ملک عابد کا پہلا لقمہ ابھی منہ ہی میں تھا کہ اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا ذائقہ کڑوا ہو گیا ہے۔ اس نے فوراً پانی کا گلاس منہ سے لگا کر نوالہ نگلا۔ اس کی بیوی نے بات ہی ایسی کردی تھی۔
پچھلے پانچ سالوں میں اس نے گاؤں میں اپنی ساکھ بنانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔
یہاں آتے ہی اس نے پہلا کام گھر کے باہر تختی لگوانے کا کیا تھا۔
’ملک عابد اعوان، جونیئر اکاؤنٹنٹ-واپڈا‘
وہ روز گھر میں داخل ہوتے ہوئے تختی کو دیکھتا تو بہت خوش ہوتا، جیسے اس نے اپنے ماضی سے پیچھا چھڑا لیا ہو۔ آج بھی گھر داخل ہوتے وقت وہ بہت خوش تھا مگر اب اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ایک تیز آندھی چلی ہے، جس نے سب سے پہلے اس کے گھر کے باہر لگی تختی اکھاڑ پھینکی ہے اور جب وہ باہر نکلے گا تو لوگ اس پر ہنسیں گے۔ اس کا جی چاہا کہ دوڑ کر باہر لگی تختی کو ایک نظر دیکھ آئے کہ کہیں کسی نے نام تبدیل نہ کر دیا ہو۔
”آپ پریشان نہ ہوں۔ اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ بس منہ سے نکل گیا تھا۔ اب کیا ہو سکتا ہے۔ منہ سے نکلی بات کبھی واپس لوٹی ہے؟“
”تمہیں یہ بتانے کی ضرورت کیا تھی؟“
”انہوں نے پوچھا تھا، فارم میں لکھنا ہے۔ اپنی قوم بھی بتا دیں۔“
”تو تم کہتی باہر تختی لگی ہے، پڑھ لو“ ،عابد نے کہا۔
”ہاں مگر منہ سے نکل گیا“ ، بیوی نے جواب دیا۔
وہ بیوی کو بے بسی سے یوں دیکھ رہا تھا جیسے ابھی رو دے گا۔ پھر وہ اٹھا اور تیزی سے گھر سے باہر نکل گیا۔ یہ شاید پہلی دفعہ تھا کہ اس نے دروازے پر لگی تختی کی طرف نظر نہیں اٹھائی تھی، جس پر ایک چھوٹا سا بلب ابھی بھی جل رہا تھا، تاکہ رات کو بھی اسے آسانی سے پڑھا جاسکے۔
اس نے بیوی اور بچوں کو باقاعدہ تاکید کر رکھی تھی کہ شام ہوتے ہی برآمدے میں لگے بلب کے ساتھ یہ تختی کے اوپر کا چھوٹا بلب بھی ضرور جلایا کریں، ایسا نہ ہونے پر وہ باقاعدہ ناراض بھی ہوتا تھا۔
تیز تیز قدم اٹھاتا وہ پرائمری اسکول کے استاد منیر کے گھر پہنچ گیا، جنہوں نے آج صبح گھر گھر جا کر فارم پُر کیے تھے۔ عابد کے ذہن میں یہ پریشانی بھی تھی کہ وہ فارم سے متعلق بات کیسے شروع کرے گا؟ یہ کتنی نامناسب بات ہے اور اگر بالفرض استاد منیر نے فارم میں لکھی اس کی قوم پر غور ہی نہ کیا ہو تو؟ توجہ دلانے پر مسئلہ زیادہ سنگین بھی ہو سکتا ہے۔
’نہیں، نہیں۔ مجھے کچھ اور کہنا چاہیے۔ اپنے بیٹے کے داخلے کے لیے کہنا چاہیے۔۔ مگر میں تو اسے ایک ہفتہ قبل انگریزی اسکول میں داخل کروا چکا ہوں۔ ہاں مگر استاد منیر کو کیا معلوم۔‘
پہلی اور دوسری دستک کے درمیان بمشکل دو سیکنڈ کا وقفہ ہوگا، عابد ملک کا بس چلتا تو وہ سیدھا ہی اندر چلا جاتا اور استاد منیر کے پاس موجود سارے فارمز کو آگ لگا دیتا۔
”آیا آیا بھئی۔۔ کیا ہوگیا ہے۔۔ دروازہ توڑنا ہے کیا؟“ استاد منیر کی آواز آئی۔
”جی استاد منیر صاحب میں ہوں، عابد ملک۔“
”ہاں تو عابد صاحب، سب خیریت تو ہے؟“ استاد منیر نے کہا۔
’دیکھا فرق پڑگیا نا۔۔ یہ استاد منیر تو ہمیشہ مجھے عابد ملک کہہ کر بلاتا تھا اور آج صرف عابد۔ آہ میری بیوی کی چھوٹی سے غلطی نے کتنا بڑا نقصان کیا ہے۔‘ عابد ملک نے سوچا۔
”جی جی استاد منیر صاحب سب خیریت ہے۔ میرا بیٹا پانچ سال کا ہو گیا ہے، میں سوچ رہا تھا اسے سرکاری اسکول میں آپ کے پاس داخل کرادوں۔“
”عابد صاحب معذرت چاہتا ہوں، میں نے گھر میں اسکول نہیں کھول رکھا اور نہ بچوں کے داخلے کا کام یہاں پر کرتا ہوں۔“
”دیکھیں آپ ناراض نہ ہوں، محلے داری بھی تو ہے، میں یہاں سے گزر رہا تھا، سوچا بات کر لوں۔“
”ویسے یہ وقت کچھ مناسب نہیں.“ استاد منیر نے کہا۔
”میں صرف مشورہ کرنا چاہ رہا تھا“ عابد ملک نے کہا۔
”لیکن مشورہ اسکول داخل کروانے سے پہلے کرواتے ہیں۔ آپ کی بیوی نے آج صبح ہی مجھے بتایا ہے کہ آپ کا بیٹا انگریزی اسکول میں پڑھتا ہے۔“
