گئی کہ وہ دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی جائیں۔ اس شہر میں بھی پرانے باسیوں کے اگلی نسلیں یا تو مر گئیں یا پھر معاشی طور پر بدحال ہو کر اسے چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔ فنونِ لطیفہ کی کھلاوٹ کا دور بھی اب قصہ پارینہ ہو چکا تھا اور اب اس کا ایک بدحال ڈھانچہ ہی باقی رہا تھا۔ اس کے اطراف میں موجود بستیاں بھی مکمل طور پر ختم ہو چکی تھیں اور وہاں کھنڈر ہی باقی بچے تھے، جن میں کبھی کبھار خانہ بدوش یا جیلوں سے بھاگے مجرم آ کر پناہ لیتے تھے۔
ایک بار پھر زلزلہ آیا، شہر تو بچا رہا لیکن اس نے دریا کا راستہ کچھ ایسے بدلا کہ پامال ہوئے اس علاقے کا ایک حصہ دلدل بن گیا جبکہ دوسرا صحرا میں بدل گیا۔ پہاڑوں میں، جہاں اب کانوں اور ’سمر ہاﺅسز‘ کی باقیات تھیں، وہ بھی ڈھیر ہو گئیں اور ان پر جنگل چڑھ دوڑا۔۔۔ وہی قدیم جنگل۔ اس نے دیکھا کہ وسیع علاقہ خالی پڑا ہے چنانچہ اس نے اس زمین کو آہستہ آہستہ گھیرنا شروع کر دیا تاکہ وہ اس کے سبز حصار میں آ جائے۔ پھر وہ پھرتی سے سرگوشی کرتی کائی زدہ دلدلی جگہ پار کرتے ہوئے اس پتھریلے علاقے میں پہنچا، جہاں ننھے مُنے چیڑ کے درخت پتھروں میں جڑیں جمائے پھوٹے ہوئے تھے۔
شہر کا انجام یہ تھا کہ اس کے گھروں میں اس کے باسی نہ تھے، صرف کچھ جنگلی اجڈ بنجاروں نے ان ماضی کے عالی شان محلوں میں پناہ لے رکھی تھی، جو اپنی خستہ حالی کی انتہا پر پہنچ چکے تھے اور ان کی بکریاں باغات اور گلیوں میں گھاس چرتی پھرتی تھیں۔ یہ لوگ بھی آہستہ آہستہ بیماری اور دیوانگی کے ہاتھوں مرتے چلے گئے۔ جب سے ان مضافات میں دلدلی علاقے بنے تھے، جگہ کا درجہ حرارت بڑھ گیا تھا اور اسے نظرانداز کر دیا گیا تھا۔
شہر کے ’سٹی ہال‘ ، جو اپنے وقت کی شان تھا، کے کھنڈرات تعداد میں زیادہ تھے اور ابھی بھی سب سے زیادہ نمایاں تھے۔ اردگرد کی آبادیوں کے لوگ تمام زبانوں میں ان کی مدح سرائی اپنے گیتوں اور قصوں میں کرتے رہے تھے، جن کے اپنے شہر بھی نہ صرف نظرانداز ہو گئے تھے، بلکہ ان کی تہذیبیں بھی فنا ہو چکیں تھیں۔ اس شہر کا نام، بگاڑ کے ساتھ، اور اس کے ماضی کی شان و شوکت کا ذکر بچوں کی کہانیوں، خوفناک و پراسرار کہانیوں اور مذہبی و لوک ادب میں سامنے آیا۔ دور دراز کے ملکوں کے محقق اس جگہ پر مہماتی دورے کرتے اور ان ملکوں کے طالبِ علم اس پرانے شہر کی پراسراریت پر ذوق و شوق سے بحث و مباحثے کرتے۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس شہر کے دروازے خالص سونے کے تھے، اس کی قبروں میں ہیرے جواہرات بھی دفن تھے اور اس علاقے میں بسے خانہ بدوشوں کے قبیلوں نے اسی شہر کے عروج کے زمانے سے سیکھا ’جادو‘ ہزاروں سالوں سے سینہ در سینہ محفوظ رکھا ہوا تھا۔
لیکن جنگل پہاڑوں سے اترتا چراہ گاہوں تک آ پہنچا۔ جھیلیں اور دریا بنتے اور خشک ہوتے رہے۔ جنگل آگے بڑھتا گیا، وہ پرانی گلیوں کی دیواروں، محلات، عبادت گاہوں، عجائب گھر اور پورے ملک پر چھا گیا۔ لومڑیوں، گلہریوں، بھیڑیوں اور ریچھوں نے اس الگ تھلگ جگہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔
ایک جوان چیڑ کا درخت گرے ہوئے محلات میں سے ایک، جس کا کوئی پتھر بھی نظر نہ آ رہا تھا، پر تنومندی سے کھڑا تھا۔۔۔ چیڑ جو کسی وقت سب سے اہم پیغام رساں ہوتا تھا اور جنگل کی آمد کا پتہ دیتا تھا، اب بھی ایسا ہی تھا۔ اس نے اپنے سامنے اگتے دوسرے چیڑ کے پودوں کی طرف دیکھا۔
”اب ہم اور آگے بڑھ رہے ہیں۔“ ، ہد ہد نے منادی کی اور ایک درخت کے تنے کو چونچ سے ایسے کھودنا شروع کر دیا جیسے اسے اطمینان ہو کہ زمین پر جنگل پھیل رہا ہے اور ہریالی کی ترقی مناسب طور پر ہو رہی ہے۔