بلتھزار کی شاندار دوپہر

گیبریل گارسیا مارکیز (ترجمہ: جاوید بسام)

پنجرہ تیار ہوگیا تھا۔ بلتھزار نے عادت کے مطابق اسے باہر چھت کے نیچے لٹکا دیا اور جب وہ ظہرانے سے فارغ ہوا تو پورا قصبہ اس بات پر متفق تھا کہ یہ دنیا کا سب سے خوبصورت پنجرہ ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے اتنے لوگ آئے کہ گھر کے سامنے ہجوم جمع ہو گیا۔ آخر بلتھزار کو پنجرا ہٹا کر اپنی ترکھان کی دکان بند کرنا پڑی۔

”تمہیں داڑھی مونڈنے کی ضرورت ہے۔ اس میں تم راہب لگ رہے ہو۔“ اس کی بیوی ارسلا نے کہا۔

”کھانے کے بعد شیو کرنا اچھا نہیں۔“ بلتھزار نے کہا۔

اُس نے دو ہفتوں سے شیو نہیں بنایا تھا، اس کے چھوٹے اور گھنے بال خچر کی ایال کی طرح کھڑے تھے۔ اسے دیکھ کر عمومی طور پر ایک خوفزدہ لڑکے کا تاثر ملتا تھا، لیکن یہ تاثر غلط تھا۔ وہ فروری میں تیس سال کا ہو چکا تھا اور پچھلے چار سال سے ارسلا کے ساتھ بغیر شادی اور بغیر اولاد کے رہ رہا تھا۔ زندگی نے اسے محتاط رہنے کی بہت سی دلیلیں دی تھیں، لیکن ڈرنے کی کوئی ایک بھی نہیں۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس نے جو پنجرہ بنایا ہے، وہ دنیا کا سب سے خوبصورت پنجرہ ہے۔ وہ بچپن سے پنجرے بنا رہا تھا اور یہ پنجرہ بس دوسروں سے اس لیے مختلف تھا کہ یہ معمول سے زیادہ مشکل کام تھا۔

”تو پھر کچھ دیر آرام کرلو۔ ایسے حلیے میں مت جانا۔“ ارسلا نے کہا۔

لیکن آرام کرنا ممکن نہیں تھا۔ بلتھزار کو کئی بار جھولے سے اتر کر پڑوسیوں کو پنجرہ دکھانا پڑا۔ ابھی تک ارسلا نے پنجرے کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔ وہ اس بات پر خفا تھی کہ بلتھزار نے پنجرے کی خاطر دو ہفتے تک اپنے اصل کام کو نظر انداز کیا اور خود کو پنجرے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ وہ بہت کم سوتا، نیند میں بے چینی سے کروٹیں بدلتا اور کچھ بڑبڑاتا رہتا تھا۔ وہ شیو کرنا بھی بھول گیا تھا، لیکن جب ارسلا نے تیار پنجرے کو دیکھا تو اس کی ناراضگی دور ہو گئی۔

بلتھزار جھپکی لے کر بیدار ہوا تو ارسلا نے اس کی پتلون اور قمیض پہلے ہی استری کر کے رکھ دی تھی۔ پنجرہ کھانے کے کمرے میں میز پر پڑا تھا۔ ارسلا خاموشی سے اس کا جائزہ لے رہی تھی۔ ”وہ اس کی کتنی رقم ادا کریں گے؟“ اس نے استفسار کیا.

”میں نہیں جانتا۔“ بلتھزار نے جواباً کہا۔ ”میں تیس پیسو کا مطالبہ کروں گا، شاید وہ بیس دے دیں۔“

”پچاس مانگنا۔ تم نے ان پندرہ دنوں میں بہت محنت کی ہے اور اپنا آرام تیاگ دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کافی بڑا ہے۔ میرا خیال ہے۔ میں نے پہلے اتنا بڑا اور شاندار پنجرہ کبھی نہیں دیکھا۔“ ارسلا نے کہا۔

بلتھزار داڑھی مونڈنے بیٹھ گیا۔ ”کیا تم کو لگتا ہے کہ وہ مجھے پچاس پیسو دے دیں گے؟“اس نے پوچھا۔

”حوزے مونتیل کے لیے یہ معمولی رقم ہے اور اس کی قیمت اتنی ہی ہے، لیکن تم پہلے ساٹھ کہنا۔“ ارسلا نے کہا۔