آہ! یہ عورت مجھے کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ اس نے تو سب کچھ بتادیا ہے اور اس شخص کے حافظے کے بارے میں تو گاؤں میں کئی قصے مشہور ہیں، اس نے سوچا۔
”جی جی بالکل، مگر میرا دل مطمئن نہیں ہے۔ غیر سرکاری اسکول تو بس فیس لینے کی فیکٹریاں ہیں۔ بالکل بھی ٹھیک نہیں پڑھاتے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اسے آپ اپنے پاس داخل کر لیں۔“
”میں تو کہوں گا، اس سال اسے وہیں پڑھنے دیں۔ پھر اگلے سال دیکھ لیں گے۔ ابھی آپ کو وہ بچے کے اسکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ بھی جاری نہیں کریں گے“ استاد منیر نے کہا۔
”ہاں یہ تو ہے۔ مگر، ہاں ٹھیک ہے۔ آپ درست کہہ رہے ہیں۔“
یہ کہہ کر وہ مُڑنے لگا۔ پھر رُک گیا۔
”آپ کا بہت شکریہ منیر صاحب“ ، اگرچہ وہ فارم سے متعلق پوچھنا چاہتا تھا مگر نہ پوچھ سکا اور گھر کی جانب چل پڑا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ استاد منیر کا یہ درشت لہجہ بالکل نیا ہے، ایسا صرف اور صرف اس کی بیوی کی ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے ہوا تھا، ورنہ ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ استاد منیر اسے گھر کے دروازے سے کھڑے کھڑے واپس جانے دیتا۔ وہ یقیناً چائے پانی کا اس سے ضرور پوچھتا اور پھر کل کا سورج تو اس کے لیے سب کے رویے ہی بدل کر رکھ دے گا۔
اب میں اس گاؤں میں مزید نہیں ٹھہر سکتا۔ مجھے کل ہی کہیں اور تبادلے کے لیے درخواست جمع کروانی ہوگی۔ وہ جب لوٹ رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ تانی مرغی فروش چپ چاپ اس کے پاس سے گزر گیا حالانکہ ملک عابد جب بھی اس کی دکان پر گوشت خریدنے جاتا تھا تو وہ اونچی آواز میں ’ملک صاحب‘ کہہ کر سلام کرتا تھا۔ ایک ہی دن میں سب کچھ بدل گیا ہے، اس نے سوچا۔
دروازے پر اس کی نظر بے اختیار تختی پر جا ٹھہری، چھوٹا سبز رنگ کا بلب جل رہا تھا۔ نام پڑھ کر اس نے تختی پر ہاتھ پھیرا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اسے اپنا باپ یاد آ گیا، جو اسے اسکول بھیجتے ہوئے ماتھا چومتا اور کہتا کہ،
”بیٹا ہم کمی کمین لوگ ہیں۔ میرے باپ دادا بھی یہاں سے نہیں نکل سکے۔ میں لوگوں کی غلاظت صاف کروں گا مگر تم یہاں سے نکل جاؤ، اور یاد رکھنا اپنے ساتھ اپنا ماضی مت لے کر جانا۔ لوگ بڑے ظالم ہیں، یہ آدمی کا نہیں، اس کی ذات کا احترام کرتے ہیں۔ اگر تمہاری ذات اونچی ہے اور تمہاری جیب میں روپے بھی ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔“
اور ملک عابد نے ایسا ہی کیا تھا۔ وہ آگے نکل گیا تھا۔ ماضی کو بہت پیچھے چھوڑ کر۔
وہ گھر میں داخل ہوا۔ چُپ چاپ صحن میں موجود چارپائی پر لیٹ گیا۔
”پانی لادوں؟“ ، اس کی بیوی نے پوچھا۔
”نہیں“ اس نے مختصر جواب دیا اور آسمان کو گھورنے لگا۔
”استاد منیر نے فارم واپس دے دیا ہے؟“
”نہیں۔“
”اب کیا ہوگا؟“ ، بیوی نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا۔
”پتا نہیں۔“
اس کی بیوی اٹھی اور آنکھوں کے آگے دوپٹہ رکھتے ہوئے اندر کمرے میں چلی گئی۔
وہ رات گئے تک چِت لیٹا آسمان کو گھورتا رہا۔ ایسے میں اسے کیسے کیسے واقعات یاد آئے تھے، جب پرانے گاؤں میں لوگوں نے اس کی قوم کی وجہ سے اس کا مذاق اڑایا تھا۔ جب تک وہ گاؤں کے اسکول میں پڑھتا رہا، سب کا رویہ تضحیک آمیز تھا۔ اسکول کے گٹر بند ہو جانے والا واقعہ۔۔۔ آہ! کتنا دکھ ہے ان واقعات میں۔ یہ سب سوچ کر اسے جھرجھری آ گئی۔ اس کے دماغ میں شور سا اٹھنے لگا۔ وہ سارے اسکول کے لڑکے جو ماضی میں کہیں کھو گئے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے پھر جمع ہو گئے اور مل کر آوازیں کسنے لگے۔
غسل خانے کے دروازے کے پاس جھاڑو پڑا تھا۔ وہ جھاڑو اٹھا کر باہر گلی میں نکل آیا۔
اس نے آسمان کی جانب دیکھا اور پھر روتے ہوئے گلی میں جھاڑو دینے لگا۔