اندھیروں کے عادی۔۔ تین مختصر کہانیاں

محمد جمیل اختر

اندھیروں کے عادی

معلوم نہیں کتنی مدت وہ سوتا رہا، حتیٰ کہ وہ اکتا گیا۔

”آخر یہ سورج کیوں نہیں نکل رہا؟ رات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی“ اس نے سوچا۔

”اس ناختم ہونے والے اندھیرے کے بارے میں کس سے پوچھوں، مجھے پڑوسیوں سے پوچھنا چاہیے۔“

پھر وہ آدمی اپنے پڑوسی کے دروازے تک پہنچا۔

ٹَھک، ٹَھک، ٹَھک۔۔۔

”کون ہے؟“

”میں ہوں، آپ کا پڑوسی۔“

”اس وقت؟“

”معذرت چاہتا ہوں، دراصل میں نے پوچھنا تھا، یہ سورج کیوں نہیں نکل رہا؟“

”کیا تمہیں معلوم نہیں؟“

”نہیں، میں تو بس انتظار کرتا رہا ہوں۔“

”اب نہیں نکلے گا سورج۔ ہماری بستی میں سورج کا بھلا کیا کام۔۔“

”تو ہم اندھیرے میں کیسے دیکھیں گے؟“

”جیسے ابھی دیکھ رہے ہیں۔“

یہاں پرندوں کا مرنا حادثہ نہیں

وہ بوڑھا شہر کا پہلا آدمی تھا، جس نے، اس صبح جب ابھی سورج نکلنے میں کافی وقت تھا، آسمان پر پرندوں کی بے پناہ پھڑپھڑاہٹ کو سنا تھا۔

وہ اپنے ایک کمرے کے مکان سے باہر نکل کر آسمان کو یوں تکنے لگا، جیسے اس نے زندگی میں پہلی بار سر اٹھا کر اوپر کی جانب دیکھا ہو۔

’اتنے پرندے ایک ساتھ کہاں سے آ سکتے ہیں اور وہ بھی اتنی صبح صبح؟‘

پرندے اب بہت نیچی پرواز کر رہے تھے۔ ایک ساتھ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور باریک آواز یوں تھی جیسے وہ کانوں کے پردے پھاڑ دے گی۔

’یہ کس طرح کے پرندوں کی آواز ہے؟‘ ، بوڑھے نے سوچا۔ عمر کے گزرے سالوں میں اس نے کبھی کسی پرندے کی ایسی آواز نہ سنی تھی کہ ان آوازوں میں اداسی بھی شامل تھی، جیسے پرندے نوحہ کناں ہوں۔

وہ ڈر کر کمرے میں آ گیا اور دروازہ بند کر لیا۔ پرندے اب روشن دانوں سے ٹکرا ٹکرا کر گر رہے تھے۔

جب روشنی ہوئی تو بوڑھے نے کھڑکی کے شیشے سے باہر گلی میں دیکھا، جہاں مردہ پرندوں کے ڈھیر لگے تھے اور لوگ شاندار لباسوں میں ملبوس اپنے اپنے دفتروں، دکانوں اور درس گاہوں میں جانے کے لیے رواں دواں تھے، وہ پرندوں کے مردہ ڈھیروں کو یوں پھلانگ رہے تھے جیسے وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔

بوڑھا یہ منظر دیکھ کر اس قدر حیرت زدہ ہوا کہ اس نے اپنی آنکھیں نکال کر کھڑکی سے باہر پھینک دیں اور ہنستے ہوئے باہر گلی میں آ گیا۔

بڑا مکان

بچپن سے اس کے سر میں ایک بڑا گھر بنانے کا جنون سوار تھا۔

دفتر میں ساتھی کہتے، ”کچھ وقت اپنے لیے بھی نکالو۔ کب تک یہ اوور ٹائم لگاتے رہو گے؟“

”جب تک اپنا گھر نہیں بن جاتا۔“

”مگر تمہارے پاس تو ایک گھر ہے۔“

”ہاں لیکن وہ بہت چھوٹا ہے اور ہے بھی کرائے کا۔۔ وہاں تو ہوا بھی پوری طرح میسر نہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں بچپن سے فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں ہی نگل رہا ہوں۔۔ مگر اب میں اپنا گھر بناؤں گا۔“

اس کے باپ نے بھی بے حد محنت مشقت بھری زندگی گزاری تھی مگر وہ بھی مکان نہ بنا سکا۔

’اس ایک زندگی میں بڑا مکان بنانا کس قدر مشکل کام ہے.‘ ، وہ اکثر رات کو سوچتا۔

”بیٹا اپنا گھر اپنا ہوتا ہے۔ کب تک کرائے کے چھوٹے سے کمرے میں رہو گے۔ میں نے عمر بھر کوشش کی مگر میں کامیاب نہ ہو سکا۔۔ لیکن تم ضرور بنانا۔“ ، اس کے باپ نے آخری وقت تک اسے یہی نصیحت کی تھی۔

پھر ایک روز شہر کی شاندار ہاؤسنگ سوسائٹی میں اس نے بڑا سا مکان بنا لیا۔

تاہم اب بھی وہ ایک بڑا مکان بنانا چاہتا ہے۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close