گھر میں دم گھٹنے والی اداسی چھائی ہوئی تھی۔ یہ اپریل کا پہلا ہفتہ تھا۔ جھینگروں کی زور دار سیٹیاں گرمی کو مزید ناقابل برداشت بنا رہی تھیں۔ بلتھزار نے کپڑے بدلے اور ہوا کی آمدورفت کے لیے دروازہ کھول دیا۔ بچے، پنجرہ دیکھنے کے لیے کھانے کے کمرے میں داخل ہونے لگے۔
پنجرے کی خبر دور دور تک پھیل چکی تھی۔

اوکتیو جیرالڈو ایک بوڑھا ڈاکٹر تھا۔ وہ اپنی زندگی سے خوش، لیکن اپنے پیشے سے تھک چکا تھا۔ اس دوپہر وہ اپنی بیمار بیوی کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے پنجرے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ اندرونی برآمدے میں بیٹھے تھے، جہاں گرمیوں میں دستر خوان بچھایا جاتا تھا، وہاں پھولدار پودوں کے گملے اور دو پنجرے رکھے تھے۔ جن میں کینریاں تھیں۔ ڈاکٹر کی بیوی پرندوں سے بہت پیار کرتی تھی، لیکن اسے بلیوں سے نفرت تھی جو اس کے پرندے مار دیتی تھیں۔ اس شام ڈاکٹر کسی مریض کو دیکھنے اس کے گھر گیا، واپس آتے ہوئے وہ پنجرہ دیکھنے کے لیے بلتھزار کے پاس رک گیا۔

گھر میں بہت سے لوگ موجود تھے۔ میز پر لوہے کی تاروں سے بنا پنجرہ رکھا تھا۔ اس پر ایک بڑا گنبد تھا اور نیچے تین خانے تھے، ایک کھانے کا کمرہ، ایک سونے کا اور ایک حصہ تفریح کے لیے مختص تھا۔ ان میں جھولے لگے تھے۔ تمام خانے راہداری سے جڑے ہوئے تھے۔ وہ برف کے کارخانے کے بڑے ماڈل سے مشابہت رکھتا تھا۔ ڈاکٹر نے پنجرے کو چھوئے بغیر غور سے معائنہ کیا۔ اسے خیال آیا۔ یہ واقعی اتنی شہرت کا مستحق ہے۔ ڈاکٹر اور اس کی بیوی نے ایسا پنجرہ کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔

”یہ پریوں کی کہانی جیسا ہے۔“ اس نے پرجوش انداز میں کہا۔ پھر بچوں کی بھیڑ میں بلتھزار کو تلاش کیا اور اسے شفقت آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، ”آپ ایک بہترین کاریگر ہیں۔“

بلتھزار شرما گیا پھر بولا، ”آپ کی پذیرائی کا شکریہ۔“

”یہ سچ ہے۔“ ڈاکٹر نے کہا۔ وہ قدرے فربہ، ہموار جلد اور نرم ہاتھوں والا آدمی تھا۔ اس عورت کی طرح جو اپنی جوانی میں خوبصورت رہی ہو۔ وہ اس طرح کلام کرتا، جیسے ایک پادری خطبے کے دوران بات کرتا ہے۔ ”آپ کو خود اس میں پرندے ڈالنے کی ضرورت نہیں، بس اسے درختوں کے درمیان لٹکانا کافی ہے۔ وہ خود گاتے ہوئے اس میں چلے آئیں گے۔“ ڈاکٹر نے پنجرہ اٹھا کر حاضرین کو دکھاتے ہوئے کہا، جیسے وہ پنجرہ بیچ رہا ہو۔
پھر اس نے پنجرہ میز پر رکھا اور بولا۔”ٹھیک ہے، میں اسے خریدتا ہوں۔“

”یہ فروخت ہوچکا ہے۔“ارسلا نے کہا۔

”حوزے مونتیل کے صاحبزادے نے اسے تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔“ بلتھزار نے مزید کہا۔

ایک لمحے کے لیے ڈاکٹر کے چہرے پر ناگواری کی لہر آئی۔ پھر اس نے خود کو قابو کیا اور بولا، ”کیا اُس نے بنانے کے لیے کوئی خاکہ دیا تھا؟“

