روشن پور کے خوبصورت محلے میں زندگی پرسکون اور معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ گھروں کے ارد گرد سفید باڑیں تھیں، جہاں خوشیاں تھیں، مسکراہٹیں تھیں ۔ لیکن یہ سب کچھ چوہان خاندان کے خطرناک ’لکی‘ کی آمد سے پہلے تھا۔
لکی عام کتوں جیسا نہیں تھا۔ اس کی موجودگی میں ایک عجیب سا خطرہ تھا جو بچوں اور بڑوں دونوں کی ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی لہر دوڑا دیتا تھا۔ اس کی آنکھیں عجیب درشتی سے چمکتی تھیں اور اس کی غرغرہ آواز ایسی تھی، جیسے یہ جہنم کے گہرائیوں سے آ رہی ہو۔ تاہم چوہان صاحب اسے پسند کرتے تھے اور ہمسایوں کی تشویش کو نظر انداز کر دیتے تھے۔
یہ ایک روشن دوپہر تھی جب پہلا واقعہ پیش آیا۔ صدیقی صاحب کے بچے، جو اپنے شرارتوں کے لیے مشہور تھے، اپنے صحن میں کھیل رہے تھے۔ لکی کو چھیڑتے ہوئے انہوں نے کچھ لکڑی کے ٹکڑے چوہان صاحب کے صحن میں پھینکے، اس خطرے سے بے خبر کہ کیا ہونے والا ہے۔ مضبوط باڑ زیادہ دیر تک غصے میں بپھرے ہوئے کتے کو نہیں روک سکی۔ ایک طاقتور چھلانگ کے ساتھ، لکی، صدیقی صاحب کے صحن میں گھس آیا، اس کی غرغرہ آواز وحشیانہ بھونک میں بدل گئی۔
بچوں کی چیخیں محلے میں گونج اٹھیں، لکی نے بچوں پر حملہ کر دیا ہے۔۔ اس حملے میں کئی بچے زخمی ہو گئے۔ صدیقی خاندان خوف اور غصے کی حالت میں اپنے بچوں کو ہسپتال لے گیا اور فوراً شکایت درج کروائی۔ تاہم،چوہان خاندان نے اپنے پالتو جانور کا سختی سے دفاع کیا، ”آپ کے بچوں نے اسے مشتعل کیا تھا، میرا لکی پاگل نہیں ہے۔ اس نے صرف ان کی شرارت کا رد عمل ظاہر کیا۔“
دن گزر گئے، لیکن روشن پور میں تناؤ واضح تھا۔ لکی نے اپنے دہشت کے راج کو جاری رکھا، اس بار ہدف بناتے ہوئے علی سعیدی کے صحن میں گھس گیا، اور راستے میں آنے والے کسی بھی شخص کو کاٹنے اور نوچنے لگا۔ بیگم سعیدی آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی تھیں، انہوں نے ایک بار پھر حکام کو فون کیا اور کارروائی کا مطالبہ کیا۔
”یہ کتا خطرناک ہے! پاگل ہے۔۔۔ اسے مار دینا چاہیے!“ انہوں نے روتے ہوئے کہا۔
لیکن چوہان خاندان اٹل رہا، ”اگر آپ محتاط ہوں تو لکی کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔“
آخری دھچکہ اس وقت لگا جب لکی، سیٹھ قاسم کے گھر میں داخل ہوا۔ اس وقت وہ زیادہ وحشی پن کا مظاہرہ کر رہا تھا، اس نے تین بچوں کو بری طرح زخمی کر دیا۔ اب محلے والوں کی برداشت جواب دے گئی اور صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ انہوں نے احتجاج کیا، مطالبہ کیا کہ لکی کو مار دیا جائے، اس سے پہلے کہ وہ مزید کسی کو نقصان پہنچا سکے۔
”ہمیں کچھ کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔۔“ سیٹھ قاسم نے گزارش کی۔
پھر بھی، چوہان خاندان بے لچک رہا۔ ”یہ لکی کی غلطی نہیں ہے“ انہوں نے اصرار کیا، ”آپ سب ہی ذمہ دار ہیں کہ محتاط نہیں ہیں۔“
ایک ٹھنڈی شام، جب چوہان صاحب اپنی چائے کا لطف اٹھا رہے تھے، انہوں نے اپنے گھر سے ایک خوفناک شور سنا۔ شور کے منبع کی طرف دوڑتے ہوئے، انہوں نے لکی کو خون میں لت پت اور درندہ پایا، جو چوہان کے بچوں پر حملہ آور ہوا تھا۔
چوہان خاندان کی مدد کے لیے پکار محلے میں گونج اٹھی، لیکن کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا۔ وہ بہت عرصے سے اس جانور کا دفاع کرتے آئے تھے، اور اب وہ اس کی قیمت ادا کر رہے تھے۔۔