’’نہیں۔‘‘ بلتھزار نے کہا، ”اس نے صرف اتنا کہا تھا کہ دو زرین زاغوں کے لیے ایک بڑا پنجرہ چاہتا ہے۔“

ڈاکٹر نے پنجرے کی طرف دیکھا اور بولا، ”لیکن یہ زرین زاغوں کے لیے اچھا نہیں ہے۔“

”وہ کیوں جناب؟“ بلتھزار نے میز کے قریب آتے ہوئے کہا۔ جہاں بچے پنجرے کو گھیرے کھڑے تھے۔ ”میں نے اس میں ہر چیز کا خیال رکھا ہے۔ تمام پیمائشیں پوری ہیں۔“ اس نے انگلی سے اندرونی حصوں کی طرف اشارہ کیا۔ پھر اپنی انگلیاں گنبد سے ٹکرائیں تو پنجرے میں سے راگ کی سی آواز سنائی دی۔
”یہ بازار میں دستیاب سب سے مضبوط تار سے بنایا گیا ہے اور ہر جوڑ کو اندر اور باہر سے ویلڈ کیا گیا ہے۔“ بلتھزار نے کہا۔

”یہ توتے کے لیے بھی اچھا ہے۔“ بچوں میں سے ایک نے کہا۔

” بالکل۔“ بلتھزار نے کہا۔

ڈاکٹر نے سر ہلایا۔ ”یہ تو ہے، لیکن اس نے آپ کو کوئی خاکہ نہیں دیا تھا کہ پنجرہ کیسے بنانا ہے۔ سوائے یہ کہنے کے کہ زرین زاغوں کے لیے ایک پنجرہ بنانا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟“

’’ہاں ایسا ہی ہے۔‘‘ بلتھزار نے کہا۔

’’تو پھر کیا مسئلہ ہے؟‘‘ ڈاکٹر نے کہا، ” اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ وہی پنجرہ ہے، جس کا آپ کو حکم دیا گیا تھا۔“

”لیکن یہ وہی ہے۔“ بلتھزار نے الجھن آمیز لہجے میں کہا، ”یہ میں نے اس کے لیے بنایا ہے۔“

ڈاکٹر نے بے قراری سے ہاتھ ہلایا۔

”آپ دوسرا بھی بنا سکتے ہیں۔“ ارسلا نے اپنے شوہر سے کہا، پھر ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوئی۔ ”آپ کو کچھ دن انتظار کرنا ہوگا۔“

”میں نے آج اپنی بیوی سے پنجرہ لانے کا وعدہ کیا ہے۔“ ڈاکٹر نے کہا۔

”مجھے بہت افسوس ہے جناب“ بلتھزار نے کہا، ”لیکن میں ایسی چیز نہیں بیچ سکتا۔ جو پہلے ہی فروخت ہوچکی ہے۔“

ڈاکٹر نے خاموشی سے کندھے اچکائے اور رومال نکال کر پسینے سے آلودہ گردن کو پونچھتے ہوئے پنجرے کی طرف یوں دیکھا، جیسے دور کہرے میں روانہ ہونے والے بھاپ کے جہاز کو آخری بار دیکھ رہا ہو۔

”انہوں نے اس کی کتنی ادائیگی کی ہے؟“ اس نے پوچھا۔

بلتھزار نے خاموشی سے ارسلا کو دیکھا۔

”ساٹھ پیسو۔“ اس نے کہا۔

"یہ ایک شاہکار ہے۔“ ڈاکٹر نے آہ بھری۔ ”انتہائی خوبصورت!“ پھر پنجرے پر نظریں جمائے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے رومال سے تیزی سے خود ہوا دینے لگا۔ جیسے اس سارے قصے کو بھلانا چاہتا ہو۔ ”مونتیل بہت امیر ہے۔“ وہ باہر نکلتے ہوئے بڑبڑایا۔

سچ یہ تھا کہ حوزے مونتیل اتنا امیر نہیں تھا جتنا نظر آتا تھا، لیکن وہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا۔ چند بلاکوں کے فاصلے پر مونتیل، بلتھزار کے شاندار پنجرے کی خبروں سے لاتعلق اپنے پرتعیش ولا میں آرام کر رہا تھا۔ مونتیل کی بیوی نے ظہرانے کے بعد دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیں تھیں۔ وہ خوف مرگ مبتلا دو گھنٹے سے نیم اندھیرے کمرے میں آنکھیں کھولے لیٹی تھی۔ جب کہ حوزے مونتیل نے قیلولہ کیا اور اب غسل کر رہا تھا۔ اچانک مونتیل کی بیوی کو گلی سے بچوں کے شور اور گڑگڑاہٹ سنائی دیں۔ اس نے دروازہ کھولا تو پرجوش ہجوم کے درمیان بلتھزار کو پنجرہ لیے آتے دیکھا۔ وہ سفید لباس میں ملبوس تھا اور اس کا چہرہ تازہ شیو سے چمک رہا تھا۔ اس کے اطوار میں معمول کے مطابق ویسا ہی وقار اور سادگی تھی، جیسی کہ غریب کی امیروں کے گھر آمد پر ہوتی ہے۔

”کیا شاندار چیز ہے!‘‘ حوزے مونتیل کی بیوی نے خوشی سے چلّا کر کہا، ”میں نے اپنی زندگی میں ایسا پنجرہ نہیں دیکھا۔“ پھر اس نے دروازے پر جمع بے قابو ہجوم پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بلتھزار سے کہا، ”اسے اندر لے جاؤ ورنہ یہ لوگ اس جگہ کو مرغوں کے اکھاڑے میں بدل دیں گے۔“

بلتھزار، مسٹر حوزے مونتیل کے لیے کوئی اجنبی نہیں تھا، اس نے کئی بار اس کی مہارت اور دیانتداری کو دیکھتے ہوئے اسے چھوٹے کام سونپے تھے، لیکن وہ خود امیروں کی صحبت میں کبھی اچھا محسوس نہیں کرتا تھا۔ وہ اکثر ان کے بارے میں، ان کی بدصورت جھگڑالو عورتوں کے بارے میں اور ان کی خوفناک بیماریوں کے بارے میں سوچتا اور اسے ہمیشہ ان پر ترس آتا تھا۔ ان کے شاندار کمروں میں داخل ہوتے ہی بلتھزار کی ٹانگوں میں درد ہونے لگتا تھا۔

”پیپے گھر میں ہے؟“ بلتھزار نے پوچھا اور پنجرہ میز پر رکھ دیا۔

”وہ اسکول گیا ہوا ہے، بس آنے والا ہوگا۔“ پھر مزید کہا، ”مونتیل غسل کر رہا ہے۔“

درحقیقت، حوزے مونتیل کے پاس پورا غسل کرنے کا وقت نہیں تھا۔ اس نے جلدی جلدی خود کو کافوری الکحل سے رگڑا تاکہ باہر جا کر دیکھے کہ کیسا شور ہو رہا ہے۔ مونتیل بہت محتاط آدمی تھا۔ وہ اتنا محتاط تھا کہ بجلی کا پنکھا چلائے بغیر بھی سوتا تھا، تاکہ گھر میں ہونے والی آہٹوں کو بھی سنتا رہے۔

”ایڈیلیڈ! کون آیا ہے؟“ آخر اس نے چلّا کر پوچھا۔

”باہر آؤ دیکھو کیا کمال چیز ہے!“ عورت نے جواب دیا۔

حوزے مونتیل نے حمام کا دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔ اس کے اوپری جسم پر گھنے بال تھے اور اس نے گردن پر تولیہ لپیٹا ہوا تھا۔
”یہ کیا ہے؟“

”پیپے کا پنجرہ!“ بلتھزار نے کہا۔

عورت نے الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھا۔

”کس کا؟“ مونتیل نے استفسار کیا۔

”پیپے کا!“ بلتھزار نے دہرایا، ”پیپے نے مجھے اس کو بنانے کا حکم دیا تھا۔“

چند لمحوں تک کچھ نہیں ہوا، لیکن بلتھزار کو اچانک لگا جیسے حمام کا دروازہ پورا کھل گیا ہے۔ حوزے مونتیل اپنے زیر جامے میں باہر آیا،
”پیپے!“ وہ چلایا۔

”وہ ابھی نہیں آیا۔“ عورت نے چونک کر کہا۔

اسی وقت پیپے دروازے میں نمودار ہوا۔ وہ تقریباً بارہ سال کا تھا۔ اسے اپنی ماں سے وراثت میں لمبی خمیدہ پلکیں ملی تھیں، جن سے اداسی کا خاموش اظہار ہوتا تھا۔

”یہاں آؤ!“ حوزے مونتیل نے کہا، ”کیا آپ نے اس کا آرڈر دیا تھا؟“

لڑکے کا سر جھک گیا۔ مونتیل نے اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچے اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کہا، ”جواب دو!“

لڑکے نے خاموشی سے ہونٹ کاٹے۔

"مونتیل!” اس کی بیوی نے سرگوشی کی۔

حوزے مونتیل نے لڑکے کو دور دھکیل دیا اور تیزی سے بلتھزار کی طرف مڑا۔ ”مجھے افسوس ہے بلتھزار، لیکن آپ کو پنجرہ بنانے سے پہلے مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا۔ آپ نے ایک بچے کی ہدایت پر کیسے عمل کیا؟“

یہ کہہ کر اس نے خود پر قابو پانے کی کوشش کی۔ پھر پنجرے کی طرف دیکھے بغیر اسے اٹھایا اور بلتھزار کو دے دیا، ”اسے فوراً لے جائیں اور کسی اور کو بیچنے کی کوشش کریں۔ براہ کرم بحث مت کیجئیے گا۔“

اس نے بلتھزار کی پیٹھ تھپکی اور وضاحت کی۔ ”دراصل ڈاکٹر نے مجھے غصہ کرنے سے منع کیا ہے۔“

پیپے بنا پلکیں جھپکائے بت کی طرح ساکت کھڑا تھا۔ بلتھزار نے پنجرہ ہاتھ میں پکڑے الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھا، اچانک پیپے نے حلق سے کتے کی غراہٹ جیسی آواز نکالی اور چیختا ہوا فرش پر گر گیا۔

حوزے مونتیل نے بے حسی سے اسے دیکھا۔ ماں اسے سنھبالنے کے لیے دوڑی۔

”اسے مت روکو!“ مونٹیل چلایا، ”اسے فرش پر اپنا سر مارنے دو، پھر اس کے زخم پر نمک ڈالو اور اس پر لیموں رگڑو۔ تاکہ یہ اپنے دل کی بھراس نکال لے۔“

لڑکا بغیر آنسوؤں کے چیخ چیخ کر رو رہا تھا، اس کی ماں اس کا ہاتھ پکڑے بیٹھی تھی۔

”میں کہتا ہوں، اسے چھوڑ دو!“مونتیل چلایا۔

بلتھزار نے لڑکے کی طرف دیکھا۔ وہ کسی متعدی بیماری میں مبتلا جانور کی طرح تڑپ رہا تھا۔

اب چار بج گئے تھے۔ ارسلا گھر میں لچھے دار پیاز کاٹتے ہوئے کوئی پرانا گانا گا رہی تھی۔

”پیپے!“ بلتھزار نے کہا اور مسکراتے ہوئے پنجرہ اس کی طرف بڑھایا۔ لڑکا اچھل کر کھڑا ہوا اور پنجرے کو دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیا۔ پنجرہ اس کے قد کے برابر تھا۔ وہ دھاتی جالی سے جھانکتے ہوئے بلتھزار کو دیکھ رہا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ کیا کہے۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں۔

”بلتھزار۔“مونتیل نے آہستہ سے کہا، ”میں نے آپ سے پنجرہ لے جانے کو کہا تھا۔“

”اسے واپس کرو!“ ماں نے لڑکے کو حکم دیا۔

” یہ رکھ لو۔“ بلتھزار نے کہا اور حوزے مونتیل کی طرف رخ کرتے ہوئے بولا، ”یہ میں نے پیپے کے لیے بنایا ہے۔“

’’بے وقوف نہ بنو!‘‘ حوزے مونتیل نے بلتھزار کو روکتے ہوئے کہا، ”اپنا پنجرہ لے جاؤ۔ میں اس کے لیے ایک سینٹو بھی ادا نہیں کروں گا۔“

”کوئی بات نہیں۔“ بلتھزار نے کہا، ”یہ پیپے کے لیے تحفہ ہے۔ میں نے اِس سے پیسہ کمانے کا نہیں سوچا تھا۔“

جب بلتھزار داخلی دروازے پر جمع حیرت زدہ لوگوں کے ہجوم میں اپنا راستہ بنا رہا تھا، حوزے مونتیل غصّے سے چلایا، ”احمق! اپنا کچرا لے جاؤ! اب یہ وقت آ گیا ہے کہ کوئی میرے گھر آ کر مجھے حکم دے۔ تم پر لعنت ہو!“

جب بلتھزار، بلیرڈ روم میں داخل ہوا تو لوگوں نے اس کا کھڑے ہو کر شاندار استقبال کیا۔ بلتھزار کو خیال آیا کہ میں نے ایک عمدہ پنجرہ بنایا جو مجھے مونتیل کے بیٹے کو دینا پڑا، تاکہ وہ رونا بند کر دے، اس میں کیا اہم بات ہے؟ لیکن پھر اس نے محسوس کیا کہ یہ بات دوسرے لوگوں کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ اس نے خود کو تھوڑا سا پرجوش محسوس کیا۔

”تو انہوں نے آپ کو پنجرے کے لیے پچاس پیسو دیے؟“ ایک آدمی نے پوچھا۔

”ساٹھ پیسو۔“ بلتھزار بولا۔

”ہمیں آسمان تک ایک صلیب بنانی چاہیے۔“ کسی نے کہا۔

”آپ واحد آدمی ہیں۔ جو ڈان حوزے مونتیل سے اتنی خطیر رقم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہمیں اس کا جشن منانا چاہیے۔“کوئی بولا۔

اسے بیئر پیش کی گئی اور بلتھزار نے بدلے میں سب کے لیے بیئر کا آرڈر دیا۔ اس نے پہلی بار پی تھی، جلد ہی اسے نشہ چڑھ گیا، وہ اپنے منصوبے کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ ”ساٹھ پیسو کے حساب سے ایک ہزار پنجرے بنانا، پھر تقریباً دس لاکھ پنجرے، یہاں تک کہ وہ ساٹھ ملین پیسو تک پہنچ گیا۔
اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔”ہمیں مختلف چیزیں بنانی چاہئیں اور امیروں کو بیچنی چاہئیں۔ وہ سب بیمار ہیں اور دھیرے دھیرے مر رہے ہیں۔“

لگاتار دو گھنٹے تک بلتھزار کے خرچ پر خود کار گراموفون بجتا رہا۔ سب نے بلتھزار کی صحت، اس کی خوشی اور اچھی قسمت کے لیے پی۔ پھر امیروں کی موت کے لیے دعا کی، لیکن جب رات کے کھانے کا وقت آیا تو وہ سب اسے چھوڑ کر چلے گئے۔

ارسلا آٹھ بجے تک اس کا انتظار کرتی رہی، پلیٹ میں بھنا ہوا گوشت اور لچھے دار پیاز رکھے تھے۔ کسی نے اسے بتایا کہ وہ بلیئرڈ روم میں بیٹھا ہے، بہت خوش ہے اور سب کے ساتھ بیئر پی کر جشن منا رہا ہے، لیکن ارسلا نے اس پر یقین نہیں کیا، کیونکہ بلتھزار نے پہلے کبھی شراب نہیں پی تھی۔ جب وہ تقریباً آدھی رات کو بستر پر گئی تو بلتھزار ابھی تک چمکتی روشنیوں والے بلیرڈ روم میں چار کرسیوں والی میزوں میں گھرا بیٹھا تھا اور اوپن ائیر ڈانس فلور پر بگلے گھوم رہے تھے۔ اس کے چہرے پر نشے کی لالی تھی اور وہ قدم اٹھانے سے بھی قاصر تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ایک ہی بستر پر دو عورتوں کے ساتھ سونا کتنا اچھا ہوگا۔ اس پر اتنا بار چڑھ گیا تھا کہ اگلے دن ادائیگی کرنے کے وعدے کے ساتھ، ضمانت کے طور پر اسے اپنی گھڑی چھوڑنی پڑی۔ کچھ دیر بعد وہ باہر پڑا تھا اور اس کی ٹانگیں سڑک پر پھیلی تھیں۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جوتے اتارے جارہے ہیں، لیکن اسے اپنی زندگی کے سب سے خوش گوار خواب کو ختم کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ صبح پانچ بجے کے اجتماع میں جانے والی خواتین نے اس کی طرف دیکھنے کی ہمت یہ سوچ کر نہ کی کہ وہ مرگیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close